یہ آزادی بچانے کی لڑائی ہے
نقطہ نظر :ڈاکٹر محمد منظور عالم


پورا ہندوستان آزادی کے نعروں سے گونج رہاہے ۔ ہر شہر ،ہرقریہ اورہر قصبہ میں عوام سڑکوں پر ہے ۔ آزادی کامطالبہ کررہے ہیں ۔آج کا ہندوستان1857 کے بعد انگریزوں کے خلاف شروع ہونے والی جدوجہد کی عکاسی کررہاہے ۔جس طر ح اس دور میں سبھی ہندو مسلم سکھ عیسائی،دلت آدی واسی آزادی کی تحریک چلارہے تھے ۔ انگریزوں کے خلاف متحدہوکر آزادی کا نعرہ بلند کررہے تھے اسی طرح آج بھی پورا ہندوستان متحد ہوکر آزادی کا نعرہ بلند کررہاہے ۔ ہند ومسلم سکھ عیسائی سبھی سڑکوں پر اترکر آزادی کی مانگ کررہے ہیں ۔ لڑائی دونوں ایک جیسی ہے ۔ تحریک یکساں ہے فرق صرف اتنا ہے کہ 1857میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑائی تھی۔اس تحریک اور جدوجہدکا مقصد ملک کو غیروں سے نجات دلانا تھا ۔ بیرونی طاقتوں کو ملک بدر کرنامقصد تھا ۔ آج کی لڑائی کا تعلق آئین اور دستور کے تحفظ سے ہے ۔انگریزوں کے خلاف لڑ ائی میں کامیابی ملنے کے بعد جس ہندوستان کی تعمیر اور تشکیل ہوئی تھی اسے باقی رکھنے کی ہے۔کیوں کہ وہ ہندوستان پھر خطرے میں پڑگیاہے ۔ہندوستان کی آزاد ی اس کا آئین ، دستور اور جمہوری اصول ہے ۔ ان چیزوں کو ایک گروپ اور ارباب اقتدار ختم کرنے کے درپے ہیںاور اس کا آغازوہ کرچکے ہیں ۔ شہریت ترمیمی قانون ہندوستان کے آئین کے خلاف ہے اور اسے ہندو راشٹر بنانے کی طرف بنیادی قدم ہے ۔ منو اسمرتی یعنی آقااور غلام جیسا نظام تھوپنے کا یہ منصوبہ ہے ۔اس لئے یہ لڑائی یقینی طور پر آزادی کی لڑائی ہے ۔ ملک اور دستور کو بچانے کی لڑائی ہے۔ یہی جذبہ ہے جس کی بنیاد پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیاہے ۔ ملت ٹائمز کی رپوٹ کے مطابق ہندوستان کا 140 شہر اور قصبہ شاہین باغ بن چکاہے یعنی دہلی کے شاہین باغ کی طرح وہاں دن رات لگاتار متنازع شہریت قانون ،این آرسی اور این پی آر کے خلاف احتجاج ہورہاہے ۔ مردوں کے ساتھ خواتین سر فہرست ہیں اور وہ قیادت کررہی ہیں ۔اس کے علاوہ دسیوں مقام پر روازنہ ہزاروں او رلاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اتر کر احتجاج کررہے ہیں ۔ پروٹیسٹ کررہے ہیں اور دستور بچانے کی جدوجہد میں پیش پیش ہیں ۔

آزادی ایک عظیم دولت اور بہت بڑی نعمت ہے ۔ آزادی کی اہمیت ،اس کی قدورقیمت ان سے معلوم کیجئے جو محکوم ہیں ۔جنہوں نے آزادی کا دور نہیں دیکھاہے ۔ ہندوستان کی آزادی ایک طویل جدوجہد کی بعد حاصل ہوئی تھی ۔ جمہوریت اور سیکولرزم آزادہندوستان کی روح ہے ۔ اس کے بغیر آزادی کا تصور نہیں کیاجاسکتاہے ۔ آج کے ماحول میں یقینی طور پر ایک طبقہ ہندوستان اور یہاں کے عوام سے آزادی سلب کرنا چاہتاہے ۔ اسی منصوبہ پر وہ عمل پیراہے اور اس منصوبہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بابا بھیم راﺅ امبیڈ کرکا تشکیل کردہ دستور ہے ۔ دستور ہندوستان کی اصل طاقت ،سیکولرزم کی شناخت اور پہچان ہے ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی اسی دستور کو بدلنا چاہتی ہے ۔ متنازع شہریت قانون اسی مہم کا ایک حصہ ہے جس میں شہریت کی بنیاد تاریخ پیدائش ہے ۔ یہ نسل پرستی ، تعصب اور دیگر مذاہب کے خلاف قانون ہے ۔ جمہوریت اور ڈیموکریسی کی روح کے خلاف ہے۔ آئین میں یہ ترمیمی ہندوستان کو دوبارہ غلام بنانے اور آمریت نافذ کرنے کے مترادف ہے ۔قابل مبارکباد ہندوستان کے عوام ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو بہت جلد سمجھ لیا ۔ جیسے ہی آئین میں یہ ترمیم ہوئی وہ سڑکوں پر نکل پڑے ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ اور ملک کی دیگر یونیورسٹیز کے اسٹوڈینٹ پہلے سڑکوں پر نکلے اور پھر پورے ہندوستان نے اس کا ادارک کرلیا کہ یہ قانون دستور کی بنیاد کے خلاف ہے ۔ ملک کو دوبارہ غلام بنانے کی سازش ہے ۔ برہمنواد کا نظام تھوپنے کا عملی منصوبہ ہے ۔ دلتوں کو پھر غلام بنایاجائے گا ۔ آدی واسیوں سے انسانی حقوق سلب کرلئے جائیں گے اور مسلمانوں ،عیسائیوں کو پریشان کیاجائے گا۔ غریبوں کو انسانی حق سے محروم کرکے بندھوا مرزدوروںکی طرح جینے پر مجبور کردیاجائے گا ۔اگر ایساہی رہا توآنے والا کل بہت خطرناک ،بھیانک اور تاریک ہوگا لیکن ایسا ہونہیں پائے گا کیو ں کہ بھارت کے عوام بیدار ،متحداور آر ایس ایس کے خطرناک عزائم سے آگاہ ہیں ۔ سڑکوں پر نکل کر تحریک چلانا ان کی اسی بیداری کی علامت ہے اوریقینی طور پر یہ ایک نئی آزادی کی لڑائی ہے ۔آزادی بچانے اور آزادی برقرار رکھنے کی لڑائی ہے ۔ آزادی ایک عظیم نعمت ہے ۔انسان آزادپیدا ہواہے ۔ آزادی اس کا بنیادی حق ہے لیکن ملک میں ایسا گروہ کئی سوسالوں سے سرگرم ہے جو انسانوں کو غلام بنانا چاہتاہے اور گدشتہ چند سالوں سے اقتدار مل جانے کے بعد یہ گروہ اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے مکمل منصوبہ بندی میں لگا ہواہے ۔ متنازع شہریت ترمیمی قانون اور آین آرسی لانے کا بنیادی مقصد آزادی سلب کرنا ہے اور ایک مرتبہ پھر دلتوں ،آدی واسیوں اور کمزور طبقات کو بنیادی حقوق سے محروم کرناہے ۔ آر ایس ایس اور برہمنواد کو دلتوں ،آدی واسیوں اور کمزور طبقات کی آزادی ، ترقی کی بھی منظور نہیں ہوئی ہے ۔صدیوں انہوں نے غلام بنائے رکھاہے اور ایک مرتبہ پھر اسی نظام کو لانے کی کوشش ہورہی ہے ۔ یہ قوانین اور اقدامات اس کی پہلی کڑی ہے ۔

دنیا کی تاریخ کی یہ پہلا موقع ہے جب اتنی بڑی تعداد میں خواتین سڑکوں پر اترکر احتجاج کررہی ہیں اور کسی ملک کے آئین اور دستور کو بچانے کیلئے شب وروز ایک کرچکی ہیں ۔ خواتین جب بھی سڑکوں پر اتری ہیں انہیں کامیابی ملی ہے ۔ آج کی خواتین بھی کامیابی سے ہم کنار ہوںگی ۔ ان کی تحریک جدوجہد کامیاب ہوگی اور آزادی کو بچانے کی یہ تحریک کامیابی سے ہم کنار ہوگی ۔

آزادی صرف بیرونی تسلط کے خلاف جنگ کرنے کا نام نہیں ہے ۔ آزادی صرف انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے کا نام نہیں ہے ۔ غربت کے خلاف جنگ بھی آزادی ہے ۔ جہالت کے خلاف جنگ بھی آزادی کی لڑائی ہے ۔ دستور کی حفاظت کی جنگ بھی آزادی کی لڑائی ہے ۔ آئین کے حملہ آوروں کو روکنا بھی آزادی کی لڑائی ہے اور یہی آزادی آج کے دور میں مطلوب ہے ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home