انصاف سے دور کیا مودی حکومت اقلیتوں میں اعتماد بحال کرپائے گی؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی حکومت کے دوسرے سال میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی حکومت ملک کے سبھی طبقات بشمول اقلیتوں، کمزوروں اور پسماندہ طبقوں کے تحفظ کے تئیں پابند عہد ہے اور یہ کہ وہ اس ملک کے 125کروڑ لوگوں کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کا یہ بیان کوئی نیا نہیں ہے بلکہ پہلے سال میں بھی انہوں نے یہی بیان دیا تھا۔ فرق یہ ہے کہ دوسرے سال میں خود کو ملک کے 125کروڑ کا وزیر اعظم بتایا۔ چونکہ یہ اصولی موقف ہے جس کا اظہار وزیر اعظم نے کیا ہے اس لیے اس کی تائید سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ صرف بیان کے ذریعہ مظلوموں کے زخموں پر مرہم لگا پانا ممکن ہو سکے گا یا اس کے لیے عملی ثبوت کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ جو شرپسند عناصر اپنی حرکتوں سے ماحول کو خراب کر رہے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہیں۔ ابھی اٹالی گاؤں میں شرپسندوں کے ذریعہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ستانے اور انھیں بے گھر کرنے کی صدمے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ گجرات کے ودودڑا شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سوال یہ ہے کہ دہلی سے محض 50کلومیٹر دور اٹالی میں قانونی طور سے وقف کی زمین پر مسجد بنانے پر کہا جارہا تھا کہ آپ کہیں اور جاکر مسجد بنالیں، کیا یہ انصاف کی بالادستی ہے، کیا اس سے قانون کا خوف پیدا ہو سکتا ہے۔ کیا غریب آدمی کو اس سے اپنی جان و مال کو بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ دارالحکومت سے قریب ہونے کے باوجود بلبھ گڑھ میں کچھ مسلمان وزیر اعظم نریندر مودی سے ملنے بھی گئے لیکن نہ مسلمانوں کی طرف سے اس پر کوئی توجہ دلائی گئی اور نہ ہی وزیراعظم نے اس کا کوئی عملی حل پیش کرنے کی کوشش کی جس سے کتھنی اور کرنی میں ہم آہنگی پیدا ہو۔
وزیر اعظم کا دھیا ن اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ہریانہ کے اٹالی گاؤں میں جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ ان کی پارٹی کے کچھ لوگوں کا پیدا کردہ ہے جو کہ آگے بڑھ رہا ہے اور راجستھان کے ناگور اور اترپردیش کے بلرامپور وغیرہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات اس کے ثبوت ہیں۔ اسے کیسے تعبیر کیا جائے کہ آپ کی حکومت کسی کے خلاف کوئی تفریق نہیں کرے گی؟ اور کوئی نا انصافی نہیں ہونے دے گی اور سب کا ساتھ سب کا وکاس نمونہ بنے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اگر انصاف کا ترازو ایک طرف جھک جائے یا انصاف کے ترازو کومن مانے طور پر استعمال کیا جائے تو ہرگز یہ نہیں کیا جا سکتا کہ انصاف قائم ہو رہا ہے۔ قانون اگر مخصوص ہونے لگے تو نہیں کہا جا سکتا کہ انصاف ہو رہا ہے، اور تب یہ نعرہ ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ چلتا ہے۔ اس لیے وزیر اعظم عملی نمونہ پیش کریں، خواہ انصاف کا معاملہ ہو، تعلیم کا معاملہ ہو، روز گار کا معاملہ ہو، اقتصادیات کا معاملہ ہو، سماجی تانے بانے کا معاملہ ہو، چھوٹے اور کمزور طبقات کا معاملہ ہو، دلتوں اور اقلیتوں کا معاملہ ہو جس وقت عام لوگوں کویہ احساس ہونے لگے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے تو پھر انصاف کا راستہ اور بھی آسان ہو جاتا ہے لیکن اگر اس کے برخلاف ہو تو جو بھی اقتدار سے قریب ہے وہ دوسروں کو دبانے، کچلنے اور ناانصافی کی طرف چلتا رہتا ہے۔ مسلمانوں کی بدحالی پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں خود وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ گجرات میں ایک مسلمان جو کہ تیسری نسل سے رکھتا ہے کو سائیکل پنکچر بناتے دیکھا، گویا سائیکل پنکچر بنانا اس کا خاندانی پیشہ ہو، ان حالات میں انہیں مزید شواہد دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خوش کن نعروں سے مسلمانوں کی غربت دور نہیں ہوسکتی۔
مسلمانوں کا زور اس بات پر ہے کہ ان کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر، مگر اسے کیا کہا جائے کہ کمپیوٹر دینے والے تعصب کی بنیاد پر دینے سے گریز کرتے ہیں اور بالفرض اگر کوئی مسلمان محنت سے تعلیم حاصل کرلیتا ہے تو اسے نوکری دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ مسلمان غربت کی مارجھیل رہا ہے اور اس کی وجہ سے اس کی استطاعت نہیں ہے کہ وہ اپنی طرز زندگی کو بہتر بنا سکے اور جو تھوڑے سے صاحب حیثیت ہیں وہ اچھی جگہ مکان لینا چاہتے ہیں تو انکار کر دیا جاتا ہے۔ کیا وزیر اعظم کو اس کی خبر نہیں جنھوں نے خبروں کی دنیا میں اپنا ایک بلند مقام بنا رکھا ہے۔ ان مسائل پر کوئی ٹھوس قدم نہیں، ہاں ڈھارس کے لیے انہوں نے بیان دیا ہے، اچھا لگتا ہے۔
وشوھندوپرشید لیڈر اشوک سنگھل کے ذریعہ مسلمانوں کو جہادی بتایا گیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ اگر مسلمان ایو دھیا، متھرا اور کاشی سے دستبردار ہو جائیں تو ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا سیلاب آجائے گا۔ اشوک سنگھل نے مسلمانو ں کے بارے میں حقائق کے بر خلاف غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہیں جہادی بتایا ہے جو کہ عدم واقفیت پر مبنی ہے۔ مسلمان امن پسند ہے اور تمام تر مصائب کے باوجود مسلمانوں نے یہاں کے آئین پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے جس کا اظہار گذشتہ دنوں خود وزیر داخلہ نے اپنے ایک بیان میں کیا تھا۔ جن تین عبادتگاہوں کے تعلق سے زور دیا جا رہا ہے کہ مسلمان اس سے دستبردار ہو جائیں تو یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کی تعمیر جائز اور قانونی طریقے سے کی گئی ہے۔ جو مطالبہ کیا جا رہا ہے اس کی حیثیت اس طرح ہے کہ کوئی آپ کے گھر میں داخل ہو جائے اور پھر اسے اپنا گھر ہونے کا مطالبہ کرنے لگے۔ وہیں ایک دیگر معاملے میں مرکزی وزارت داخلہ نے عشرت جہاں انکا ؤنٹر معاملے میں خفیہ بیورو (آئی بی) کے 4 افسران کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ جبکہ سی بی آئی نے چاروں افسروں کے خلاف چارج شیٹ دائر کر رکھی ہے۔ ان پر عشرت جہاں اور اس کے تین ساتھیوں کو 2004میں فرضی تصادم میں قتل کا الزام ہے۔ ان افسران میں ایک ریٹائر بھی ہو چکا ہے۔ دوسری جانب پولیس نے تصادم کو صحیح بتاتے ہوئے کہا تھا کہ مارے گئے چاروں دہشت گردی کے معاملے میں ملوت تھے۔ سی بی آئی نے اس معاملے میں اس وقت آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر راجندر کمار اور 3 دیگر حکام پر قتل اور سازش رچنے کا الزام لگایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اپنی ہی جانچ ایجنسی کی رپورٹ کو ماننے سے کیوں انکار کر رہی ہے جس کہ وجہ سے مہلوکین کے ورثار انصاف کے لیے دردر کی ٹھوکر کھارہے ہیں۔ کیا حکومت کے اس طرز عمل سے ملک کے کمزور طبقات بشمول دلتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہے اور کیا انہیں انصاف مل سکتا ہے۔
حکومت کی ایک سالہ کار کردگی کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دوسرے سال کے شروع میں مودی حکومت نے عوام کو جو تحفے دیئے ہیں اس میں اس نے مہنگائی کو آسمان کی بلندیوں تک پہونچا دیا ہے۔ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کر کے اسے پیچھے ڈھکیلا ہے، صحت کے شعبہ میں بھی بجٹ کو کم کیا گیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اچھی دواؤں کے بغیر صحت نہیں بن سکتی اور جب صحت کا شعبہ متاثر ہوگا تو مریض کو صحتیاب کون کرے گا؟۔ اسی طرح جہالت علم کے بغیر ختم نہیں ہو سکتی لیکن جب علم کو مال سے جوڑ دیا جائے تو یہ عام لوگوں سے دور ہو جاتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے وعدے نریندر مودی جی نے دوران الیکشن اس ملک کے عوام سے کیے تھے لیکن ابھی تک یہ وعدے پورے نہیں ہوئے ہیں اس کے برخلاف ان کے بجٹ میں کٹوتی کرتے اسے عوام سے دور کر دیا ہے جو حکومت کی کتھنی اور کرنی کے فرق کو واضح کرتی ہے کہ کس طرح ووٹ حاصل کرنے کے لیے رائے دہندگان کو گمراہ کیا گیا ان کا جذباتی استحصال کیا گیا، انہیں سنہرے خواب دکھائے گئے اور جب اقتدار حاصل ہو گیا تو ان وعدوں کو بھلا دیا گیا، جس کی وجہ سے عوام خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ ایک سال میں جی ڈی پی کی شرح 7.5تک بڑھی ہے جبکہ پہلے 5 فیصد سے نیچے تھی، اور بچت کی شرح بھی بڑھی ہے۔ یہ کیسی جی ڈی پی کی شرح ہے جو بچت کو بڑھا رہی ہے لیکن عام لوگوں کو بالکل بھی مستفید نہیں کر رہی ہے وہ آج مہنگائی کی مار سے پریشان ہے۔ سروس ٹیکس میں اضافے نے جس طرح گرانی بڑھائی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ترقی کی شرح کو ملک کی ترقی ناپنے کا ذریعہ بتایا جاتا ہے تو وہ ترقی عام آدمی تک کیوں نہیں پہونچتی ہے وہ اس سے کیونکہ محروم رہتا ہے؟ کیا اسی جی ڈی پی کا نام ترقی ہے یا پھر یہ اعداد و شمار کا کھیل ہے۔
وزیر اعظم سے آخری گذارش یہ ہے کہ ملک کو آگے بڑھانے ، مضبوط ڈھانچہ بنانے، انصاف کے ترازو کو برابر رکھنے، بھید بھاؤ سے بلند ہونے، زبان اور لباس کی بنیاد پر تفریق کرنے اور اپنے اپنے مذہبی تشخص کو قائم رکھنے کے بیچ میں اگر تعصب اور بھید بھاؤ کو ختم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام نظر نہ آئے تو لوگوں کا بھروسہ ٹوٹتا ہے۔ اس لیے ہم انہیں کے اس جملے کو دہراتے ہیں کہ بھید بھاؤ اور تعصب کو مٹانے کے لیے دستور کو اپنی حکمرانی کا شیوہ بنائیں اور عملی طور پر وہ اقدام کریں جسے یہاں کی عوام بالعموم اور مسلمان بالخصوص دیکھنے کو ترس رہی ہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home