موجودہ حکومت سے مسلمان کس طرح تعلقات قائم کریں؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
ہندستان ایک بڑے جمہوری ملک کی حیثیت رکھتا ہے جہاں مختلف مذاہب، تہذیب، زبان اور رنگ ونسل کی اکائیاں پائی جاتی ہیں اور اس جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کے لے ہر پانچ سال پر انتخابات کا نظم کیا گیا ہے، جسے الیکشن کمیشن جو ایک آزاد ادارہ ہے کی حیثیت سے اعلان الیکشن سے نتائج الیکشن تک اسے مکمل دستوری طاقت حاصل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر سوائے ایمرجنسی کے اکثر ہر پانچ سال پر انتخابات ہوتے رہے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں گزشتہ 30سالوں میں مختلف نوعیت کی حکومت بنی جسے مخلوط حکومت کا دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس بار کا الیکشن بھی اگرچہ دستور کے دائرہ اور الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی اپنے انجام کو پہونچا لیکن اس کا جو مینڈیٹ آیا وہ اکثر لوگوں کی توقعات اور وہم وگمان کے خلاف تھا۔ اس نتیجہ نے جہاں ایک طرف آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا تنظیموں کے اندر ایک وحشیانہ ولولہ پیدا ہوا اور اس ولولہ نے قانون کی دھجی ادھیڑنے اور وحشیانہ سلوک کرنے والوں کے خلاف قانون کے رکھوالوں کے اندر کچھ نہ کرنے کا خوف پیدا کردیا وہاں اقلیات بالعموم اور مسلمان بالخصوص ایک طرح سے متحیر زدہ ہوگئے اور اس وحشیانہ ولولہ کاجو خوف فطری طور سے مسلمانوں کے اندر پایا جاتا تھا وہ جب نظروں کے سامنے آیا تو اس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ڈیموکریسی جو عوام کا، عوام کے لیے، عوام کے ذریعہ کیا جاتا ہے کا نشانہ ایک خاص گروہ بن گیا ہے اور جس سے مختلف کمزور طبقات کو فطری طور پر یہ خوف وہراس ذہن ودماغ کے گوشے میں مضبوط ہوتا ہے کہ ایسی ڈیموکریسی جس میں قانون بھی چھوٹا ہوجائے، نظم ونسق یکطرفہ بن جائے، انصاف کی راہیں مشکل بن جائیں اور انصاف دلانے کے جتنے بھی آئینی ادارے ہیں اس کے اندر یک رخی پیدا ہوجائے تو جمہوریت ایک بے لگام بھیڑ(Mobocracy)یااکثریت کا دبدبہ (Majoritism)کی شکل میں نظر آنے لگے گا اور آج کی تاریخ میں یہ بات نظر آرہی ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسی دستور کے نقطۂ نگاہ سے جو مینڈیٹ ملا ہے اور جس کی بنیاد پر بی جے پی نے دیگر پارٹیوں کو شامل کرتے ہوئے حکومت بنائی ہے اس سے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کیسے اور کس طرح اپنے مسائل، اپنی دشواریاں، اپنی شناخت، اپنے جذبات، ترقی کی راہ میںآگے بڑھنے کا ولولہ، تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کی جدوجہد کو بڑھانے اور مدارس کو اسلام کے پیغام کو عام کرنے اور اس کا تحفظ کیسے برقرار رہے ودیگر مختلف مسائل وحالات پر موجودہ حکومت سے دستور کی روشنی میں، قانون کے سایہ میں اور تاریخ کے پس منظر میں کیسے تعلقات قائم کیے جائیں۔ ان سوالوں پر مسلم اکابرین، دانشووران، سماجی کارکنان اور دیگر میدان کے ماہرین کے درمیان کچھ اختلاف پائے جارہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں انتظار کرنا چاہیے اور حکومت کے کل پُرزے کو دیکھنے کے بعد عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت سیمعاملہ (Compromise)کرتے ہوئے اپنے کاموں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ دونوں رائے اپنے اندر کمیاں رکھتی ہیں۔ میں ان کمیوں پر روشنی نہیں ڈال رہاہوں بلکہ یہ رائے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ نہ سرینڈر کرنا صحیح ہے اور نہ انتظار کرنا اور دیکھنا بلکہ دیکھو(Watch)اور بڑھو(Move)کی پالیسی اختیار کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ جب کوئی حکومت بنتی ہے تو وہ ہر سطح پر اپنے حالات، پس منظر، نظریہ، اعلان شدہ مینی فیسٹو اور مختلف دباؤ کے تحت کام کا آغاز تیزی سے کرتی ہے اور جب وہ ان تمام پہلوؤں کو مستحکم کرنے کے بعد اپنے عمل کو تیز کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس وقت ہم اپنے عمل و رد عمل کو پیش کرتے ہیں تو کہیں ونڈو ڈیکوریشن کی طرح خوبصورت الفاظ کے دائرے میں محبوس نظر آتے ہیں اور مختلف طرح کی تشریح اور وضاحت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ جتنے بھی مرحلے پر اقدام کیے جارہے ہیں وہ دستور کی عظمت، قانون کی بالادستی، ملک کے تمام شہریوں میں بھائی چارہ بڑھانے اور انصاف کی راہوں میں کوئی رکاوٹ تو نہیں بن رہے ہیں۔ اگر بن رہے ہیں تو اس کے مختلف پہلوؤں پر غور وخوض کرتے ہوئے مناسب اقدام کی کوشش کرنا چاہیے۔ دوسری طرف اپنی سوچ، فکر، لائحہ عمل اور جذباتیت کا اظہار حکومت کے سامنے کرنا چاہیے۔ اس میں پس وپیش کا معنی یہ ہوتاہے کہ اگر ہنگامی صورتحال پیدا کردی جائے۔ مصیبتیں کھڑی کردی جائیں، تو اس وقت ہم اپنے جذبات کو پیش کرنے کے لیے اشتعال کی راہ اختیار کریں اور اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک جنگی انداز کا جو کام ہوتاہے اس انداز سے پورے ملک میں پھیلانے کی اپنی بساط بھر کوشش کریں جس کا براہ راست فائدہ طاقتور گروہ جسے قانون کی بھی مددملتی ہے اور اکثریت ہونے کا فائدہ بھی اٹھاتی ہے اور وہ تمام کل پُرزے جو حکومت چلانے کے لیے، معاشرہ کی تشکیل کے لیے اور سماجی تانے بانے کو محفوظ رکھنے کے یے جو کل پُرزے ہوتے ہیں ان کی مدد میں لگ جاتے ہیں، اس کا خسارہ کمزور طبقات اور بالخصوص مسلمان جس کے خلاف عناد، نفرت اور تعصب بھر اہوا ہے وہ مزید اسے بڑھانے میں مددگار بن جاتے ہیں جبکہ مسلمانوں کو یہ خوب اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ وہ داعی گروہ ہیں جس کا مقصد حیات ہی یہ ہے کہ اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہونچا ئیں اور اچھائی وفلاح کی بات لوگوں کو بتائے اور انسانیت کے فروغ اور اس کے وقار کو بحال کرنے کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان سب کو لیکر دبے کچلے افراد، کمزور طبقات اور مختلف اکائیوں کے گروہ یا افراد تک پہونچنا چاہیے تاکہ ملک کو جہنم سے بچاتے ہوئے جنت بنانے کی طرف لے جانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
یہ حکومت جس نے پانچ سال کے لیے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے وہ اپنی طاقت کے نشہ میں، اکثریت کے جوش میں بہت سارے ایسے اقدام کرے گی جس سے کمزور طبقات بالعموم اور مسلمان بالخصوص مشتعل ہوں اور معاشرہ فرقہ وارانہ خطوط پر استوار ہو۔ یہ تمام حربے آر ایس ایس نے ایجاد کیے ہیں اور اسے مضبوط کرنے کی گزشتہ الیکشن میں کوشش کی گئی جس کا براہ رست اسے فائدہ ہوا اس لیے اس حربے کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ قوم جس کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور میں دیکھتا ہے۔ اسی فراست کا تقاضہ ہے کہ ایک طرف رجوع اللہ بڑھنا چاہیے تو دوسری طرف حالات کا صحیح تجزیہ، زمانے کے تقاضے، اندرونی اختلافات کی نوعیت، آپسی دست وگریباں ہونے کی نوعیت اور سازش رچنے والوں کے طریقہ کار اور ان کی چالوں کو سمجھنے اور اپنے جذبہ کو بیدار کرنے اور جذباتیت سے بچنے اور ایک دوسرے پر شک کرنے کے بجائے اعتماد کی راہیں پیدا کرنے کے لیے آپسی غوروفکر کو بڑھانے کے ماحول کو سازگار کرنے اور جمہوری نظام کے کل پُرزے خواہ سیاسی پارٹیاں ہوں، سرکاری عملے ہوں، سماج پر اثر ڈالنے والے گروہ ہوں اور ایسے عناصر جو اسے کمزور یا مضبوط کرتے ہیں، خاص طور پر میڈیا سے تعلقات کو استوار کرنے پر وقت لگانا چاہیے۔
آنے والے دنوں میں جن خطرات کے اندیشے ہیں ان کا احاطہ کرنے کے لیے تحقیق اور تجزیہ کرنا، علم اور تجربہ کا تبادلہ کرنا اور انصاف پسند انسانوں کو ساتھ لینا ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے،اس کے علاوہ شدت پسند لوگوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب کبھی ہم اپنی انا کے شکار ہوئے ہیں ’پدرم سلطان بود‘ کے دائرے سے نہیں نکلے، اپنے کو دوسروں سے بلند سمجھتے ہیں، دیگر لوگوں کو حقیر جاننے لگتے ہیں تو ہمیں اس کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے تازیانہ کے طور پر سزا بھی ملی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اپنی کمیوں کو دور کریں، اسلام کی تعلیم کی طرف آگے بڑھیں، سارے انسانوں کو اللہ کا کنبہ مانتے ہوئے اس کی بہتری کے لیے کام شروع کریں، جزا کے لیے صرف اللہ پر بھروسہ کریں۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home