انتشاری کیفیت سے نکلنے کے لیے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
گزشتہ کئی دہائی سے دنیا بھر کے مسلمانوں بالخصوص عالم اسلام میں جس طرح افتراق وتفریق، بے چینی اور عدم اطمینان کی کیفیت پائی جارہی ہے اس نے ان ملکوں کا سکون اور امن وامان غارت کر رکھا ہے جس کی وجہ سے مسلم ممالک آپس میں برسرپیکار ہیں اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں، ظلم وستم کر رہے ہیں اور یہ سب کچھ ایک اللہ ایک قرآن کے حاملین کے ذریعہ انجام دیا جا رہا ہے جس کی وہ رات دن دہائی دیتے ہیں۔ یہ صورتحال جہاں دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ دیکھنے کو مل رہی ہے جن کی سفاکی اور سنگدلی نے مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ معصوموں کو نشانہ بنانا اور بے قصوروں کو جہاد کے نام پر موت کے گھاٹ اتار کر اپنے گھناؤنے فعل کو حق بجانب ثابت کرنا۔ اسی کے ساتھ خود عام مسلم گروہوں میں بھی اس قسم کے مناظر دکھائی پڑتے ہیں جہاں برتری اور غلبہ کی خواہش نے معاشرے کو بری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ خود کو برتر اور اعلیٰ بتانے کے تصور نے دوسرے کو حقیر اور کمتر بنا دیا ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا میں ہماری پہچان ایک لڑاکو اور خونخوار قوم کے طور پر کی جارہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ پہچان کا یہ سایہ مضبوط اور قوی ہوتا جارہا ہے۔ بات چاہے مسجد میں بم دھماکے کی ہو یا یورپ کے کسی بازار میں بے گناہ اور نہتے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ہو۔ ہر جگہ مسلم نام نمایاں طور پر دکھائی پڑتا ہے۔ یہ بات بھی کم اہم نہیں ہے کہ وہ ممالک جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں بلکہ اقلیت میں ہیں وہاں بھی ان میں اتحاد نہیں پایا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کو کافر اور بھٹکا ہوا بتانے سے کسی کو پرہیز نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے عام مسلمانوں میں اتفاق کے بجائے اختلافات کا عنصر زیادہ دکھائی پڑتا ہے۔ ایک فریق دوسرے فریق کو طنزوتشنیع کا نشانہ بناتا ہے اور ایسا وہ حق سمجھ کر کرتا ہے جس سے قدم پیچھے ہٹانا اس کے لیے یقین وایمان کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ مذہب کے نام پر جس طرح تشدد پروان چڑھ رہا ہے وہ اپنے آپ میں ایک بڑا سنگین اور نازک مسئلہ ہے۔
اس تناظر میں بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں جس قسم کا باہمی انتشار پایا جاتا ہے اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ فروعی مسائل ہیں یا پھر فقہ میں آراء کو لیکر ہے یا پھر بنیادی مسائل میں اختلاف ہے جس کی وجہ سے ایک فریق دوسرے فریق کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے اور کفر کا فتویٰ لگانے میں دیر نہیں کرتا ہے۔ یہ صورتحال محض ایک دو دن کی پیداوار نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دہائیوں کا سفر ہے جس نے مسلمانوں کے ذہنوں کو پوری طرح زہرآلود کر دیا ہے اور وہ اس مخصوص ذہن سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں اس سے مسلمانوں کی جو تصویر اقوام عالم میں بنی ہے وہ نہایت خونخوار اور ڈراونی ہے۔ اسے یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تو اغیار کی سازش کا نتیجہ ہے بلکہ خود اس میں ہمارا بھی رول ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اختلاف نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی یہ غیرمطلوب بلکہ علماء کرام کے اختلاف کو باعث رحمت بتایا گیا ہے۔ خود فقہاء میں کسی ایشو کو لیکر آراء کا اختلاف رہا ہے لیکن اس سے نہ تو ان کی عظمت اور کردار پر کوئی حرف آیا اور نہ ہی اس بنیاد پر کسی نے انہیں لعن تعن کیا بلکہ اختلاف کرنے والوں نے اپنے عمل اور کردار سے جو ثبوت دیا وہ رواداری، قوت برداشت اور احترام کا جیتا جاگتا نمونہ ہے جو ہم سب کے لیے بہترین مثال ہے۔ اس کے باوجود ان کی آراء کو لیکر ہم آپس میں اس قدر متشدد ہیں کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے سے بھی باز نہیں آرہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی تعلیمات کے برعکس ہمارا یہ رویہ کیونکر ہے؟
ایک بات اکثر دیکھی گئی ہے کہ لوگ فقہی مسائل کے سلسلے میں براہ راست علماء سے رجوع کرنے کے بجائے سڑکوں پر اس مسئلہ کو موضوع گفتگو بناتے ہیں اور ہر کوئی اپنی سمجھ اور سوچ کے اعتبار سے اس میں حصہ لیتا ہے اور صحیح غلط کی تمیز کرتا ہے۔ اس کا یہ انداز دراصل اپنے قائدین کی اس سوچ کے مطابق ہوتا ہے جس سے حوصلہ پاکر وہ اسے عوامی بنا دیتے ہیں۔ بحث ومباحثہ کی تکرار اور اعلیٰ وارفع کی خواہش کسی کو بھی پیچھے ہٹنے نہیں دیتی ہے جس کی وجہ سے دونوں فریق کسی ایک مسئلہ پر آمنے سامنے آجاتے ہیں اور ائمہ کی قوت برداشت کی روایت کے برعکس آپس میں ہی الجھ جاتے ہیں۔ نماز اسلام کا ایک اہم رکن ہے۔ حضور ﷺ نے اسے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بتایا ہے اور نماز ہی مسلم اور غیرمسلم میں تمیز کرتی ہے اس کے باوجود کچھ لوگ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں تو کچھ ہاتھ کھول کر، تو کچھ سینے پر ہاتھ باندھ کر اس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود سب کی نماز صحیح ہے اور ہر کوئی اپنے ائمہ کے مطابق پیروری کرتا ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ جو لوگ ہاتھ نہیں باندھتے یا سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں ان کی نماز نہیں ہوتی، بلکہ سب کا اجماع ہے کہ نماز ہو گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کی ہر ادا اتنی پسند تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جس طرح بھی نماز پڑھی اللہ تعالیٰ نے اسے ائمہ کے ذریعہ تا قیامت محفوظ کر دیا۔ جس پر عمل کرنا عین سنت رسول ﷺہے۔
مسلمانوں میں 72 فرقوں کی بات کہی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ایک فرقہ برحق ہے باقی سب ناحق ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ کوئی سا فرقہ جنت میں جائے گا کیونکہ اس کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی کرے گا لیکن بحیثیت داعی امت کے ہمارا نظریہ کیا ہونا چاہیے اور اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کیا ہے۔ کیا ہم ان دیگر فرقوں سے ایشوز کو لیکر نبردآزما ہو جائیں اور ساری قوت اس بات پر صرف کر دیں کہ ہم حق پر ہیں اور دوسرا حق پر نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ اسلامی تعلیمات اور انسانی سوچ کے خلاف ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں وہی ہو گا جو ان دنوں پوری دنیا میں مسلمانوں کے درمیان دیکھنے کو مل رہا ہے لیکن اگر اس کے برخلاف ہم دوسرے فریق کے تئیں قوت برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بھی عزت واحترام دیں تو اس بات سے انکار نہیں کہ ان کے دلوں کو جیتا جا سکتا ہے اور برسرپیکار ہونے کی جو کیفیت ہے وہ ختم ہو سکے۔ یہاں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وہ مثال دینا غلط نہ ہو گا جب اللہ تعالیٰ نے فرعون وقت کے پاس بھیجا کہ جاؤ اس کو نصیحت کرو شاید کہ وہ سدھر جائے۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اسے فرعون کا رویہ معلوم تھا اس کے باوجود اس نے اپنے پیغمبر کو نصیحت کی کہ نرمی سے بات کرنا شاید وہ سدھر جائے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے نبی کو یہ ہدایت کیا ہمارے لیے یہ پیغام نہیں ہے کہ ہم اپنی بات کو پیار، نرمی اور محبت سے پیش کریں اور دوسرے کو حقیر وکمتر نہ سمجھیں بلکہ اسے بھی وہی عزت واحترام دیں جس کا وہ حقدار ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو بغیر کسی بجٹ کے کام کرتا ہے اور اپنے اثرات کے لحاظ سے بہت پائیدار ہوتا ہے۔ جس پر عمل کر کے ہر کوئی مشاہدہ کر سکتا ہے، شرط صرف امر سلیقہ میں ہے۔
دنیا کے بدلتے ہوئے تناظر میں جہاں علما کو وقت کے چیلنجر، زمانے کے تغیرات، اندرونی کمزوری اور مضبوطی، اغیار کے طریقہ کار اور سازشوں کو سمجھنے ان کی حکمت عملی پر غور کرنے، بہتر طریقۂ کار اختیار کرنے کے راستے ہموار کرنے کی ضرورت ہے وہیں دانشوروں کو بھی گہرائی سے سوشل اور سائیکالوجیکل پہلو کو سمجھنے، مسلمانوں کے انتشار کی فطرت کو سمجھنے اور حالات کے مطابق بہتر حکمت عملی بنانے، علماء اور دانشوروں میں اچھے تال میل کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ آج کے نوجوان خواہ دینی علوم سے منور ہو رہے ہوں یا عصری علوم سے مستفید ہو رہے ہوں، انہیں ان چیلنجز کو علم، سمجھ، فہم، حالت کی نزاکت، مختلف ادیان کی فطرت، اغیار کی حکمت عملی کو سمجھنے، اسلامی جذبہ کو بیدار کرنے اور جذباتیت سے بچتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ آج کا صِغار کل کا غبار ہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home