بابری مسجد - رام مندر متنازعہ
پھر بولے گوڈ بولے


نقطہ نظر:ڈاکٹر محمد منظور عالم

توقع ہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس رنجن گگوئی کے وسط نومبر 2019 میں ریٹائرمنٹ سے قبل بابری مسجد جو کہ 6 دسمبر 1992 کو منہدم کی جا چکی ہے، کے تقریباً 70 سالہ قضیہ کے تعلق سے عدالتی فیصلہ سامنے آجائے گا۔ مسلمانوں کے تمام فریقوں کی جانب سے عدالتی فیصلہ کی پابندی کی یقین دہانی بار بار کرائی جاتی رہی ہے۔ اب تو نرموہی اکھاڑا بھی یہ اعلان کر چکا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلہ ہی اہمیت کا حامل بنے گا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب مختلف فریقین کو اس تعلق سے کسی بات چیت یا سمجھوتے پہ اطمینان نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت جب عدالت کا فیصلہ آنے ہی والا ہے، بابری مسجد قضیہ میں جاکر پورے معاملے پر روشنی ڈالنا بروقت محسوس ہوتا ہے۔ اس تعلق سے ابھی حال ہی میں بابری مسجد انہدام کے وقت مرکزی داخلے سکریٹری اور جسٹس رہے، مشہور آئی ایس ”مادھو گوڈ بولے“ کی جو بیسویں 24 ویں کتاب بعنوان ”بابری مسجد - رام مندر قضیہ (Babri Masjid-Ram Mandir, Dilemma) کا منظر عام پر آنا سبھوں کی توجہ کامرکز بنا ہوا ہے۔ عیاں رہے کہ گوڈ بولے نے مذکورہ قضیہ کو آئین بند کے لیے Acid ٹیسٹ بتایا ہے۔ اتنا ہی نہیں وہ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہتے ہیں کہ اس قضیے نے ہندوستان کے مستقبل کو سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ 6 ابواب پر مشتمل 278 صفحاتی مذکورہ کتاب صحیح معنوں میں بڑی فکر انگیز ہے۔ اس سے چند ایسے نکات کا انکشاف ہوتا ہے، جو ہندوستان کی تاریخ کا المیہ ہے اور بہت چونکا دینے والا بھی ہے، جو مرکزی نکتہ کتاب میں چھاپا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر 70 سال کے لمبے عرصے میں کوئی بھی حکومت وقت چاہتی اور دلچسپی لیتی تو یہ مسئلہ اسی وقت حل ہو سکتا تھا۔ دلیل کے طور پر اس میں اولین وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ذریعہ 5 مارچ 1950 کو کے بی مشرو والا کو لکھے گئے مکتوب کا ایک اقتباس درج ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ”بابری مسجد میں رام جی کی مورتی کے رکھے جانے سے میں بے حد پریشان ہوں۔ حکومت یوپی نے بڑے دلیرالہ شوکا مظاہرہ کیا، مگر واقعتا بہت کم کچھ کیا۔ پنڈت گووند ولبھ پٹیل (وزیر اعظم یونائٹیڈ پرونسز) نے متعدد مواقع پر اس واقعہ کی مذمت کی، مگر بڑے پیمانے پر فساد کے خوف سے فساد یا دنگے کے خوف سے کسی حتمی کاروائی کو کرنے سے بچتے رہے۔“ اس سلسلے میں انھوں نے اسی کتاب میں انگریزی اور نامہ انڈین ایکسپریس ”مو ¿رخہ 17 مئی 1989 میں شائع ہوئی خبر کے مطابق پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹیوں کی میٹنگ میں اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپئی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ متنازع جگہ پر ہندوو ¿ں کے دعوو ¿ں کو مسترد کر دیا جائے جو کہ خیر سگالی کے جذبے کے تحت اس ڈھانچے کو اس طرح نظم کر کے رکھے کہ یہاں کسی بھی کمیونٹی کے ذریعہ کوئی عبارت نہ ہوتی ہو نیز مندر اور مسجد کو متنازع مقام کے نزدیک بنا دیا جائے۔“ گوڈ بولے کہ یہ بات بھی بہت ہی چونکانے والی ہے کہ ”ابتدائی دنوں میں جب سیاسی موقف سخت گیر نہیں ہوا تھا۔ راجیو گاندھی کے ذریعے عین وقت پر اس معاملے میں مداخلت کر کے بابری مسجد کو بچایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح اس کو بچانے کا موقع اس وقت بھی ملا تھا، جب اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ بابری مسجد اور اس کے اطراف کے مخصوص علاقے میں نافذ کیے گئے آرڈننس پر سخت ہو جاتے۔ اس کتاب میں گوڈ بولے یہ بھی کہتے ہیں جب بابری مسجد گمبھیر خطرے میں تھی عین اس وقت پر پی وی نرسمہا راو ¿ بھی کوئی سخت قدم اٹھاتے تب بھی اس مسئلے کا کوئی حل نکل جاتا۔ گوڈ بولے کا یہ بھی موقف ہے کہ اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ اگر ماضی میں ہندوو ¿ں کی عبادت گاہیں مسمار کی گئی ہیں تب بھی اس کا مطلب یہ نہیں نکالا جاتا ہے کہ مسلمان اور عیسائی عبادت گاہوں کے سلسلے میں بھی اسی طرح کا عمل کیا جائے۔ نہ ہندو اور نہ ہی مسلمان ماہی کے بوجھ کو ڈھونے کے لیے تیار ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ جب تک رام جنم بھومی، بابری مسجد متنازع کا کوئی قابل قبول حل نہیں ہو جاتا ہے تب تک ہندوستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہے۔ بابری مسجد کے حوالے سے ایک بات جو بار بار بعض ناقدین کے ذریعہ اٹھائی جاتی ہے اور سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بھی اٹھائی گئی کہ اس میں ایک عرصے سے نماز نہیں پڑھی گئی ہے اور 22، 23 دسمبر 1949 کی شب میں رام لیلا کے اس جگہ ظہور میں آتے وقت بھی یہاں کوئی عبادت مسلمانوں کی طرف سے نہیں ہوئی تھی۔ اس تعلق سے ”گوڈ بولے“ انگریزی ہفت روزہ سناف پربل مو ¿رخہ 2 جولائی 1989 میں شائع شدہ مذکورہ شب تک عشاءکی نماز بحیثیت امام کے پڑھائے جانے والے 93 سالہ عبد الغفار کے اظہار خیال کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ”ہم لوگ 22، 23 دسمبر کی مذکورہ شب تک نماز مسجد کے اندر پڑھتے تھے اور ہندو حضرات (رام) چبوترہ میں پوجا کرتے تھے۔ ہم لوگوں میں کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے 22 23 دسمبر 1949 کی شب سے قبل کی صورت حال بحال ہو جائے۔ گوڈبولے کی اس کتاب میں معروف انگریزی وملیالم مصنفہ کملد داس جو کہ مشرف بہ اسلام ہو جانے کے بعد کملد تریاپن گپٹن کے صاحب زادے مشہور صحافی ایم ڈی نال پائے کی 15 سال قبل بابری مسجد انہدام کے وقت وزیر اعظم رہے، بی دل نرسمہا راو ¿ سے کی گئی اس سلسلے میں مکمل بات چیت کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ 15 مئی 2004 کے انگریزی روزنامہ ایستین ایچ ممبئی میں صفحہ 13 پر چھے انٹرویو سے منقول ہے۔ اس انٹرویو میں بھی سابق وزیراعظم نے ایم ڈی نال بت جوان دنوں سنڈے گارجین کے مدیر اعلیٰ میں سے واضح طور پر کہا تھا کہ بابری مسجد کی ازسرنو تعمیر ہونی چاہیے۔ اب بابری مسجد- رام مندر متنازع سے متعلق حتمی فیصلہ عدالت کے ہاتھوں میں سے مذکورہ بالا حقائق ایسے ہیں جو تاریخ کا منہ چرا رہے ہیں، فیصلہ چاہے جو بھی ہو حکومت ہند کے ان دنوں بابری مسجد انہدام کے اس وقت مرکزی داخلہ سکریٹری ہے مادھو گوڈ بولے، جنھوں نے بابری مسجد انہدام کے بعد اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا، کے آبزرویشن کو تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں اور حق کے متلاشیوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home