بہار انتخابات اور رائے دہندگان کی فراست
ڈاکٹر محمد منظور عالم
بہار الیکشن اپنے اہم ترین دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی رائے دہندگان کو لبھانے، خوبصورت وعدے کرنے، ریوڑیاں تقسیم کرنے، لالچ اور حرص کوبڑھانے کے ساتھ ہی دبنگوں اور باہوبلیوں کو استعمال کرنے اور ووٹرس کو خوفزدہ کرنے میں بُری طرح سے لگ گئی ہیں۔ ویسے تو چار درجن سے زائد سیاسی پارٹیاں میدان میں کود چکی ہیں، جن میں کچھ ووٹ کو تقسیم کرنے کے لیے میدان میں ہیں تو کچھ پنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے سیاسی دنگل میں ہیں۔ مگر ان سب کے باوجود بہار کے رائے دہندگان کی ذہانت، فراست، سیاسی سوجھ بوجھ، ووٹ کی اہمیت وقیمت اور بہار کے مستقبل کو کیسے سنوارا اور بڑھایا جائے کا انحصار ان پر ہے۔ سیاسی طور پر دو گٹھ بندھن آمنے سامنے ہیں ایک مہاگٹھ بندھن ہے تو دوسرا این ڈی اے کی شکل میں گٹھ بندھن ہے۔ سیاسی سرگرمیاں پوری طرح سے شروع ہو چکی ہے وہاں کے رائے دہندگان کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ بہار کے لیے کون مناسب ہو گا، کس کو ووٹ دیں اور کس کو کامیاب کرائیں۔ کیا این ڈی اے جس کی سرپرستی بی جے پی کر رہی ہے اور اس کی سرپرست اعلیٰ آر ایس ایس جہاں حکومت ہند کو اپنے وزراء کے ساتھ حاضری دینا پڑتی ہے اور اپنی کارکردگی کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ جہاں دستور ہند بے معنی ہے کیونکہ آزادی رائے، مذہبی آزادی، کام کرنے کی آزادی، سماج کو بنانے، اپنے ذوق کے مطابق رہنے اور کھانے پینے کی آزادی سلب کی جا رہی ہے اور این ڈی اے میں شامل بی جے پی کے علاوہ دیگر پارٹیاں محض ان کی خوشنودی کو حاصل کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ جہاں اعلیٰ ذات کی ترقی تو ہو رہی ہے لیکن کمزوروں اور اقلیتوں کو پیچھے ڈھکیلنے اور ہر صحیح کام جو دستور اور قانون کی روشنی میں کرنا چاہے اسے ان کا ظلم برداشت کرنا ضروری ہے۔ چاہے وہ آدی واسی کیوں نہ ہوں، جہاں آدی واسیوں کی بڑی آبادی ہے وہاں معدنی ذخائر ہیں ان ذخائر کو بچانے کے لیے جو آدی واسی جدوجہد کرتے ہیں ان کے لیے جیل کی کوٹھری مقدر بن چکی ہے تاکہ سرمایہ داروں کو ملک کا ذخیرہ تحفۂ یا غلامی کے شکنجے کے نام سے دیا جا سکے۔ این ڈی اے بی جے پی کو چھوڑ کر مجبور محض نظر آتی ہے وہ اپنے لوگوں کا بھی بھلا نہیں کر پارہی ہے اور ایسے طبقات کو نیوبرہمن کے ذریعہ نوازا جاتا ہے بالفاظ دیگر غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور امیر کو امیر تر بنایا جا رہا ہے۔ کیا یہ نمونہ بہار کے لیے مناسب ہے اور بہار کی چھوٹی ذاتیں جن میں دلت بھی شامل ہیں کو تھوڑا بہت فائدہ ریزرویشن سے ہوا ہے اس کو بھی ختم کرنے کے درپے ہیں۔ کیا یہ صورتحال ریاست کے دلتوں، او بی سی، آدی واسیوں اور اقلیتوں کے لیے مناسب ہے۔ دوسری جانب مہاگٹھ بندھن ہے اس میں ماضی کی تاریخ میں بھائی چارگی کو بحال کرنے، برابری کو بڑھانے، سوشل فیبرک کو مضبوط کرنے، انصاف کی طرف قدم بڑھانے اور ترقی میں سب کے فائدہ کو مدنظر رکھنے اور بالخصوص مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے اس میں بھید بھاؤ کم نظر آتا ہے۔ سماجی تانے بانے کے مضبوط ہونے اور جان ومال، عزت وآبرو کو حفاظت ملنے کا امکان ہے اور مہاجنگل راج نہ بننے کے لیے کوشاں ہیں۔
بہار کا الیکشن بالخصوص کمزور طبقات، اقلیات اور مسلمانوں کو سیاسی فراست کی دعوت دیتا ہے۔ عموماً کمزور طبقات کو ہی قانون کی ضرورت پڑتی ہے۔ قانون کی بالادستی اس کے لیے اہم ہوتی ہے۔ جو دبنگ ہوتا ہے اور قانون سے کھلواڑ کرتا اسے بی جے پی جیسی حکومت ہمیشہ ساتھ دیتی ہے۔ ان کے افراد کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہوتی ہے خواہ وہ رکن پارلیمنٹ ہوں یا اراکین اسمبلی یا حکمراں میں شامل ہوں یا حکمرانی سے باہر ہوں۔ ان لوگوں کو ہندوستانیوں کا اتحاد پسند نہیں، کمزوروں کا استحصال نہ ہو یہ بھی پسند نہیں، مزدوروں کو پسینہ سوکھنے سے پہلے واجب مزدوری ملے وہ بھی پسند نہیں، وعدے ہمیشہ کمزور لوگوں کے لیے ہوتے ہیں اس لیے کہ ان کے پاس ووٹ کی طاقت ہوتی ہے لیکن ان ووٹوں کی بنیاد پر اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف وعدے بھول جاتے ہیں بلکہ یہ کہہ کر زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کہا ہے خواہ وہ مہنگائی کا معاملہ ہو، کالادھن واپس لانے کی بات ہو، بدعنوانی کو ختم کرنا، اکاؤنٹ میں پیسہ آنے، انصاف میں برابری کا معاملہ ہو، یہ ساری چیزیں انھیں زیب نہیں دیتی بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ گاندھی جی کے قتل سے لیکر آج تک قتل، فساد، جان ومال کی بربادی، عزت وآبرو سے کھلواڑ جاری ہے اور اسے بڑھاوا ملتا رہا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہٹلر بھی ویجیٹرین تھا اور اسی لیے ہٹلر کو انسان کے خون مہک پیاری تھی جب انسانوں کو جلایا جاتا تو اس کی بو اسے بہت پسند تھی۔
بہرحال بہار کے رائے دہندگان کو سوچ سمجھ کر مثبت فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے ملک کا رخ دستور کی طرف کیسے بدلا جائے، دستور کے دیباچہ میں دیئے گئے فلسفہ انصاف،برابری، بھائی چارگی، آزادی اور سیکولرازم کو کیسے قائم کیا جائے۔ بعض حلقہ انتخاب جسے سیمانچل کہتے ہیں، وہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے اور بدنصیبی سے ماضی میں ووٹ تقسیم ہونے کے نتیجہ میں سیکولر فورسیز کو بڑا نقصان ہوا تھا اور اس کا خمیازہ اس علاقے کے کمزور طبقات بالخصوص مسلمانوں کو بھگتنا پڑا تھا۔ کیا ریاست کے رائے دہندگان اس کو دہرانے کی غلطی کریں گے۔ کیا اس الیکشن کو آخری الیکشن اس لحاظ سے نہیں مانتے کہ اگر این ڈی اے کی حکومت بنی اور دوسری ریاستوں میں بھی حکومت بننے کا سلسلہ جاری رہا تو کیا ملک کا دستور محفوظ رہے گا اور اگر دستور محفوظ نہیں رہے گا تو کیا ہم اپنی آزادی اور مرضی کی حکومت بنانے کا خواب بھی دیکھ پائیں گے۔ تمام ہی کمزور طبقات بالعموم اور مسلمان بالخصوص یہ طے کر یں کہ ہمارا ووٹ دستور کی عظمت اور قانون کی بالادستی کو ماننے والے گروہ کو ہی جائے گا۔ ہاں ان جگہوں پر ٹیکٹیکل ووٹنگ کا بھی استعمال ہو سکتا ہے جہاں سیکولر امیدوار کے جیتنے کا امکان ہو اس کے علاوہ اپنے ووٹ کو ہرگز ضائع نہ کریں۔ اس سے قبل بھی یہ بات کہی ہے کہ یہ الیکشن 5سال کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا اثر دو سے تین دہائی تک جاسکتا ہے۔ بہار کے رائے دہندگان جو تاریخ بدلنے کی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی ذہانت، فراست، ہوش مندی اور عقلمندی کا امتحان اس لیکشن میں ہے۔
حکومت کے کل پرزے دھیرے دھیرے بھیدبھاؤ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور جو ہیں وہ پولیس کے کٹہرے میں یا جیل کی کوٹھریوں میں جارہے ہیں اور جو ظالم ہیں ان کے سامنے قانون بونا ہوتا جا رہا ہے۔ تعصب اور بھیدبھاؤ وقت کی پہچان بنتی جارہی ہے۔ غریبوں کو وٹامن کے ذریعہ جو گوشت ملتا اس پر رکاوٹ کھڑی کی جارہی ہیں اور اقلیتوں کو بھی ایک دوسرے سے لڑانے کی حکمت عملی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ بہار کے الیکشن میں مختلف پارٹیوں کو بی جے پی گٹھ بندھن کو چھوڑ کر اپنی حکمت عملی اس طرح وضع کرنا چاہیے جہاں عوام کی نمائندگی بھی نظر آئے اور عوام کا اعتماد بڑھتا جائے اور عوام کو یہ یقین ہو کہ ماضی کے ظلم کو دہرایا نہیں جائے گا اور مرکزی حکومت کی 1/2 سالہ کارکردگی کو بہار میں نہیں آنے دیں گے یا اس کو پیش کرنے سے پرہیز کریں گے۔ خدشہ ہے کہ محض آر ایس ایس اور بی جے پی کو دشمن نمبر ایک کہہ دینے سے مسلمانوں کے جوش اور جذبات میں بہہ کر تقسیم نہ ہو جائیں اور اگر تقسیم ہوتا ہے جس کا فائدہ آر ایس ایس اور بی جے پی کو ہوتا ہے تو یہ اتنا بڑا نقصان ہو گا کہ اس کی تلافی 5سال بعد بھی نہیں ہو گی بلکہ ایک دو دہائی کا نقصان ہو گا۔ یقینی طور پر سیمانچل کے مسلمان اپنی دانشمندی، سیاسی اتھل پتھل کے اسباب کو سمجھتے ہوئے چھوٹے چھوٹے اعتراض کے تحت اپنے اپنے فائدے کے لیے جو لوگ بھی میدان میں آرہے ہیں، درپردہ جو ڈوریاں ہلائی جارہی ہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں گے۔ کمزور طبقات، اقلیات، آدی واسی، دلتوں اور خاص طور سے پورے بہار کے مسلمانوں اور سیمانچل کے مسلمانوں کو بالخصوص یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جمہوریت پانچ سال بعد یہ موقع دیتی ہے کہ آیا خوشحال زندگی حاصل کرنے کے لیے جان ومال، عزت وآبرو اور اپنی شناخت عزیز ہے یا نہیں اگر عزیز ہے تو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ جذباتی اور شعلہ بیانی ہماری سوچ پر اثر تو نہیں ڈال رہی ہے۔ قوم کی سوچ، ترقی چاہے اقتصادی ہو، سماجی ہو یا سیاسی، وہ عزیز ہے، اسی کے ساتھ ہماری شناخت عزیز ہے، جان ومال کی حفاظت بھی ضروری ہے اور اگر جذباتی پہلو سے متاثر ہو کر اپنے ووٹ کو منتشر کر دیا جس کا براہ راست فائدہ آر ایس ایس بنام بی جے پی پہنچا تو اس کا خمیازہ جیسا کہ گجرات کے مسلمانوں نے بھگتا ہے جہاں ان کی حکومتیں ہیں وہاں وہ بھگت رہے ہیں، تعلیم، شناخت ہر دن مشکل دور سے گزر رہی ہے، کہیں ہم اس کا شکار تو نہیں ہوتے جارہے ہیں، وقت کی پکار ہے کہ عقل وفہم سے کام لیں، دانشمندی سے جمہوریت کی بقاء اور دستور کی حفاظت کے لیے اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کریں کہ دشمن کی چال ناکام ہو جائے اور سربلندی کے ساتھ اپنے ملک کو مہان بنائیں، بہار کو مثالی صوبہ بنائیں اور فخر سے کہیں کہ ہمارا ملک مہان ہے اور دستور عظیم ہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home