آزاد ملک میں عوام کی آزادی سلب کرنے کی کوشش!

ڈاکٹر محمد منظور عالم

دنیابحران سے دوچاراور تباہ کن حالات کی جانب گامزن ہے ۔ پوری دنیا کے حالات تقریبا ایک جیسے ہیں ۔ افراتفری ، اقلیتوں پر حملہ ،شدت پسندوں کا غلبہ ،چندافراد کا پوری معیشت پر غلبہ ، غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ زیادتی صرف ایک ملک اور خطے کے ساتھ محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ ہورہاہے ۔ بنیادی ایشوز تقریبا ہر جگہ ایک ہیں ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دنیا جن مسائل سے دوچار اور بحران کی شکار ہے وہ فطری اور طبعی نہیں بلکہ منصوبہ اورسازش کا نتیجہ ہے ۔گذشتہ سو سالوں سے دنیامیں ایک نیا نظام نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس میں غریبوں ، کمزوروں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور مسلمانوں کیلئے جگہ نہیں ہے ۔ اس نظام کا واحد مقصد معیشت ، ایجوکیشن ، سیاست ،آزادی اور سبھی اہم امور پر مخصوص افراد کی اجارہ داری قائم کرنا بقیہ سبھی لوگوں کو ان کی غلامی اور ماتحتی کی زندگی گزار نے پر مجبور کرناہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آج بھی دنیا کا وہی نقشہ ہے جو ہزاروں سال قبل تھا جس کا تذکرہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کیاہے کہ فرعون ، ہامان اور قارون ،تینوں چاہتے تھے کہ دنیا پر صرف ان کی حکمرانی رہے ۔ پوری دولت بھی انہیںکے ہاتھ میں رہے ۔ عقل ،دانشمنددی ،ذہانت اور علم پر بھی انہیں کا قبضہ رہے ۔ بقیہ عوام ان کے ماتحت بن کر زندگی گزارنے پر مجبور رہیں ۔ فرعون ، ہامان اور قارون نے مشترکہ طور پر پوری دنیا کو غلام بنارکھاتھا ،حکومت ،معیشت اور علم سبھی پر اپنا قبضہ جمارکھاتھا یقینی طور پر ہزاروں سال بعد بھی آج وہی ذہنیت دوبارہ پنپ رہی ہے او ر کچھ لوگ اسی نقش قدم پر چل کر اپنا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں ۔

بھارت بھی مسلسل ایسے ہی حالات سے دوچار ہے ۔یہاں کی معیشت چندہاتھوں تک محدود ہے ، اکثریت افلاس ، غربت اور بھوک مری کی شکار ہے ۔بھارت کے آئین میں سبھی شہریوں کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں لیکن زمین پر اب تک اس کا نفاذ نہیں ہوسکاہے اور نہ ہی اس کیلئے کبھی کوشش ہوئی بلکہ اب سے ختم کرنے کی پوری پلاننگ جاری ہے ۔عوامی آزادی اور انسانی حقوق سلب کرنے کی پوری سازش رچی جارہی ہے ۔ کیوں کہ آزادی ایسی شی ہے جس سے عوام میں شعور بیدار ہوتاہے ۔انہیں اپنی صلاحیتوں کو کام میں لانے کا موقع میسر ہوتاہے ۔مستقبل کی فکر کرنے کا حوصلہ ملتاہے ۔ دشمنوں کی سازش سے آگاہی ملتی ہے ۔ قوموں کا اجتماعی اور انفرادی مزاج ترقی یافتہ بنتاہے لیکن آزادی پر قدغن لگادیاجاتاہے ۔ فریڈم سے محروم کردیا جاتاہے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب ہوجاتی ہے ۔ انسان کچھ بھی کرنے سے معذور ہوتاہے اور ہندوستان میں یہ سب کچھ منظم اندازی میں جاری ہے ۔ اقتدار میں بیٹھے اور اقتدار کے باہر بیٹھے لوگ بھارت کے عوا م کو آئین میں دی گئی آزادی سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔ آدی واسی ، دلت اور اوبی سی کے ساتھ ان کے نشانے پر سب سے زیادہ مسلمان ہیں ۔ وہ مسلمانوں کو ہر طرح کے حقوق سے محروم کرکے بے یارو مدگار چھوڑنا چاہتے ہیں ۔ تاریخ سے مسلمانوں کا نام مٹانا چاہتے ہیں ۔ یہ بات بہت عجیب لیکن حقیقت پر مبنی ہے کہ بھارت کی آزادی میں سب سے زیادہ کردار مسلمانوں کا ہے ۔ اگر یہ کہاجائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ آزادی میں مسلمانوں کی خدمات ، ان کی جدوجہد اور قربانیاں ان کی نمائندگی آور آبادی سے بہت زیادہ تھی لیکن آج مسلمانوں سے ہی یہ آزادی سلب کرنے کی سازش رچی جارہی ہے ۔ پوری منصبوبہ بندی ہوچکی ہے ۔ تاریخ کے اورق بدلے جارہے ہیں ۔ از سر نو تاریخ لکھی جارہی ہے اور مسلمانوں کے کردار ، ان کی خدمات کوحذف کیاجارہاہے ۔ جن لوگوں نے آزادی میں کوئی کردار ادا نہیں کیاتھا بلکہ تحریک آزادی کی مخالفت کی تھی ، بھارت کے ساتھ غداری کرتے ہوئے انگریزوں کا ساتھ دیاتھا آج انہیں کو آزادی کا ہیرو بتاکر پیش کیا جارہاہے اور اگر کہیں مجبوری میں یا حذف کی ہر ممکن کوشش کے باوجود مسلمانوں کا نام باقی رہ جاتاہے تو اس کی شدید مخالفت کی جاتی ہے ۔ اسے غلط بتایاجاتاہے ۔آخر کیوں ؟۔ مسلمانوں سے اس نفرت کی بنیادی وجہ کیاہے ؟ اور کیوں اس پر مسلمان خود نہیں سوچ رہے ہیں؟ ۔ کیوں مسلمان اس کا مقابلہ کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں ؟۔کیوں مسلمانوں میں خاموشی طاری ہے ؟۔کیوں مسلم دانشوران ، علماء، سیاست داں ،سماجی کارکنان اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اس پر غور وخوض نہیں کررہے ہیں؟۔

مسلمانوں کو بہت کچھ کرنا ہوگا ۔ بہت سارے امور کے بارے میں سوچنا اور غور وخوض کرنا ہوگا کہ آخر کیوں انہیں حاشیے پر رکھنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ؟ کیوں انہیں تعلیم ، سماجی خدمات ، سیاسی امو ر اور آزادی سے محروم کی سازشیں رچی جارہی ہیں ۔ آخر دشمنوں کی پالیسی کیاہے؟۔ ان کا منصوبہ کیاہے؟ ۔ وہ کیوں مسلمانوں کو صحفہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں ؟۔

سماجی ایشوز کی لمبی فہرست ہے ۔ غربت ،امیری ،معاشی کمزوری اور تجارت کو عموما سماجی مسئلہ ماناجاتاہے لیکن ہمارے یہاں یہ سب پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جارہاہے ۔ امیروں کو مزید امیر بنانے اور غریبوں کو مزید غریب بنانے کی پوری کوشش ہوتی ہے ۔ اوپر سے نیچے تک لوگ اسی کام کیلئے بیٹھے ہیں ۔ غریبوں اور کمزوروں کو پنپنے تک نہیں دیاجاتاہے ۔ انہیں دباکر رکھاجاتاہے ۔ کمزور طبقات کے لوگ ابھر نے ، آگے بڑھنے اور قوم کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں روک دیاجاتاہے ۔ ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ۔ ایسے امور پر بھی سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخریہ کیوں ہورہاہے ۔ اس کے پس پر دہ سازش کیاہے ۔ کیوں لوگ ان کے نشانے پر ہیں ۔ بطور انسان سبھی برابر ہیں ۔ اللہ تعالی نے سبھی کو مکرم اور باعزت بنایا ہے لیکن امیری غریبی کی یہ تفریق برتی جاتی ہے اور پوری پلاننگ کے ساتھ یہ سب کیا جاتاہے ۔

مسلم رہنماﺅں کو جہاں ایک طرف سوچنے ،غور وفکر کرنے ، دشمنوں کی پالیسی کوسمجھنے ، ان کی سوچ کو پرکھنے اور اصل سازش تک پہونچنے کی ضرورت ہے وہیں عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا شعور بیدار کرے ۔ قیادت پر بھروسہ اور اطمینان رکھے ۔ خوف وہراس کا شکار ہونے کے بجائے حوصلہ اور ہمت سے کام لے ۔ تاریخ پر بھروسہ کرے کیوں کہ تاریخ دہراتی اور مسلمانوںنے ہمیشہ ہمت ، حوصلہ اور صبر سے کام لیکر بڑے بڑے سے طوفان کا رخ موڑ دیاہے ۔ مخالف لہروں کا مقابلہ کرکے اسے اپنا موافق بنایاہے ۔ جب ملک آزاد ہورہاتھا تو اس وقت بھی کچھ ایسے ہی حالات تھے لیکن مولا نا ابو الکلام آزاد نے قوم کو حوصلہ دیا ۔ ان کی ہمت بڑھائی ۔جامع مسجد سے خطاب کیا کہ مسلمانوں یہی تمہارا وطن ہے ۔ یہیں تمیں اپنی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کرنا ہے ۔ اسی مٹی کی کامیابی اور ترقی میں تمہاری کامیابی اور ترقی ہے ۔یہاں سے تمہاری ہزارسالہ تاریخ اور تہذیب کا قدیم رشتہ ہے ۔ مولانا آزادنے یہ بھی بتایاکہ اگر مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے ۔ ان کے خلاف سازشوں کا جال بچھایاجاتاہے تو اس کیلئے ذمہ دار بھی خود مسلما ن ہوتے ہیں کیوں کہ وہ دشمن کی پالیسیاں سمجھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں اور اپنے قائدین پر بھروسہ کھودیتے ہیں ۔ اس بات میں صداقت بھی ہے ۔مولانا آزاد کا یہ جملہ حقیقت پر مبنی ہے کہ مسلمانوں کا اپنے قائدین پر عدم اعتماد ۔ ہندو قوم کی تنگ نظری اور عیسائیوں کی قوم پرستی کبھی ختم نہیں ہوسکتی ہے ۔

بھارت ایک آزاد ملک ہے ۔ آزادی کی لڑائی میں سب سے زیادہ قربانی ،جدووجہد اور خدمات مسلمانوں کی ہے ۔ سب سے زیادہ شہید مسلمان ہیں ۔ آبادی سے کئی گنابڑھ کر مسلمان مجاہدین آزادی ہیں ۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ مسلمانوں نے آزادی کی خاطر ،آزادی کیلئے آزادی کو پروان چڑھانے کیلئے عظیم الشان قربانیاں د ی ہیں ۔ مگر بدنصیبی سے ہم ان قربانیوں کو اپنے سینے سے لگا کر محفوظ رکھتے ہیں اور دوسرے مٹادیتے ہیں۔ ہماری یہ قربانیاں تاریخ کے صفحات میں کچھ دنوں تک محفوظ رہتی ہے اور پھر وہ حذف ہوجاتی ہے ۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہم علم کے سبھی ذرائع پر دسترس حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ اس پر قابو پانے کی کوشش کریں ۔ انسانی اعزاز اور وقار کو سامنے رکھیں ۔ قرآن کریم نے انسانیت کے تعلق سے جو نقطہ نظر بیان کیاہے اسے ہم پیش کریں ،بطور مسلمان دنیا کے سامنے ہمارا کردار سامنے آئے ۔تبھی مسائل حل ہوں گے ۔ قومی ترقی ہوگی ۔اور آنے والی عظیم تباہی سے نجات ممکن ہے ۔نئی نسل کیلئے حالات سازگار ہوسکتے ہیں۔

(مضمون نگار معروف دانشور اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )




Back   Home