مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات
کیا رائے دہندگان پولورائزیشن کا شکار ہوں گے ؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
مرکز میں نریندرمودی کی حکومت کے وجود میں آنے کے بعد سے عوامی سطح پر جتنے اور اقدامات کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اس کا اگر جائزہ لیا جائے تو زمینی حقائق سماجی ترقیات کے حوالے سے نہ صرف انہیں مسترد کرتے ہیں بلکہ جو صورتحال ہے اور جس کا اعتراف خود حکومت نے کیا ہے وہ اس کے برخلاف سماج کو توڑنے، بھائی چارہ کو ختم کرنے اور تشدد کو بڑھاوا دینے کی ہیں۔ سماجی ترقی کا تعلق سماج کے ماحول سے مربوط ہے اگر سماج میں امن و شانتی ہوگی تو سماج ترقی کی رفتار پکڑے گا بصورت دیگر بدامنی، انتشار، تشدد اور عدم اطمینان کی کیفیت میں سماجی ترقی کا دائرہ سکڑ کر صفر پر پہونچ جائے گا۔ گذشتہ 100دنوں کی حکمرانی میں سماجی صورتحال اسی نہج پر پہونچ گئی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے اس صورتحال کو بدلنے اور سماج کو مثبت خطوط پر لے جانے کے اقدامات نہیں کیے جارہے ہیں۔ بلکہ جو لیڈران زہر اگلنے اور ماحول کو خراب کرنے کا کام کر رہے ہیں حکومت اپنی خاموشی سے ان کے حوصلوں کو بڑھا رہی ہے۔
پارلیمنٹ میں ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال پر بحث کے دوران خود حکومت نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 100دن کی حکمرانی میں 113فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں جن میں 15افراد کی موت ہوئی اور 138افراد زخمی ہوئے ، جبکہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق فرقہ وارانہ فسادات کے تعداد اس سے کئی سو گنا زیادہ ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد مخالف بل پر بحث کے دوران کانگریس پارٹی نے یہ تعداد 600بتائی ہے اور حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی اسی تعداد کو پیش کر رہی ہے۔ ان میں 36فساد عیسائیوں کے خلاف ہیں بقیہ فسادات کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ لیکن یہ سلسلہ ان سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ملک کے دیگر حصوں میں اس کے پھوٹنے کی خبریں ہر دن اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ کشن گنج کا معاملہ سامنے آیا ہی تھا کہ گجرات کے کئی شہروں میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا۔ جس طرح معمولی سے معمولی واقعہ کو بنیاد بنا کر شرپسندوں کے ذریعہ فرقہ وارانہ فساد کرایا جا رہا ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ایجنڈہ کے تحت ہو رہا ہے محض چنگاری نکلنے کی دیر ہوتی ہے اور شعلے جل اٹھتے ہیں۔ جس کا شکار ایک مخصوص طبقہ کو بنایا جاتا ہے۔ وہ طبقہ جو سماجی طورپر ترقی سے محروم اور پسماندہ ہے۔ اس کو مزید پسماندہ بنائے رکھنے کے مقصد سے فسادات ہوتے ہیں اس تعلق سے جو رپورٹیں اور اسٹڈی آئی ہیں وہ اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ فسادات سیاسی مقاصد کے علاوہ اقتصادی تری کو روکنے کے لیے بھی ہوتے ہیں۔ ان حالات میں ترقی کی بات کا مطلب کیا ہے؟ یہ ترقی کسی کے لیے ہے؟ کیا یہ صرف خوشنما نعرہ تک محدود ہے تاکہ عوام کا دھیان حکومت کے ناکارہ پن کی طرف نہ جائے اور وہ اپنے اس ایجنڈہ کو پورا کرتی رہے جس میں سماج کے کمزور طبقات اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ان سبھی ترقیات سے محروم رکھنا ہے۔
اب جبکہ مہاراشٹر اور ہریانہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں وہاں کے رائے دہندگان کے سامنے یہ سوال ہے کہ کیا وہ ان لوگوں کو منتخب کریں جو صرف خوشنما نعروں اور وعدوں کی بات کرتے ہیں، لاء اینڈ آرڈر کو توڑنے والوں پر نرمی کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی صدر امت شاہ کے ذریعہ ان کے فرقہ وارانہ منافرت پر مبنی بیان کی بنیاد پر جب مظفر نگر میں ان پر پولیس نے چارج شیٹ داخل کی تو یہ تاثر مل رہا تھا کہ حکومت سنجیدہ ہے اور حالات کو قابو میں رکھنے اور سماجی بھائی چارگی کو بنائے رکھنے کے ہر ممکن اقدام کرے گی لیکن جب اس پولیس آفیسر کا وہاں سے تبادلہ کر دیا گیا تاکہ چارج شیٹ پر کارروائی آگے نہ بڑھ سکے تو حکومت کے اس اقدام سے اس کا اصلی چہرہ سامنے آگیا کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں، وہ کن لوگوں کو نشانہ بنانا چاہتی ہے جیسے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اشوک سنگھل، پروین توگڑیا،مہنت اودیدھ ناتھ اور اوما بھارتی وغیرہ کے بیانات نے جس طرح ملک میں نفرت کے ماحول کو پروان چڑھایا اور حکومت اس پر خاموش تماشائی ہے۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے سماجی ترقی کی بات کرنا سماج کے کمزور طبقات، اقلیتوں بالخصوص مسلمان کے ساتھ ایک دھوکہ ہے۔
مرکزی حکومت کے اگر ان اقدامات کی بات کریں جس میں اس نے اقتدار سنبھالنے سے قبل مہنگائی کم کرنے اور کالی دولت کو واپس لانے کا وعدہ کیا تھا حتی کہ زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نے 100دن کا جو ایجنڈہ تیار کیا تھا اس میں ان دونوں ایشوز کو فوقیت دینے اور اس پر عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ 100دن گزر جانے کے بعد بھی ان ایشوز پر تو کوئی عمل نہیں ہوا اس کے برخلاف اس خفیہ ایجنڈے پر عمل کیا گیا جس کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ سماج کو باٹنے اور آپس میں نفرت پھیلانے کے خفیہ ایجنڈہ کی بنیاد پر ہی بی جے پی نے اقتدار کا سپنا دیکھا تھا اور جس پولورائزیشن کے نتیجہ میں اسے اترپردیش میں یہ کامیابی ملی تھی اسی تجربہ کو وہ دہرانا چاہتی ہے گو کہ ضمنی انتخابات میں اسے کامیابی نہیں ملی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ضمنی انتخابات میں عام طورپر مرکزکی برسراقتدار پارٹی کو کامیابی نہیں ملتی ہے اس کے علاوہ نریندر مودی نے خود کو ضمنی انتخابات سے دور رکھ کر دیگر لیڈروں کو آگے کیا تاکہ حسب توقع انتخابی نتائج نہ آنے پر انہیں کنارے کیا جاسکے جس سے ان کی پوزیشن مزید مستحکم اور مضبوط ہو کر سامنے آئے۔ پولورائیزیشن کا یہ فارمولہ مہاراشٹر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں استعمال کیا جار ہا ہے۔
پولورائزیشن کے اس فارمولے کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں اترپردیش میں جو نقصان مسلمانوں کا ہوا ہے اس کی کسی حد تک بھرپائی پانچ سال بعد ہی ممکن ہے لیکن اس عرصہ میں سماج کے کمزور طبقات، اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف جو ماحول تیار کیا جائے گا اس کو بدلنے میں ایک عرصہ درکار ہوگا اور ماحول کس حدتک تبدیل ہو گا اس کے بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہوگا۔ مہاراشٹر میں سیاسی پارٹیاں اور مسلمانو ں کی سیاسی پارٹیاں علیحدہ علیحدہ انتخابات کے لیے میدان میں ہیں۔ سبھی کا دعویٰ ہے کہ وہ سماج کے کمزور طبقات، اقلیتوں اور مسلمانوں کی خیر خواہ ہیں لیکن انتخابات سے قبل سیٹوں پر تال میل کا نہ ہونا اور ہر سیٹ پر سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ الگ الگ امیدوار کھڑا کرنا کیا سماج کے کمزور طبقات بشمول اقلیتوں اور مسلمانوں سے ہمدردی کا ثبوت کا ہے یا پھر انہیں پولورائزیشن کا شکار کرنا ہے۔ سماج کے ان طبقات کو اس حکمت عملی کو سمجھنا ضروری ہے اور اپنے ووٹ کے ذریعہ اس طرح کی کوششوں کو ناکام کرنا ہے۔ ووٹ دینے سے قبل اس پر ضرور غور کریں کہ ملک کو کیا مطلوب ہے؟ کیا خوشنما نعرے اور اس کی آڑ میں خفیہ ایجنڈہ کی تکمیل یا پھر فرقہ پرست عناصر پر قابو پانے اور ملک کے سیکولر دستور کو تحفظ فراہم کرنا۔ وہ دستور جو سماج کے کمزور طبقات، اقلیتوں اور مسلمانوں کو باعزت زندگی گزارنے کے حقوق و اختیارات دیتا ہے اور سیکولرازم کے تصور کے تحت رواداری، بھائی چارگی، میل محبت اور بقائے باہم کا پیغام دیتا ہے۔ خوشنما نعرے دینے والے دستور کے اس تصور کی دہائی دیتے ہیں لیکن عملی طور پر اس کے خلاف کرتے ہیں۔ اب تک کی کار کرگی اس کا واضح ثبوت ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے ووٹ کا استعمال اس طرح کرنا ہے جس سے دستور کی عظمت اور اس کی بالادستی برقرار رہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home