نتیش کمار کاویژن ڈاکومنٹ اور مسلمان
ڈاکٹر محمد منظور عالم
بہار اسمبلی انتخابات کے بعد جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی شکست کے اسباب اور آگے کی حکمت عملی کو لیکر غوروخوض کررہی ہے وہاں عظیم اتحاد کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نئی حکومت کے ذریعہ خودکو عوام کی امیدوں پر کھرا اترتے ہوئے ترقی کے نئے اہداف کو حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ بہتر حکمرانی کے ذریعہ ریاست بہار کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کرسکے۔ اس بابت وزیراعلیٰ نتیش کمار نے یکم اپریل 2016سے ریاست میں شراب بندی نافذ کرنے کا اعلان کرکے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ عوام سے کیے گئے وعدوں کو نبھانے میں سنجیدہ ہیں۔ انتخابات سے قبل پٹنہ کے شری کرشن میموریل ہال میں منعقد گرام وارتا کانفرنس کے دوران انھوں نے وعدہ کیا تھا۔ اس فیصلہ سے ریاست پر 4000کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا جس کی بھرپائی کے لیے الگ سے اقدامات کیے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ کی یہ پہل ایک کوشش ہے اور سماج میں ایک مستحسن قدم کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔لیکن شرط یہ ہے کہ اس پر ایمانداری سے عمل کیا جائے اور یہ معاملہ بھی بدعنوانی کا شکار نہ ہوجائے جس کے نتیجہ میں شراب کی عدم دستیابی اس کے پینے والوں کو مزید زیربار کرنے کا ذریعہ نہ بنے، جس سے ان کی اقتصادی حالت سدھرنے کے بجائے اور بدتر ہوجائے۔ اس کے لیے حکومت کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں و اداروں کو بھی پہل کرنی ہوگی تاکہ اس برائی کے خلاف بیداری پیدا کرکے ایک ماحول بنایا جائے جس سے حکومت کی کوششوں کو تقویت ملے اور ایک مثالی سماج کی تشکیل کی جانب پیش رفت ممکن ہوسکے۔
وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار نے جس طرح ریاست کو ایک نمونہ کی ریاست بنانے اور اسے ترقی کی نہج پر لے جانے کی بات کہی ہے۔ وہ جہاں ریاست کی فلاح وبہبود کے لیے ضروری ہے وہاں ریاست کے سوشل فیبرک کو مضبوط بنانے اور آپسی بھائی چارہ کو قائم رکھنے کے لیے لازم وملزوم ہے۔ نتیش کمار کے اقتدار سنبھالنے کے بعد حکومت کی جانب سے ریاست کی ترقی کے لیے جو ایجنڈہ تیار کیا گیا ہے وہ 7نکات پر مبنی ہے۔ ’7ویژن‘ ڈاکومنٹ جس پر اس حکومت کی کارکردگی کا انحصار ہے، بہت ہی وسیع پیرائے میں سماج کا احاطہ کرتا ہے۔ جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ریاست مجموعی طور پر ہمہ گیر ترقی کی جانب گامزن ہوگی۔
ویژن ڈاکومنٹ کے مطابق سب سے پہلے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے اس کے لیے ریاست گیر سطح پر سڑکوں کا جال پھیلانا اور سیور سسٹم کو بہتر بنانا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ملک کی کل آبادی کا8.6فیصد مکانات بہار میں ہیں اور ملک کی ہائی وے کا 4.9فیصد اکیلے بہار میں ہے۔ اس لیے سڑکوں کی لمبائی کو بڑھانا اور مکانات سے نکلنے والے فضلہ کو ٹھکانے لگانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت نے پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت مرکزی حکومت کے ذریعہ 2014-15کے لیے 1,548کروڑ روپے مختص کیے جانے کو اپنے منصوبہ میں دکھایا ہے لیکن سیور سسٹم کو درست کرنے کے لیے کتنا فنڈ مختص کیا گیا، اس پر ایجنڈہ میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
24گھنٹے بجلی کی فراہمی کو اولیت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاست بہار میں کل 3,828,477رہائشی مکانات کے مقابلے 11ویں پانچ سالہ منصوبے میں 2,139,79رہائشی مکانات میں بجلی کی لگاتار سپلائی کو یقینی بناناہے، اور دیہی علاقوں میں دو سال کے اندر بجلی سپلائی کی یقین دہائی کرائی گئی ہے۔ سبھی کے لیے صاف پینے کے پانی کو مہیا کرانے کے وعدے کے ساتھ ہر گھر میں پانی کا کنکشن دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ نتیش پلان کے مطابق 17.9ملین شہری مکانات اور 1.6ملین دیہی مکانات میں پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ ہے۔ اس طرح پانچ سال میں 19.5ملین گھروں کو پانی فراہم کرنا شامل ہے۔
بیت الخلاء سے محروم گھروں میں بیت الخلاء کی تعمیر کرنا۔ اس کے تحت شہری علاقوں کے گھروں میں 16.4ملین اور دیہی گھروں میں0.75ملین بیت الخلاء کی تعمیر کرنا ہے۔ اس طرح پانچ سالہ میں 17.2ملین بیت الخلاء کی تعمیر ممکن ہوسکے گی۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق ریاست بہار میں 14.5ملین گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہیں اور 11.8ملین گھروں میں باتھ روم کی قلت ہے۔
نوجوان طبقہ کو روزگار اور اسکل ڈیولپمنٹ کے تحت 15-20سال کے نوجوان اس سے مستفید ہوں گے اور انھیں ایک ہزار روپیہ ماہانہ الاؤنس 9مہینے تک دیا جائے گا تاکہ وہ اس عرصہ میں نوکری تلا ش کرسکیں۔ اس اسکیم سے ہر نوجوان دوبار فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ 12ویں کلاس کے طلباء کو کریڈٹ کارڈ کی سہولت دی جائے گی جس کے تحت 4لاکھ روپے تک کابینک لون 3فیصد کی سبسڈی شرح پردیا جائے گا۔ 500کروڑ روپے کے فنڈ سے وینچر کیپٹل بنایا جائے گا تاکہ نوجوان خود اپنی مینوفیکچرنگ یونٹ شروع کرسکیں گے۔ بہار کے 38اضلاع میں روزگار سینٹر کھولے جائیں گے جہاں 15ملین نوجوانوں کو کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم کے ساتھ انھیں اسکل ڈیولپمنٹ سے آراستہ کیا جائے گا۔
ریاست میں فی الوقت 22یونیورسیٹیاں تعلیمی خدمات انجام دے رہی ہیں جس میں 21روایتی یونیوسیٹیاں ہیں جبکہ ایک اوپن یونیورسٹی ہے۔ 2013میں 278گورنمنٹ کالج اور لوکل باڈی کے 387کالج تھے جبکہ اس وقت 110انجینئرنگ کالج ہیں۔ ایجنڈہ میں پانچ نئے میڈیکل کالجوں جس میں سبھی میں نرسنگ کالج بھی ہو، کھولنے کاوعدہ کیا گیا ہے جبکہ ہر ضلع میں انجینئرنگ کالج، خواتین کے لیے انفارمیشن ٹکنالوجی انسٹی ٹیوٹ، پالی ٹیکنک اور پیرامیڈیکل کھولنے پر زور دیا گیا ہے۔ ایجنڈہ کے آخری نکات کے تحت خواتین کو ریاستی حکومت میں 35فیصد ریزرویشن دینے کا وعدہ کیا گیا ہے اور پولیس سب انسپکٹر اور کانسٹبل کے لیے 35فیصد سے تجاوز کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
نتیش حکومت کا یہ ایجنڈہ یقیناًزمینی سطح کو سامنے رکھ کر تیار کیا گیا ہے اس لیے اس کی اہمیت وافادیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن گزشتہ دنوں جس طرح 21کمیٹیوں کی تشکیل ہوئی اس میں مسلمانوں کو کوئی اہمیت نہ دینا حکومت کی سوچ پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ جس کمیٹی کا چیئرمین مسلمان کو بنایا گیا ہے وہ کمیٹی کانگریس کے حصہ میں آئی تھی اور کانگریس نے مسلمان کو یہ عہدہ دیا ہے۔ اس لیے بنیادی سوال یہ ہے کہ اس انتخاب نے جہاں ملک کی تاریخ میں ایک تبدیلی پیدا کی، سوچ کے دائرے کو بدلا، اسے پورے ملک میں نمونہ کے طور پر اختیار کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔ نتیش کمار کا چہرہ ڈیولپمنٹ پرش، صاف ستھری امیدو ار اور مدبر کی حیثیت سے مانا گیا۔ اسی لے ہر طبقہ کا بڑا چھوٹا شیئران کو جتانے میں رہا بالخصوص مسلمانوں، دلتوں اور او بی سی کا رول تھا۔ جب کوئی حکومت بنتی ہے تو یہ کافی نہیں کہ حکومت 7ویژن ڈاکومنٹ بنادے جو سبھی کے لیے بلاشبہ اچھی چیز ہے لیکن اگر فیصلہ کی کمیٹی اور پاور شیئرنگ کے پہلو سے کسی طبقہ بالخصوص مسلمانوں کو موقع نہیں دیتے ہیں تو اس بات کا اندیشہ صاف ستھری سوچ کے حامل بالخصوص مسلمانوں میں پیدا ہوتا ہے کہ کیا بی جے پی کی طرح یہ مہاگٹھ بندھن جس کے وزیرا علیٰ نتیش کمار ہیں وہ بھی کیا اچھوت بنانا چاہتے ہیں، کیا وہ بھی اقتدار میں اس کا حصہ نہیں دینا چاہتے ہیں۔ پاورشیئرنگ میں حصہ اس لیے ہو نا چاہے تاکہ بہار کے سماجی تانے بانے میں استحکام پیدا ہو، بھائی چارہ پروان چڑھے اور نفرت کو دور کرنے کا موقع ملے۔ اس سے پیار و محبت بڑھے گی اور کاموں کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی اسکیموں کو تنفیذ کرنے میں اگر کوئی کمی ہوئی تو نشاہدی کرنے میں آسانی ہوگی لیکن اگر پاورشیئرنگ سے الگ رکھا تو اسے کہیں کہیں تو فائدہ پہونچایا جاسکتا ہے لیکن طویل المدتی بنیاد پر یہ ممکن نہیں ہوگا۔ نتیش کمار نے اپنے 15سالہ دور اقتدار میں بہتر سوشل انجینئرنگ کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاور شیئرنگ اور حکومت کی جتنی طرح کی کمیٹیاں بنی ہیں ان میں کمزور طبقات کے ساتھ ساتھ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو بھی موقع فراہم کیا جائے۔ اس سے وہاں کے عوام بشمول مسلمانوں کو یقین ہوگا کہ یہ وہی نمونہ کی حکومت ہے جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا، جس کے لیے کوشش کی تھی، ہم متمنی ہیں کہ بہار ایک ماڈل بن سکے اور نتیش کمار اس کے سپہ سالار کے طور پر رول ادا کریں۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home