عمدہ طرز حکمرانی اورمرکز کی ڈھائی سالہ حکومت
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
’’عمدہ طرز حکمرانی‘‘ (Good Governance) لفظ کا استعمال پہلی بار 1989میں عالمی بینک کی اشاعت میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعداسی بینک نے 1992میں ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا ’طرز حکمرانی اور ترقی(Good Governance & Developemnt) ، جس سے اس اصطلاح کے تصور اور انضباط مزید واضح ہوئے۔ 1997 میں مذکورہ بینک نے عمدہ طرز حکمرانی کو ترقی کے لیے بنیادی شرط کے طور پر از سر نو تعریف کی جس میں عمدہ طرز حکمرانی یعنی انسانی ہمہ گیر ترقی کے اصول وبقا کا ذریعہ ہے۔ اس کی توجہ اصلاً یہ دیکھنے پر مرکوز ہوگی کہ کس طرح حکومت اپنے نمائندوں کو اس بات کا اہل بناتی ہے کہ وہ ’عقیدہ، ذات،برادری،طبقہ اور سیاسی نقطۂ نظر اور اجتماعی وابستگی سے قطع نظر عوام کے مفاد کے لیے سوچ سکیں اور اقدام کرسکیں جس سے انھیں یعنی عوام کو صاف ستھری، خوشحال، خود مختار زندگی کا موقع ملے سکے۔
گڈ گورننس کی اصطلاح اور اس کے استعمال کے لیے اس کا لچک دار ہونا ضروری ہے اور اس تصور کے احاطہ میں موثر شرکت کا مکمل احترام،انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی،مختلف شعبوں کے افراد کی شرکت اور احتساب کا عمل، سیاسی تکثیریت(Political Pluralism) ، شفافیت اور ادارہ جاتی عمل، باصلاحیت اور موثر مفاد عامہ کا شعبہ قانوناً درست اور صحیح معلومات تک رسائی، معلومات وتعلیم، لوگوں کو سیاسی طور پر مستحکم بنانا، مساوات، وہ قدریں جو ذمہ داری، یکجہتی اور رواداری کو مضبوط کریں،عمدہ طرز حکمرانی کا تصور پیدا کرتا اور فروغ دیتا ہے اور عمدہ طرز حکمرانی میں 9عناصر جوہری اجزاء یا اساسی عناصر پر مشتمل ہیں۔ مشارکت، مجموعی رائے کا حصول، جوابدہی،شفافیت، مسائل کے حل کے لیے پیش قدمی، موثر وفعال مساویانہ شمولیت، قانون کے دائرے میں عمل اور افرمیٹیو ایکشن خاص طور سے اقلیتوں کے لیے معاشرے کے پست طبقہ کے لیے فیصلہ سازی میں اہمیت دی جاتی ہے جس سے بدعنوانی کم سے کم ہوجائے۔
اس روشنی میں مرکز کی این ڈی اے قیادت والی بی جے پی حکومت کی 2189 سالہ حکمرانی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس تصور پر کتنا عملدر آمد کیاگیا ہے۔ ڈھائی سالہ حکومت نے بہت سے نعروں میں یہ نعرہ بھی بڑے زور وشور سے پیش کیا تھا کہ ’’مختصر حکومت اور کثیر حکمرانی‘‘ کا ماڈل پیش کریں گے۔ یہاں اس بات کی کوشش کریں گے کہ مساوات جو دستور کا لازمی حصہ ہے اس پر عملدر آمد کس حد انجام دیا گیا۔ حکومت کے آتے ہی پورے ملک میں نفرت کی ہوا چلی، لوجہاد، گھر واپسی،مسجد اور چرچوں پر حملے، دلتوں، آدی واسیوں کی روزی روٹی پر لات مارنا شروع کیا، روزی روٹی میں تنگی پیدا کی جانے لگی۔ ماحول میں اشتعال اور نفرت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش ہوری ہے۔ کیا یہ مساوات کے نمونے ہیں؟ مساوات کو برقرار رکھنے کے لیے جو بڑی ذمہ داری لاء اینڈ آرڈر اور پولیس کی ہوتی ہے لیکن جس طرح لاء کا نفاذ ہورہا ہے اس میں قانون نظر نہیں آتا، نظم ونسق یکطرفہ نظر آتا ہے جس کے نتیجہ میں کچھ تنظیموں، کچھ گروہوں اور کچھ ذاتوں کو مکمل چھوٹ ملی ہوئی ہے چاہے وہ گؤ رکشکوں کی شکل میں ہوں،دفاع کے نام پر ہتھیاروں کی ٹریننگ دی جارہی ہے اور دستور کو منواسمرتی کی روشنی میں بدلنے کی بات کہی جارہی ہے۔ان لوگوں پر قانون بے چارگی اور بے بسی کا شکار نظر آرہا ہے مگر کمزور طبقات خواہ مسلمان،دلت،آدی واسی یا اقلیت ہوں ان پر قانون یکطرفہ عمل میں آجاتا ہے جس کے نتیجہ میں معصوم لوگ یا تو جیل کی کوٹھریوں میں بند کردئیے جاتے ہیں یا مختلف الزامات کے تحت انھیں گرفتار کرلیا جاتا ہے اور جو اصل مجرم ہیں ان پر قانون کی حکمرانی نظر نہیں آتی۔ کیا اسے اہم ذمہ دارانہ اور شفافیت کا رویہ کہہ سکتے ہیں؟
زہر افشانی وہی گروہ قانون کے رکھوالے، حکومت وقت کے بڑے بڑے ذمہ داروں بشمول وزراء دھڑلے سے پھیلارہے ہیں، خواہ پارلیمنٹ کے اندرہو یا پارلیمنٹ کے باہر، نفرت کو اپنا وسیلہ بناکر مسلمانوں اور کمزور طبقات کے خلاف کھلے عام عوام کو اکسانے کا کام کررہے ہیں اور یہاں تک کہ ایسے بیان بھی آتے ہیں کہ ان کا قد چھوٹاکیا جاسکتا ہے۔ کیا یہ پھول باٹنے کی بات ہے؟کیا محبت کو پروان چڑھانے کی بات ہے؟یا نفرت کو پھیلانے اور آگ بھڑکانے کاکام ہے۔ اسی نفرت کا مجموعی اثر یہ پڑرہا ہے کہ کمزوروں بالخصوص مسلمانوں کی جان ومال نہ صرف خطرے میں ہے بلکہ ان کی خواتین کی عزت وآبرو اسی بھڑکاؤ بیان کے نتیجہ میں اکثر وبیشتر ایسے واقعات رونماہورہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں معصوم بچیوں کی عزت وآبرو سے کھلواڑ صرف اسی لیے کیا گیا کہ ان لوگوں کے اندر نفرت کی شدت تھی اور گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں اپنی ہوس کو پورا کیا۔ کیا یہ انسانیت کا طرز عمل ہے، کیا یہ جمہوریت میں شفافیت کو مضبوط کررہی ہے۔
تعلیم کسی ملک کی نہ صرف ریڑھ کی ہڈی ہے بلکہ ترقی کی ضمانت بھی دیتی ہے۔ تعلیم ہی ہے جو مثالی سماج بناتی ہے اور تعلیم کے ذریعہ ہی ملک دنیا میں اپنی اعلیٰ قدروں کو پیش کرپاتا ہے۔ یہ تعلیم ہی ہے جس سے سائنس اور ٹکنالوجی میں اضافہ ہوتا ہے،ترقی کی راہیں آسان ہونے لگتی ہیں۔ اعلیٰ وارفع مقاصد تک پہونچ سکتا ہے۔ اگر تعلیم ہی زہر آلود ہوجائے،سماج کے اندر نفرت کی شدت پیدا کی جائے،ایک دوسرے کی جان ومال اور عزت وآبرو سے کھلواڑ کیا جائے تو ایسا تعلیم کو غلط راہ پر لے جانے کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی مثالیں ہر جگہ نظر آرہی ہیں اور جو نئی پالیسی کو لانے کا اہتمام کیا جارہا ہے وہ ملک کے مختلف گروہوں کی جو خدمات ہیں اس سے انکا رکیا جارہا ہے اور ایک مخصوص طبقہ کی ہی خدمات کو قوت ملے گی جس کے نتیجہ میں انسان،انسان میں فرق ، خون خون میں فرق اور انصاف کی راہیں مسدود ہوں گی۔تو کیا اس سے انصاف پسند حکومت بنے گی؟
تعلیمی پالیسی کسی بھی ملک کی تہذیب وتمدن اور مہذب سماج کے بننے میں مددگار ہوتی ہے مگر تعلیمی پالیسی کی بنیاد ہی تفریق اور تعصب پرقائم ہوتو کیا دنیا میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں اس تبدیلیوں میں ہمارا ملک مہذب کہلائے گا، علم کا گہوارہ اور دوسرے کمزور وغریب ملکوں کے لیے نمونہ بن سکے گا؟ کیا یہ شفافیت کا نمونہ بن سکتا ہے؟
اقتصادی پالیسی بھی ملک کی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔ اگر پالیسی ہمت افزائی کا سبب نہ بنے اور اس میں بھی تفریق ہو اور مخصوص ذہن کو مواقع فراہم کرائے جائیں، خوف وہراس کا عالم پیدا ہوجائے، غریب غریب تر ہونے لگے، امیروں کے ہاتھوں دولت سمٹنے لگے اور صرف مزدوری کی راہ بن سکے اور عوام بڑے اقتصادی مشین کا محض پرزہ بننے لگیں، توکیا یہ ملک ترقی یافتہ ہوجائے گا؟ اگرچہ یہ باتیں بڑے زور وشور سے آتی رہتی ہیں کہ ملک کے اندر اکنامک گروتھ ریٹ بڑھ رہا ہے مگر جتنے بھی آزادانہ نقطۂ نظر آرہے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑھنے کے بجائے گھٹتا جارہا ہے کیا میڈیا اس بات کومحسوس نہیں کررہا ہے اور اگر محسوس نہیں کررہا ہے توکیا یہ اچھی اقتصادی پالیسی کہلائے گی؟
تمام رپورٹس یہ بتارہی ہیں کہ مسلمان بالخصوص تعلیم میں بھی کافی پیچھے ہیں اور اقتصادی صورتحال بھی اچھی نہیں ہے۔ان حالات سے اچھی پالیسی کے ذریعہ نکالنے کی ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے۔ دستور ہند نے افرمیٹیو ایکشن کی گنجائش انہی حالات کے لیے خاص طور سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں وآدی واسیوں کے لیے رکھی ہے۔کیا وجہ ہے کہ حکومت دستور میں اس گنجائش کے موجود ہونے کے اس پر کوئی قدم نہیں اٹھارہی ہے؟ کیا یہ ترقی سب کے لیے ہے اور اسے نمونہ کی شکل میں پیش کرسکتے ہیں؟ کیا ایسی صورتحال میں موجودہ حکومت کو جوابدہ حکومت کہہ سکتے ہیں؟
تاریخی طور پر اوردستوری نقطۂ نگاہ سے بھی اچھی حکمرانی کی اصطلاح کی روشنی میں بھائی چارگی اورسماج میں اچھا ماحول جو محبت، اخوت اور سماج کے تانے بانے کو مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کرتا ہے،لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ گزشتہ 2189 سالوں میں جو چیز سب سے زیادہ تباہ وبرباد ہوئی وہ بھائی چارگی اور اخوت ومحبت ہوئی ہے۔ جہاں سماجی تابانے ٹوٹنے لگے،محبت کی جگہ لال خون ٹپکنے لگے، اخوت کی جگہ دشمنی پھیلنے لگے اور کمزور طبقات خواہ مسلمان ہوں یا دلت، آدی واسی ہوں یا دیگر قومیں خوف وہراس کے عالم میں رہنے لگیں تو کیا اس سے ملک مضبوط ہوگا؟ کیا اس کے ذریعہ اچھی حکمرانی کو باور کراسکتے ہیں؟ کیا سمٹتی ہوئی دنیا کو یہ سبق دے پائیں گے کہ ہم باپو کی زمین پر امن وآشتی کا پیغام پہونچانے والے لوگ ہیں۔
ملک کی ترقی کے لیے خاص طور سے حکمراں طبقہ کے لیے یہ ضروری ہے کہ جہاں تعلیم، اقتصاد، روزگار، سماجی تانے بانے، آپسی میل ملاپ کو پروان چڑھانے کے لیے ملک کی تمام اکائیوں اور شہریوں کے لیے کھلے دل سے بغیرکسی تعصب، بھید بھاؤ اور ایک دوسرے سے اچھے تعلقات کو پروان چڑھانے کے لیے یکساں مواقع فراہم کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قوم کے خلاف جو بھی ماحول بنارہے ہوں خواہ ان کی اپنی حکومت کے نظریہ پر عمل کرنے والا ہوتو قانون سب کے لیے یکساں سلوک کرے اس کو بھید بھاؤ کا شکار نہ کرے،انصاف کا تقاضہ ہے کہ قانون اگر خود کے خلاف آئے تو بھی انصاف کو قائم ہونے دینا چاہیے،کیا موجودہ حکومت کی جو حکمرانی ہے اسے اچھی حکمرانی قرار دیا جاسکتا ہے؟
حکومت ہند کو اس روشنی میں اپنے پروگرام اور طرزِحکمرانی کا جائزہ لینا چاہیے جہاں ملک کی بڑی تعداد خوف وہراس میں رہ رہی ہے، قانون کا خوف واحترام کمتر ہوتا جارہا ہے اور پولیس حکومت سے منسلک افراد اور تنظیموں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی ہے اور عوام میں اس کے نتیجہ میں دہشت پیدا ہوتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ تنگ نظری سے نکلیں، دستور کی عظمت کو بڑھائیں اور قانون کی حکومت قائم کریں، عدلیہ کو اپنا رول ادا کرنے کے لیے راہیں ہموارکریں اورعوام کو حکومت کے ساتھ ساتھ خاص طور سے عدلیہ پر اعتماد کومضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور اس ملک کی حفاظت ہم سبھوں کی ذمہ داری ہے اور اس کی ترقی میں ہم سب کو بھی شریک ہونے کے راستے یکساں طور پر فراہم کریں تاکہ بدلتی ہوئی دنیا میں ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ’’بھارت مہان ہے‘ اور ’سارے جہاں سے اچھا ہندستان ہمارا‘۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home