سلسلہ15
اسماء حسنی کی وسعت


اللہ تعالیٰ اکیلا اور تنہا ہے. اس کی توحید کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اُس کے بہت سے صفاتی نام بھی ہیں. اُن صفاتی ناموں میں سے کچھ نام ایسے ہیں، جن سے اس کی شفقت و نرمی اور اپنی مخلوق پر بے پناہ رحمت و عنایت کا اظہار ہوتا ہے۔ کچھ نام ایسے ہیں، جن سے اس کے غیظ و غضب اور نافرمانوں کے ساتھ سخت ترین رویے کا پتا چلتا ہے۔ کچھ نام ایسے ہیں، جن سے اس کی قدرت اور بے پناہ وسعت و اختیار کا علم ہوتا ہے۔ انھیں ہم جمالی، جلالی اور کمالی اسما بھی کہتے ہیں۔ ان تمام قسموں کے نام پروردگار عالم کی شان و شوکت اور عظمت و رفعت ظٓاہر کرتے ہیں۔

اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اس کائنات کو پیدا کرنے، چلانے اور انجام تک لے جانے والا خدا ہی حقیقی خالق و مالک اور قادرِ مطلق ہے۔ انسانی نفسیات جس خدا کو تلاش کرتی ہے، وہ تلاش اسی خدا پر جا کر مکمل ہوتی ہے، جس کے اندر مذکورہ تمام اوصاف و کمالات ہوں۔ ورنہ غیر حقیقی اور انسانوں کے بنائے ہوئے خدا نہ کوئی طاقت رکھتے ہیں اور نہ انھیں کوئی اختیار حاصل ہوتا ہے۔ انسانی فطرت ہمیشہ ایسے خدا کو تلاش کرتی رہی ہے، جو اپنی ذات و صفات میں لا محدود اور بے مثال ہو۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ ہمیں اسی حقیقی خدا اور اصلی معبود تک پہنچاتے ہیں۔

ایک انسان اور خاص طور پر ایک مسلمان داعی کی زندگی میں خالق کائنات کی تمام صفات کا ادراک ایک انقلاب برپا کردیتا ہے۔ ایک لامحدود اور بے مثال خدا کی توفیق کے سہارے اسی خدا کی طرف انسانوں کا بلانے کا تجربہ اس کے لیے نہایت دل کش اور دل فریب ہوتا ہے۔ جمالی، جلالی اور کمالی صفات کے ادراک کے ساتھ جب وہ آگے بڑھتا ہے تو ’’بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق‘‘ کا تاریخی منظر سامنے آتا ہے۔ کیوں کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے سر پر ایک بے مثال ہستی کا سایا ہے اور وہ اسی عظیم ترین ذات کی طرف دنیا کو بلا رہا ہے۔

ڈاکٹر محمد منظور عالم

چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی




Back   Home