سلسلہ 2
دعوتِ اسلام انسانوں کے درمیان


انسانوں کے درمیان باہمی تعلقات میں سب سے پہلا رشتہ انسانیت کا ہوتا ہے. وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں. اس لیے رنگ و نسل اور مذہب و ملت سے پہلے اُن کے درمیان جو رشتہ قائم ہوتا ہے، وہ انسانیت کا رشتہ ہے. اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے. قرآن و حدیث میں جا بہ جا بتایا گیا ہے کہ مذہب و قوم الگ ہونے کے باوجود تم کو انسانی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرنا چاہیے. یہ ایک متفقہ اسلامی اصول ہے، جس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے

.اس سیاق میں جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک اور دل چسپ بات نظر آتی ہے. اللہ تعالیٰ کفار کے متعلق فرماتا ہے کہ اگر ہم نے موت یا قیامت کا ایک وقت متعین نہ کر رکھا ہوتا تو ہم ان کو ابھی ایک جھٹکے میں برباد کر دیتے. اُن کے کفر و شرک کی پاداش میں انھیں فوراً عذاب میں مبتلا کردیتے. لیکن چوں کہ ہم نے ایک نظام طے کر لیا ہے اور اُن کی موت کا اور قیامت کا ایک وقت متعین کر لیا ہے، اس لیے ہم ان کو فوراً ہلاک نہیں کریں گے، بلکہ انھیں چھوٹ دیں گے. اب وہ چاہیں تو اس چھوٹ سے فائدہ اٹھا کر ہدایت حاصل کر لیں اور چاہیں تو تباہی و بربادی کو اپنا مقدر بنا لیں. یہ بات سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 14 اور دوسرے مقامات پر بھی کہی گئی ہے.

. اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد اور اس نظام سے ہمیں بڑی رہنمائی ملتی ہے. ہمیں یہ بات سوچنی چاہیے کہ ہمارے غیر مسلم برادران کو جب اللہ تعالیٰ نے ایک مقررہ وقت چھوٹ دے رکھی ہے تو انھیں اسی دنیا میں جہنمی قرار دے کر دعوتِ اسلام سے محروم کرنے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت دی ہے تو ہمیں بھی اپنی زبانوں کو قابو میں رکھنا چاہیے اور ان کی ہدایت کا ہرممکن سامان کرنا چاہیے. دعوتِ اسلامی کے تمام ممکنہ وسائل اختیار کرکے انھیں اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کی طرف بلانا چاہیے. کیا بعید کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی موت سے پہلے اسلام کی آغوش میں آجائے. اس طرح اُس کا مقدر بھی سنور جائے اور ہم بھی اللہ کی پکڑ سے بچ جائیں

ڈاکٹر محمد منظور عالم

چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی




Back   Home