مودی حکومت کا ایک سال: وعدے اور زمینی حقیقت
ڈاکٹر محمد منظور عالم
نریندرمودی حکومت آج سے پانچ سال کے اقتدار میں دوسرے سال میں داخل ہو گئی ہے، دوسرے سال میں کس طرح کے نتائج سامنے آئیں گے یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن سال بھر کی کارگذاریوں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ اس موقع پر مجھے اوما بھارتی کی یہ بات یاد آرہی ہے جب وہ مودی جی کے خلاف تھیں اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ ’’وہ وکاش پرش نہیں بلکہ وناش پرش ہیں‘‘۔ اب تو وہ خود ان کی حکومت میں شامل ہو چکی ہیں، اس لیے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ وکاش پرش کے ساتھ ہیں یا وناش پرش کے ساتھ ۔ اسی کے ساتھ یہ اہم بات بھی کہی تھی کہ ’’میڈیا نے غبارے میں ہوا پھونک ۔ پھونک کر مودی کو مشہور کر دیا ہے‘‘ اس لیے میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ غبارے سے ہوا نکالے اور صحیح طور پر حقائق کی بنیاد پر اپنا رول ادا کر سکے۔ سال بھر کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی اکثریت مودی جی کی کارگذاریوں اور حصولیابیوں کو پیش کرنے میں جٹی ہوئی ہے۔ جس طرح میڈیا ان چیزوں کو پیش کررہا ہے اس سے کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ آنکھیں رکھنے والے شاید غلط دیکھ رہے ہیں اور سننے والوں کو شاید غلط سنائی دے رہا ہے، مگر کیا کیا جائے آنکھ جو دیکھتی ہے، صحیح دیکھتی ہے، کان جو سنتے ہیں اس میں کچھ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور کچھ غلط بھی۔
ایک سال کے عرصہ میں ان کی ہی پارٹی کے اہم لیڈروں نے حقائق کو سامنے لاتے ہوئے صورتحال پیش کی۔ اسی طرح ملک کے ایماندار صحافی، دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے جب حصولیابیوں کا جائزہ لیا تو صاف نظر آیا کہ تعلیم، صحت، سماجی سیکٹر، خواتین اور بچے جیسے اہم امور کے بجٹ میں کٹوتی کر دی ہے۔ خواتین اور بچے جو ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملک کے لیے دماغ بھی فراہم کرتے ہیں جب اس کو ترقی کے دھارے سے ہٹا دیا جائے تو کیا ملک ترقی کی رفتار کو اختیار کر سکے گا؟ اور اگر صحت وتعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کر کے اس کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیا جائے تو کیا ملک دنیا کی رہنمائی کا کام کر سکے گا؟ کیا اس سے ہندوستان اور یہاں کے رہنے والوں کی صحت اچھی ہو جائے گی، ان کی تعلیم میں بہتری ہو پائے گی اور کیا اس سے بچوں کا مستقبل روشن ہو سکے گا، خواتین اپنے بچوں اور خاندان کی صحیح طریقے سے پرورش کر سکیں گی۔ اسی طرح بجٹ کے دوسرے سیکٹر میں کٹوتی ہوئی۔ یہ وہ سیکٹر ہیں جو عوامی فلاح وبہبود سے متعلق ہیں۔ غریبوں، کمزوروں، اقلیتوں، دلتوں اور آدی واسیوں کو فائدہ پہنچتا، بے روز گاری سے نکلنے کی امید پیدا ہوتی، کیا اس کٹوتی سے ملک کو کوئی فائدہ ہوا؟ تحویل آراضی کے ذریعہ کسان سے جبراً زمین لی جا رہی ہے۔ یہ ملک کھیتی پر مبنی ہے اگر کھیت نہیں رہیں گے تو ملک کا پیٹ کیسے بھرے گا؟ ویسے بھی جو زمین پہلے سے ایکوائر کی جا چکی ہے اس کا ابھی بھی استعمال نہیں ہوا ہے۔
وزیر اعظم نریندرمودی نے اپنے ایک سالہ دور میں اوسطاً ہر ہفتہ ایک دن کا سفر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کو انہوں نے ہندوستان سے قریب کیا۔ ہمارا میڈیا پوری قوت سے اس کے ثبوت فراہم کرنے میں لگا ہے اور ان کے تمام ہی وزراء اس کو حق بجانب ٹھہرانے کے لیے اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں، لیکن غور طلب معاملہ یہ ہے کہ پوری وزارت کو یہ ثبوت دینے کی ضرورت کیوں پڑی؟ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ عوام کو نظر آرہا ہے کہ بیرون ملک میڈیا میں ان کے دورے کے اس پہلو پر بہت کم چیزیں نظر آرہی ہیں۔ دوسری جانب ابھی تک ملک کے اندر کوئی بڑی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے۔ ریزروبینک آف انڈیا کے گورنر رگھورام راجن نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ صنعتی ادارے سی آئی آئی کے صدر سمت مجمدار نے بھی اسی بات کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ بزنس کو آسان بنانے کے میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی یہ وعدے ہیں جو نظر تو آرہے ہیں جس طرح گجرات کے وزیر اعلی رہتے انہوں نے بہت سے وعدے کیے اور سرمایہ کاری کی بات کہی لیکن عملی طور سے ایسا نہیں ہوا۔ کیا یہ غور کرنے والی بات نہیں ہے کہ بیرونی ممالک سرمایہ کاری کے لیے کیوں نہیں تیار ہو رہے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ ماضی کی اٹل بہاری واجپئی حکومت میں وزیر رہے ارون شوری نے بھی حکومت کے کام کاج کو لیکر جو سوالات اٹھائے ہیں حکومت ان پر بھی خاموش ہے۔ ان کے مطابق اس عرصہ میں لوک پال جیسے ادارہ میں تقرری نہیں کی گئی اب اگر یہ کہہ کر ان کی تنقید کی جا رہی ہے کہ گجرات کے وزیر اعلی رہتے ہوئے انہوں نے لوک آیکت کی تقرری نہیں کی تھی تو اس میں غلط کیا ہے؟ عدلیہ میں ججوں کے سیکڑوں عہدہ خالی ہیں۔ حکومت ابھی تک انہیں نہیں بھر سکی ہے۔ ایک لمبی جد وجہد کے بعد ججوں کی تقرری کے لیے کمیشن تو بن گیا ہے لیکن ابھی تک اس کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔ سی بی آئی بشمول دیگر بڑے اداروں میں جو جگہیں خالی ہیں وہاں کس کا انتظار ہے؟ کیا سنچالک ہی آئیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک سال میں کوئی گھوٹالہ نہیں ہوا تو سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے گا جب جانچ ایجنسیوں کے عہدہ خالی ہیں تو انکوائری کون کرے گا؟ حکومت کے قائم کردہ CAGکی رپورٹ میں جب ایک مرکزی وزیر کا نام آگیا تو اس کو سازش بتا کر مسترد کر دیا گیا۔ مسترد کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ اس CAG رپورٹ سے بی جے پی نے ماضی میں بدعنوانی اور گھوٹالے کے نام پر عوام کو بیدار کیا تھا تو کیا اب ان کے نزدیک CAG مشکوک ہو گیا۔
تاریخ کے میدان میں کام کرنے کے لیے قائم انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کے جو لوگ ذمہ دار بنائے گئے ہیں ان کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کر کے ہم اپنے ملک کو فریب اور افسانوی چیزوں کو تاریخ کا حصہ بنائیں گے اور اس سے ہماری آنے والی نسلیں اور ہمارے ملک کی پہچان جو ذہانت سے ہے کیا برقرار رہے گی۔ ہاں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ بہت ہی اچھے اچھے خوبصورت، اچھے اچھے الفاظ کے ساتھ وعدے بھی کیے گئے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات بھی کی گئی۔ اس میں بینک اکاؤنٹ بلاشبہ بہت سارے آسانی سے کھلے ہیں لیکن کاؤنٹ ہولڈروں کی ایک بڑی تعداد 15لاکھ روپے اس کے کھاتے میں آنے کی خوشخبری میں سوکھتی بھی جا رہی ہے اور مرتی بھی جا رہی ہے لیکن اس تعصب اور تنگ نظری کو کیا کہا جائے جب بلاسودی بنیادوں پر سرمایہ کاری کے لیے آر بی آئی نے کاؤنٹر کھولنے کا اعلان کیا تو اسے حکومت کے ذریعہ رکوا دیا گیا۔ جبکہ اس کے ذریعہ سرمایہ کاری کے لیے ایک بڑی رقم حاصل ہوتی جس سے ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر ہوتی۔ اس کے برعکس کالے دھن کے بڑھنے کے راستے کو ہموار کر دیا گیا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کے زیر اثر مودی اور بی جے پی نے ایک نئے کلچر کی شروعات کی ہے۔ وہ کلچر جو ملک کے سرودھرم، سدبھاؤ اور ہم آہنگی کا تھا اس کو توڑنے اور دستور کے سیکولر تانے بانے کو توڑنے کا کلچر پیدا کیا جس کے نتیجہ میں پارلیمنٹ میں وزیر ہونے کے باوجود جس زبان کا استعمال ان کی جانب سے کیا گیا اس کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔ جس طرح مسجدوں، گرجاگھروں میں توڑ پھوڑ کرنے اور خاص طور سے مسلمانوں پر حملہ ان کے سارے واہنوں کی طرف سے کیا گیا اس پر قانون بونا ہوتا گیا۔ جس آفیسر نے بھی اس صورتحال کو روکنے یا کنٹرول کرنے کی کوشش کی اس کا ٹرانسفر کر دیا گیا اور اس زبان کا اثر یہاں تک پڑا کہ مسلمان جو ان کی پارٹی کے ممبر بھی ہیں، ذمہ دار بھی ہیں کوئی یہ کہتا ہوا نظر آرہا ہے کہ سارے مسلمان احمق ہیں تو دوسرا کہتا ہے کہ گوشت کھانا ہے تو پاکستان چلے جاؤ۔ اس طرح کی زبان کا استعمال پورے ملک میں کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ ہماری تہذیب کی پہچان ہے۔ کیا مشترکہ تہذیب نے ہمیں یہی سکھایا تھا۔ کیا جس تہذیب کی بات یہ لوگ کرتے ہیں یہ اس کی پہچان ہے۔ درگاواہنی، یواواہنی اور جتنی بھی ان کی تنظیمیں ہیں وہ قانون کو نہ صرف توڑ رہی ہیں بلکہ ان سے کھلواڑ کر رہی ہیں اور جو قصوروار ہیں وہ آزاد گھوم رہے ہیں، جو معصوم اور بے قصور ہیں وہ جیل میں ہیں باوجود اس کے کہ کورٹ کے فیصلے اکثر وبیشتر یہ آرہے ہیں کہ ان معصوم لوگوں کو جیل کی سزا کاٹنے کے بعد 5/10سال بعد رہا کر دیے جاتے ہیں۔
آج بھی معصوم خاص طور سے مسلمانوں کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کب، کہاں اور کس حال میں بغیر جرم کے ملزم کی شکل میں جیل بھیج دیا جائے۔ کیا اس کلچر سے دنیا ہندوستان سے امن وآشتی کا سبق لے گی؟ بدلتی دنیا میں ایشیا کا رول اہم ہو گا۔ اس میں بھارت کا بڑا کلیدی رول ہو گا۔ یہ سال بھر کے واقعات کیا اس رول کو بڑھانے میں مدد کریں گے یا سرمایہ کاروں سے لے کر سیاحوں تک کے یہاں آنے سے بچنے کی کوشش کریں گے۔ اس کلچر کا اثر جس طرح بڑھتا جا رہا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ اب آگ کو آگ سے بجھانے کی بات کہی جا رہی ہے جبکہ آگ ہمیشہ پانی سے بجھتی ہے۔ پانی خواہ کتنا ہی گندہ کیوں نہ ہو وہ آگ کو بجھاتا ہے۔ اس لیے تہذیب وکلچر کی روایت ہوتی ہے کہ بھیانک سے بھیانک صورتحال کو خوش اسلوبی سے نمٹایا جائے تاکہ وقار بھی بحال رہے، عزت بڑھے اور مسال قائم ہو۔
میں وزیر اعظم نریندرمودی سے گزارش کروں گا کہ وہ دستور کو ہی حکمرانی کا ذریعہ بنائیں، اس کی روح کو سمجھنے کی کوشش کریں، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم بھارت کو عظیم (مہان) نہیں بنا سکتے۔ عوام نے آپ کو موقع دیا ہے لیکن ملک صرف کتھنی کے ذریعہ دنیا کے نقشہ میں بلند نہیں ہو سکتا بلکہ کرنے کے ذریعہ ثابت کریں کہ ہمارا بھارت عظیم ہے۔ آدرش انسان دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہم ہندوستانی سر اٹھا کر کہیں کہ 21ویں صدی میں پوری دنیا کے لیے نمونہ ہمارا ملک ہے۔ بقول شاعر ع سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home