ترتیب: خالد حسین ندوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نئی دہلی، یکم؍ اپریل: الحجرات کی آیت نمبر ۱۰ تا ۱۲ (ترجمہ: مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرددوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دُوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اِس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسّس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مَرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے) کی روشنی میں محترم چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم صاحب نے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز میں درسِ قرآن پیش کیا جس میں پروفیسر رفاقت علی خاں صاحب وائس چیئرمین آئی او ایس کے ساتھ ساتھ تمام آفیسرز واسٹاف آئی او ایس وتعاون ٹرسٹ شریک تھے۔جبکہ تلاوتِ قرآن اطہر حسین ندوی نے کی۔ چیئرمین صاحب نے آیات کے مفہوم پر اظہارِ خیال کرنے سے پہلے انسٹی ٹیوٹ کے مقاصد کے بعض پہلوؤں کی وضاحت کی۔ آپ نے فرمایا کہ اس ادارہ کا بنیادی مقصد اسلامی روِش کو پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے ساتھ ہی تنگ نظری، تجسس، گروہ بندی، غیبت اوربدگمانی جیسی خبیث بیماریوں سے خود کو اور معاشرے کو محفوظ رکھنا ہے۔ لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہم میں سے اکثر لوگوں کے اندر یہ بیماری پیدا ہوچکی ہے۔ آج کا درسِ قرآن اسی پس منظر میں ہے۔ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ اکثر افراد میں غیبت کی صفت بالواسطہ یا بلاواسطہ پنپنے لگی ہے۔ معاملہ فہمی کی صلاحیت کم ہورہی ہے، آپسی پیار ومحبت کا فقدان نظر آرہا ہے۔ ساتھ ہی اپنی ذمہ داری کو ایک دوسرے پر ٹالنے کی عادت زیادہ پیدا ہورہی ہے۔
اللہ نے ہر انسان کو جسمانی ساخت کے لحاظ سے ایک جیسا بنایا ہے مگر اس کے اندر فکروعمل اور غوروفکر کا مادّہ الگ الگ انداز سے رکھا ہے اور ہر ایک کی اندرونی خوبی الگ الگ ہے لیکن مومن کی شان یہ ہے کہ جب آپس میں ملیں تو پیارومحبت کا ظہار کریں اور آپسی اختلافات کو دور کریں اور کسی بھی معاملے میں حتی الامکان صبروضبط کا مظاہرہ کریں۔ کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو عفو ودرگزر سے کام لیں، ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کی قرآن کریم نے سخت ممانعت کی ہے جیسا کہ مذکورہ آیت سے واضح ہے، لیکن جہاں بھی غیبت کا پہلو غالب ہوگا وہاں یہ خصلت بھی پیدا ہوگی یعنی ایک دوسرے کا مذا ق اڑایا جائے گا جبکہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور جو مذاق اڑارہا ہے اِن دونوں میں بہتر کون ہے۔
میرے عزیزو! یہ ساری خصلتیں اپنی ذات کے لیے بھی، معاشرے کے لیے بھی اور اِس ادارہ کے لیے بھی نقصاندہ ہیں۔ آپ لوگ صاحب علم ہیں اس لیے آپ خاص طور سے اِس پیغام کے مستحق ہیں کہ فسق وفجور، بدگمانی اورغیبت کرنے سے ہر حال میں دور رہیں۔ بدگمانی کا حال یہ ہے کہ اکثر گمان غلط اور بے بنیاد ثابت ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ہم بڑے گناہ کے مرتکب ہوجاتے ہیں اور غیبت و تجسس دنیا کی بدترین عادتوں میں سے ایک عادت ہے، اور جس کو یہ عادت ہوجاتی ہے اسے اس وقت تک سکون حاصل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کسی کی غیبت نہ کرلے۔ اللہ نے بھی غیبت کے تعلق سے نہایت ہی کریہہ مثال پیش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِن بدترین صفات سے محفوظ رکھے اور اِس ادارہ کو بھی محفوظ رکھے اور یہاں کے کام کرنے والوں کو بھی محفو ظ رکھے۔آمین




Back   Home