منصوبہ بندی کے لیے علامتوں کو پڑھنا ضروری
ڈاکٹر محمد منظور عالم
کسی بھی قوم کی زندگی میں علامتوں کا بڑا اہم رول ہوتا ہے اور اگر وہ علامتوں کو پڑھنا نہیں جانتی ہے تو وہ قوم کوئی تعمیری نقشہ بھی نہیں بنا سکتی۔ علامتیں غماضی کرتی ہیں کہ کس سمت میں کون سی چیز آگے بڑھ رہی ہے اور بڑھائی جا رہی ہے اور بڑھانے والے کون لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو علم وفہم کی گہرائی وگیرائی جانتے ہیں، حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں، مسائل کی فطرت کو سمجھتے ہیں، اپنی اندرونی طاقت کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ جس ماحول میں رہتے ہیں اس پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس کے برعکس جو قوم علامتوں کے زیروبم اور مد وجزر کو نہیں سمجھتی ہے اور ظاہری اسباب کی بنیاد پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتی ہے وہ اپنی کمزوریوں کو مزید بڑھاتی ہیں اور انتشار کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ سب کے لیے، سب کی اور سب کے ذریعہ ہوتی ہے اور فطری طور پر اس مفاد اعظم کے تحت اس ملک میں بسنے والے تمام انسانوں اور ان اکائیوں کی شناخت، ترقی، تعلیم، بے روزگاری دور کرنے اور ملک کے ابھرتے ہوئے منظرنامہ میں شمولیت کے لیے راستے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جب کوئی گروہ اپنے مفاد، اپنی عصبیت، اپنی قوت، اپنے انداز کی حکمرانی اپنے انداز سے ملک میں بسنے والی دیگر قومیں خواہ اقلیت ہو یا مختلف ذاتوں کے لوگ ہوں اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے ٹھوس پلاننگ بناتی ہیں اور اس کی حکمت عملی حالات کے مطابق ترمیم وتنسیخ کر کے عملی جامہ پہناتی ہیں۔
آج آر ایس ایس کی منظم کوششوں کے نتیجہ میں اس کی قائم کردہ سیاسی پارٹی جس کا نام بی جے پی ہے، ملک میں برسراقتدار ہے اور دونوں مل کر ان آئیڈیالوجی کو اور ان کی پلاننگ اور حکمت عملی کو پوری طاقت، صلاحیت نیز ہوشیاری کے ساتھ تنفیذ کرنے اور کرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گذشتہ ایک سال سے بالعموم اور 7 مہینے کی حکومت میں خاص طور سے بہت سی چیزیں کی ہیں۔ اس کی چند علامتوں کی طرف ہم اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
آر ایس ایس اور اس کی مختلف ذیلی تنظیمیں اپنی منصوبہ بندی کے تحت دوسروں کے درمیان کنفیوزن پیدا کرنا اور اپنے اندر مستحکم انداز سے کام بڑھانے کے طریقہ کار کو اختیار کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ دوران الیکشن ملکی سطح پر بہت سارے ایشوز اٹھائے گئے جیسے کمزور قیادت کی بات ہو، بدعنوانی کی بات ہو اور ملک کے تحفظ کا معاملہ ہو ان ایشوز کو میڈیا کے ذریعہ اس انداز سے اٹھایا گیا کہ آر ایس ایس کی قائم شدہ بی جے پی دودھ کی دھلی ہوئی پارٹی ہے اور جن ریاستوں میں اس کی حکومت ہے اس کا ہاتھ کبھی کالا نہیں ہوا۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اندر اور قیادت میں بھی غیرمعمولی کنفیوزن پیدا ہوا۔ کسی نے یہ کہا کہ ایک بار بی جے پی کو بھی موقع دینا چاہیے تو کسی نے کہا کہ وہ کیا بگاڑ لے گا تو کسی نے کہا کہ سیکولرپارٹیوں سے بہتر ہے تو کسی نے کہا کہ سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں، اقلیتوں اور کمزور طبقات کو کیا دیا؟ قیادت کی طرف سے اس طرح کے بیانات کے اثرات بہت صاف طور پر الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد محسوس کیے گئے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد حکومت کی طرف سے پہلی جوائنٹ پارلیمانی تقریر میں خارجہ تعلقات کے پس منظر میں دنیا کے سارے ملکوں اور بلاک سے اچھے تعلقات کو صاف لفظوں میں بیان کیا گیا مگر مشرق وسطیٰ جہاں سے ہمارے ملک کے گہرے تعلقات بھی رہے ہیں اور زرمبادلہ کی شکل میں ایک کثیر دولت ہمارے ملک کو آتی رہی ہے، اور ہماری توانائی کا ذریعہ بھی مشرق وسطیٰ رہا ہے، اسے مکمل نظرانداز کر دیا گیا۔ یہ علامت ہے کہ مشرق وسطیٰ سے ہمیں کس طرح کے کمزور رشتوں کو رکھنا ہے۔ فلسطین کو ہم دھیرے دھیرے کہاں لا کر رکھیں گے۔ یہودی اور اسرائیل کا غلبہ ہماری پالیسی سازی اور فیصلہ کن ادارے پر ان کا اثر ورسوخ واضح طور پر ان کے زیر نگرانی رہیں گے۔ خارجہ پالیسی کا دوسرا پہلو جو بہت اہم ہے ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے نام سے ملک میں داخل ہوئی اور غلام بنایا۔ جس کے خلاف ہم نے جد وجہد کی، آزادی کی لڑائی لڑی اور ہم اس میں کامیاب ہوئے۔ ملک کو نہ صرف آزاد کرایا بلکہ ملک کے لیے ایک نیا دستور بنانے میں کامیاب ہوئے جس کے دیباچہ کا آغاز ’ہم عوام‘ سے ہوا۔ لیکن موجودہ حکومت آنے کے بعد ویسٹ انڈیا کمپنی بنانے کی تیاری ہو رہی ہے جو آرڈی نینس کے ذریعہ مزدور، کسان اور دیگر شعبۂ حیات میں ان کی ترقی کی شہ رگ کو کاٹ کر ویسٹ انڈیا کمپنی بنانے کی طرف ہم گامزن ہیں جہاں سرمایہ دار اور کارپوریٹ ورلڈ کا غلبہ ہو گا اور ہندوستان کی اکثریت اس میں نئے انداز کی غلامی اختیار کرتے ہوئے زندگی بسر کرے گی۔ پوری دنیا بالخصوص ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے یہ زور ڈالا جا رہا ہے کہ صحت پر توجہ دی جائے مگر کارپوریٹ ورلڈ کو خوش رکھنے یا سہولت دینے کے لیے دواؤں پر جو سبسڈی تھی اسے ہٹا دیا گیا اور غریبوں کے لیے علاج ومعالجہ کو مہنگا کر دیا گیا جس کا براہ راست اثر غریب اور کمزور لوگوں پر پڑ رہا ہے۔
وسائل انسانی کی وزارت (ایچ آر ڈی) قائم ہوئی اور قائم ہوتے ہی تمام کلیدی عہدے جو خود مختار اور آزادانہ کام کر رہے ہیں جہاں کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں، ان اداروں میں ذمہ داروں کے طور پر ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جا رہا ہے جنھوں نے آر ایس ایس کی تنگ نظر آئیڈیالوجی سے تربیت حاصل کی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملک کی سائنس، ٹکنالوجی اور دیگر ترقیوں کے مقابلے قدیم تاریخ پر فخر کرنے کے پہلو کو ابھارا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ملک کی آنے والی نسلوں کو دنیا جو بہت تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے کہا جاتا ہے ایک صدی کا کام 20سالوں میں پورا ہو گا، اس میں اپنی دقیانوسی سوچ کو آگے بڑھانے اور ملک کے ذرائع کو اس میں لگانے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ اس سے ملک کانقصان ہو گا اور کمزور طبقات واقلیتوں کو پیچھے ڈھکیلنے کی بات کی جائے گی جہاں ان کے کارہائے نمایاں خدمات کو نظر انداز کیا جائے گا اور آنے والی نسلوں کو زہر آلود بنایا جائے گا۔ یاد رہے کہ تاریخ روشنی دیتی ہے اور یہ روشنی حال کے تجزیہ میں مددگار ہوتی ہے۔ مستقبل کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ سوال ملت اسلامیہ سے وابستہ ہے۔ اگر مسلمان اور ان کی آنے والی نسلیں اپنے اسلاف کے عظیم الشان کارناموں سے واقف نہیں رہی اور جو کارناموں سے واقف ہیں وہ صرف سینوں سے ان کارناموں کو لگائے رہے تو دونوں صورتوں میں آنے والی نسل اندھیرے میں بھٹکتی رہے گی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کا گہرا تعلق ہونا چاہیے اور موجودہ دور کے تعلیم یافتہ حضرات اور علماء کرام اس جد وجہد کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔
اسلام امن وآشتی کا دین ہے جو علم اور قلم کی طاقت سے آگے بڑھتا ہے اور آج بھی وہ اسی پر قائم ہے۔ علم انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے کی قوت دیتا ہے اور قلم انسان کو ہر طرح کی غلامی سے آزاد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ چونکہ انسان اللہ کا کنبہ ہے اور ہمیں خیر امت کا لقب عطا کیا گیا ہے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے علمی، فکری اور عملی سطح کو اپنے لیے اور بنی نوع انسان کے لیے بلند کریں جس میں فطری طور پر ہر طرح کی غلامی سے آزاد رکھنا شامل ہے۔ اس کے لیے فکری بلندی اور علمی گہرائی وگیرائی حاصل کرنا ہو گی۔ اس دین کا یہ جوہر ہے کہ اس حق کو جو اس نے سارے انسانوں کو دیا ہے اسے ہم عام لوگوں تک پہونچائیں۔ اس لیے ہم داعی دین بھی ہیں اور دعوت دینا ہمارا فریضہ بھی ہے۔ یہ گھر واپسی ایک علامت ہے۔ منواسمرتی کو کیسے قائم رکھا جائے اور غلامی کا شکنجہ کیسے برقرار رکھا جائے۔ چھوٹی ذاتوں اور کمزوروں کو کیسے استعمال کیا جائے اور چھوٹی ذاتوں کے تعلیم یافتہ افراد پر بھی سوچ کی آزادی کو کیسے کم کیا جائے۔ اس کی طرف سے ایک کوشش ہے کہ اس آزادی سے روکنے کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کو کیسے زور زبردستی، لالچ اور خوف وہراس وغیرہ کر کے دونوں قوموں کے افراد کی طرف سے تبدیلی مذہب مخالف قانون لانے پر مجبور کیا جائے جبکہ آئین کی دفعہ 25 موجودہ شکل میں بھی کافی ہے۔ اس کے خلاف جس انداز سے بیانات آ رہے ہیں اور زور زبردستی کی جار ہی ہے اور نریندرمودی جی حکومت کی خاموشی اس بات کی غماضی کر رہی ہے کہ آر ایس ایس اور ان کی تمام تنظیموں کو چھوٹ ہے کہ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جتنے بھی حیلے، حربے اور طریقہ کار اختیار کر سکتے ہیں کریں حکومت اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ خود حکومت کی ایک وزیر سادھوی رنجن نے گالی گلوج کی زبان استعمال کی۔ یہ علامت ہے کہ نفرت کو شدت کیسے دی جائے، نفرت کے ذریعہ دستور کے تانے بانے اور سیکولر فیبرک کو کیسے مسموم کیا جائے اور اس نام پر ہندو مسلم کو کیسے پولورائز کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں اس ایشو پر بیان نہیں دیا۔
یہ سارے وہ حصے ہیں جس کے نتیجہ میں آج کی مسلم قیادت اور عوام کے اندر یہ کنفیوزن برقرار ہے اور بڑھتا ہی جا رہا ہے کہ کوئی یہ کہتا ہے کہ انہیں مزید وقت دیا جائے اور پھر اس کے بعد ان کے کاموں کا جائزہ لیا جائے تو کوئی یہ کہتا ہے کہ بی جے پی میں مجموعی طور سے شریک ہوا جائے اور کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آر ایس ایس میں بھی شامل ہو جانا چاہیے۔ کوئی یہ کہتا ہے کہ حکومت کی طرف سے کوئی دل آزاری کی بات نہیں کہی گئی ہے اور یہ بات کہتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ نریندرمودی جی کی حکومت کے ایک وزیر نے دل آزاری کے شدید جملے استعمال کیے پھر بھی ان لوگوں کو نریندرمودی جی کا انتظار ہے۔ مودی جی نے چونکہ کوئی مخالفانہ بیان نہیں دیا ہے اس لیے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ بی جے پی ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے آزاد نہیں ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ نے واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ وہ اور وزیر اعظم نریندرمودی جی آر ایس ایس کے ممبر اور سنچالک رہے ہیں تو کیا ہوا؟ اس کے بعد بھی ہم یہ توقع کریں کہ وزیر اعظم اور وزیرداخلہ آر ایس ایس اور اس کے ذریعہ بنائی تنظیموں کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی بیان دیں گے، شاید خام خیالی ہی ہو گی۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ 2017 تک جو جو باقی صوبے ہیں ان کے انتخابات مکمل ہو جائیں گے اور دوہرامعیار اختیار کرتے ہوئے آر ایس ایس اور ان کی ذیلی تنظیمیں ہندو ووٹ کو پولورائز کرنے کے سارے طریقہ کار غلط زیادہ صحیح کم ان صوبوں میں بی جے پی کو کامیابی دلانے کی کوشش کریں گے اور مودی حکومت ترقی کا راگ الاپتی رہے گی اور مسلمانوں کے اندر ان کے راگ الاپنے کا اثر بھی نظر آئے گا اور آر ایس ایس ودیگر ذیلی تنظیموں کے لیے یہ ایک جملہ کافی ہو گا کہ حکومت کی طرف سے کوئی ایسی بات نہیں آرہی ہے۔ اس ملک کے عوام اور بالخصوص مسلمان نہ بھولیں کہ دستور میں ترمیم کے لیے صوبوں کا بہت اہم رول ہوتا ہے اور ان صوبوں کے الیکشن کا نتیجہ اگر آر ایس ایس کے حق میں جاتا ہے تو ان کی پالیسی کو عملی شکل دینے میں بی جے پی پارلیمنٹ کے ذریعہ بغیر کسی تاخیر یا تامل کے کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہی وقت ہے کہ ان علامتوں کو پڑھا جائے، سمجھا جائے اور عملی خاکہ بنایا جائے کہ کس طرح اس ملک کے عوام کو ملک پر منڈلانے والے خطرات سے آگاہ کریں، کس طرح ملک کو تحفظ دیں اور کس طرح ملک کے رہنے والوں کی شناخت کو تحفظ دیں۔ ہمیں حق ہے کہ حکومت کا مواخذہ کریں، اس کے دوہرے پیمانے اور معیار کو علمی، فکری، عقلی اور حکمت عملی کے ذریعہ چیلنج کریں، چونکہ یہ ہمارا ملک ہے اور ہم اسے بنانے اور ترقی دینے کے بھی ذمہ دار ہیں، اور آر ایس ایس اور ان کی ذیلی تنظیموں کی اشتعال انگیزی سے متاثر ہوئے بغیر صبر کا پیمانہ ہوشمندی، عقلمندی اور بہتر حکمت عملی کے کے ساتھ ہم اپنے اندر صف بندی کریں اور حلیفوں کو ساتھ لانے کی کوشش کریں جو بھی دستور کے دیباچے کی حفاظت کے لیے تیار ہو خواہ وہ سیاسی لیڈر ہو، سماجی کارکن ہو یا دانشور یا مختلف میدان میں کام کرنے والے ہوں، ان کو ساتھ لیں۔ یاد رہے کہ وقت انتظار نہیں کرتا اور جو وقت کا فائدہ نہیں اٹھاتا، وقت اسے خش وخاشاک کی طرح اٹھا کر پھینک دیتا ہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home