صدر ترکی رجب طیب اردگان کا ایک اہم مقالہ

ترکی اور امریکہ کا حالیہ بحران

از: رجب طیب اردگان (صدر جمہوریہ ترکی)

ترکی اور امریکہ کے حالیہ بحران کے مختلف پہلوؤں پر محیط زیرنظر مضمون خود صدر جمہوریہ ترکی رجب طیب اردگان کا تحریر کردہ ہے۔ یہ مضمون نیویارک ٹائمز میں 10؍ اگست 2018 کو شائع ہوا تھا۔ مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اس کا ترجمہ اردو قارئین کے استفادہ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔


گزشتہ 6؍ دہائیوں میں ترکی اور امریکہ اہم شرکاء (Strategic Partners) اور نیٹو کے حلیف رہے ہیں۔ سرد جنگ اور اس کے بعد یہ دونوں ممالک مشترک چیلنج کے سامنے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے رہے ہیں۔

اس دوران ہمیشہ ترکی ضرورت کے وقت امریکہ کی مدد کے لیے پیش پیش رہا ہے، چنانچہ ہمارے لشکر اور ہمارے فوجیوں نے کوریا میں ایک ساتھ خون بہایا ہے۔ کیوبا کے میزائل بحران کی شدت کے وقت ترکی نے بحران کے خاتمے کے لیے امریکہ کی کوششوں کو تیزتر کیا، جس کے لیے اس نے اپنی زمین پر جوپیٹر میزائل کے نصب کیے جانے کی منظوری دی، اور 11؍ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد، جب کہ واشنگٹن نے اپنے دوستوں اور اپنے حلیفوں پر شر کی قوتوں کا جواب دینے کے لیے اعتماد کیا تو ہم نے نیٹو کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی فوجوں کو افغانستان بھیجا۔

اس کے باوجود متعدد بار امریکہ ترکی عوام کے رجحانات کو سمجھنے اور ان کا احترام کرنے میں ناکام رہا، خاص طور پر گزشتہ چند سالوں میں، اسی طرح اختلافات کے رونما ہونے کے وقت ہماری شرکت کی آزمائش میں بھی ناکام ثابت ہوا۔ بدقسمتی سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ ہماری جدوجہد اس سمت میں بالکل بانجھ ثابت ہو گی جب تک کہ امریکہ ترکی کی خودمختاری کا احترام نہیں کرے گا، اور اسی طرح یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جب تک امریکہ ان خطروں کا احساس نہیں کرے گا جو ہمارے ملک کو درپیش ہیں تو ہماری شرکت بھی خطرے سے دوچار رہے گی۔

15؍ جولائی 2016 کو ترکی فتح اللہ گولن (جو امریکہ کے پنسلوانیہ صوبے کے قصبہ کی ایک رہائشی کالونی میں رہتے ہوئے ایک ایسی تنظیم کی قیادت کر رہا ہے جسے سرکاری طور پر میری حکومت دہشت گرد قرار دے چکی ہے) کے ایک گمنام ٹولے کے ارکان کے ذریعہ دہشت گردانہ حملے کا شکار ہوا۔ گولن کے لوگوں نے میری حکومت کے خلاف خونی انقلاب برپا کیا۔ اس رات قومی جذبے سے سرشار لاکھوں عوام سڑکوں پر اتر آئے، یہ منظر بالکل ایسا ہی تھا جیسا امریکہ میں بیرل ہاربر اور 11؍ ستمبر کے حملوں کے بعد دیکھنے میں آیا تھا۔

اس موقع پر 250 معصوم انسانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان عظیم لوگوں میں میری انتخابی مہم میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے ایک طویل مدت تک کام کرنے والے میرے عزیز دوست ایرول اولتشاک اور ان کے لخت جگر عبد اللہ طیب اولتشاک شامل ہیں، یہ وہ زبردست قیمت ہے جسے ہماری قوم نے آزادی کے لیے ادا کیا ہے۔ اور اگر موت کا یہ گروہ جو میرے اور میرے خاندان کے درپے تھا کامیاب ہو جاتا تو میں بھی انہی شہیدوں میں شامل ہوتا۔

ترکی قوم کو بجا طور پر یہ توقع تھی کہ امریکہ بغیر کسی ابہام کے واضح طور پر اس حملے کی مذمت کرے گا اور ترکی کی منتخب قیادت کے ساتھ اپنی یکجہتی کا ببانگ دہل اعلان کرے گا۔ لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یقیناًامریکہ کا ردعمل پسندیدہ نہیں تھا۔ اور ترکی کی جمہوریت کا ساتھ دینے کے بجائے امریکی ذمہ داران محتاط انداز میں ’’ترکی کے سیاق میں استحکام، امن وسلامتی اور تعاون‘‘ کی دعوت دیتے رہے۔ اور جس چیز نے صورت حال کو اور بگاڑ دیا وہ یہ تھی کہ دو طرفہ معاہدے کے مطابق فتح اللہ گولن کو امریکہ کے حوالے کیے جانے کی ترکی کی درخواست کے سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

مایوسی کی دوسری وجہ امریکہ اور YPG/ PYD (کرد پارٹی کی شامی شاخ) کے درمیان شرکت کا تعلق ہے، جب کہ یہ ایک ایسا مسلح گروہ ہے جو 1984 سے ہزارہا ترک باشندوں کے قتل کا ذمہ دار ہے اور جسے خود امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اور ترکی ذمہ داران کے اندازوں کے مطابق واشنگٹن نے گزشتہ چند سالوں میں YPG/ PYD کے ہتھیاروں کو منتقل کرنے کے لیے 5,000 ٹرک اور 2,000 ہوائی جہاز استعمال کیے۔ میری حکومت نے بارہا امریکی ذمہ داران کے ساتھ ملاقاتوں میں شام میں کرد پارٹی کے جنگجوؤں کو مسلح کیے جانے اور ان کو فوجی تربیت دیے جانے کے امریکی عمل کے تئیں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ لیکن ہماری تشویش ہمیشہ بے اثر ثابت ہوئی، اور شام، عراق اور ترکی میں امریکی اسلحہ کو معصوم شہریوں اور ہماری سلامتی فوج کے ارکان کو نشانہ بنانے کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا۔

گزشتہ ہفتوں امریکہ نے ترکی پولیس کے ذریعہ دہشت گرد تنظیم کی مدد کے الزام میں امریکی شہری اینڈوبرونسن کی گرفتاری کو بہانہ بناتے ہوئے ترکی کے خلاف مسلسل اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا اور عدالتی کاروائی کا احترام کرنے کے بجائے (جیسا کہ میں نے بہت سی ملاقاتوں اور مذاکرات میں صدر ٹرمپ کو آمادہ کرنے کی کوشش کی) امریکہ نے ایک دوست ملک کے خلاف تیزوتند دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور میری حکومت کے متعدد ارکان پر پابندیاں لگانی شروع کر دیں۔ ظاہر ہے کہ فیصلہ ناقابل قبول بھی تھا اور غیر منطقی بھی تھا اور بالآخر اس نے ہماری طویل دوستی کو نقصان پہنچایا۔

پھر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ترکی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوتا ہم نے بھی جواباً کئی امریکی ذمہ داروں پر پابندیاں عائد کر دیں، اور ہم آئندہ بھی اسی اصول پر عمل پیرا رہیں گے: میری حکومت کو عدالتی کاروائی میں دخل اندازی پر مجبور کرنے کی کوشش نہ تو ہمارے دستور سے میل کھاتی ہے اور نہ ہماری مشترکہ جمہوری قدروں کے شایان شان ہے۔

ترکی نے بارہا اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے خصوصی مفادات کا خیال رکھے گا، خواہ امریکہ اس کی طرف سے چشم پوشی کر لے۔ گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں ترکی کی حکومت نے واشنگٹن کے اعتراضات کے باوجود قبرص کے یونانی باشندوں کو قتل عام سے محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدام کیا تھا۔ اور اب ایک بار پھر شام کے شمالی خطے سے ہماری قومی سلامتی کو لاحق دھمکیوں سے متعلق ہمارے اندیشوں کے ادراک میں واشنگٹن کی ناکامی دو فوجی حملوں کی شکل میں ظاہر ہوئی، جن کے باعث داعش نامی تنظیم کے نیٹو کی حدود تک پہنچنے کا راستہ منقطع کر دیا گیا اور عفرین شہر سے کرد تنظیم کے جنگجوؤں کا صفایا کر دیا گیا۔ اِن حالات میں ہم اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے لازمی اقدامات سے گریز نہیں کریں گے۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ شر کی قوتیں پوری دنیا میں نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں کئی دہائیوں پر محیط ہمارے حلیف امریکہ کی جانب سے ترکی کے خلاف یکطرفہ کاروائیاں صرف امریکی مفادات اور سلامتی کو نقصان پہنچانے پر ہی منتج ہوسکتی ہیں۔ اسی لیے وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے واشنگٹن کے لیے لازمی ہے کہ وہ اُس گمراہ تخیل سے باز آجائے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے تعلقات برابری کے نہ رہیں اور جس کے نتیجے میں ترکی کو اس حقیقت سے مصالحت کرنی پڑے کہ اس کے پاس دیگر متبادل بھی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ یکطرفہ رجحان اور عدم احترام ہمیں نئے دوستوں اور نئے حلیفوں کی تلاش پر مجبور کر دے گا۔




Back   Home