سلسلہ13
*داعی اور ذکرِ الہی*


. قرآن مجید میں ذکرِ الہی کو مومن کے بنیادی وصف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے. یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سچے مومن کے سامنے جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو خالقِ کائنات کی بے مثال ہستی اور اس کی لاثانی قدرت و طاقت کا اندازہ کرکے اس کا دل لرزنے لگتا ہے. جب وہ اپنے رب کے بے حد و حساب احسانات کو یاد کرتا ہے تو اس کا رُواں رُواں اپنے پروردگار کی حمد و ثنا میں مشغول ہوجاتا ہے. اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر کام میں اپنے رب کی مرضی تلاش کرنے لگتا ہے. اسی کیفیت کو دائمی ذکر کہا جاتا ہے. ایک مومن سے اپنے رب کی اسی دائمی یاد کا مطالبہ کیا گیا ہے.

. ذکر کے بارے میں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ذکر دل کا بھی ہوتا ہے، زبان کا بھی ہوتا ہے اور عمل کا بھی ہوتا ہے. صاحبِ ایمان کسی ایک ذکر پر اکتفا نہیں کرتا. بلکہ یہ تینوں ذکر اس کی زندگی کا جزو لاینفک ہوتے ہیں. ان تینوں اذکار میں اصل حیثیت دل کے ذکر کو حاصل ہے. کیوں کہ اللہ کے ذکر کا اصل مرکز اور انسانی کردار و عمل کو سنوارنے کا سب سے بڑا ذریعہ دل کی اصلاح ہے. دل کا تزکیہ، پورے جسم اور پوری زندگی کے تزکیے کا سب سے مؤثر ذریعہ ثابت ہوتا ہے. انسان کی سوچ، فکر، کردار اور عمل، سب کچھ دل کی اصلاح سے وابستہ ہے. دل کو روشن کرکے اپنی سوچ، عمل اور زندگی کے ہر شعبے کو روشن کیا جاسکتا ہے.

. ذکرِ الہی اور یادِ الہی کی یہ مقدس کیفیت ہر مومن کے اندر ہونی چاہیے. بلکہ ہر مومن کو اس کیفیت کی سخت ضرورت ہوتی ہے. خاص طور پر دعوتی میدان میں کام کرنے والے افراد کو اس مبارک کیفیت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے. کیوں کہ دعوتی زندگی کے تقاضوں اور دعوتی تجربات کے نشیب و فراز میں ذکرِ الہی اُس کا مربی بھی ثابت ہوتا ہے اور اس کا مضبوط سہارا بھی بنتا ہے. ایک انسان، ایک مومن اور ایک داعی کو اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ان دونوں چیزوں (تربیت اور سہارے) کی ضرورت ہوتی ہے. ذکرِ الہی ان دونوں ضرورتوں کی تکمیل کا سب سے کارآمد نسخہ ہے ڈاکٹر محمد منظور عالم

چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی




Back   Home