سلسل14
*داعی اور اسم ذات کی معرفت*


. گزشتہ قسطوں میں ہم یہ بات کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے صفاتی نام ہیں. ان ناموں سے اللہ تعالیٰ کی بے مثال عظمت و قدرت کا اظہار ہوتا ہے. ان ناموں کے ذریعے مومن کو اپنے کردار و عمل کو سنوارنے کا بھی موقع ملتا ہے. اب اُن پاکیزہ صفاتی ناموں پر گفتگو کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسمِ ذات *اللہ* کے حوالے سے کچھ باتیں کرنے کی سعادت حاصل کی جائے.

. اسمِ ذات کے متعلق مفسرین، محدثین، صوفیاء اور اہل لغت نے بہت کثرت سے لکھا ہے. اسمِ مبارک کی بے پناہ حکمتیں اور صفات بیان کی گئی ہیں. اس کی اثر انگیزی پر الگ الگ انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے. ان چیزوں کا مطالعہ کرنے کے بعد جو بنیادی نکتہ ہمارے سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام صفاتی نام اُس کے اسمِ ذات میں سما گئے ہیں. صفاتی ناموں سے ربِ کائنات کی جو لامحدود قوتیں اور قدرتیں سامنے آتی ہیں، اُن سب کا نچوڑ اسمِ ذات کے اندر آگیا ہے. اسمائے حسنی کے اندر جو جو اثر انگیزیاں اور انسانی زندگی کو سنوارنے کے جو بے مثال دروس موجود ہیں، وہ سب اسمِ ذات کے اندر موجود ہیں. اس جادوئی تاثیر اور لامحدودیت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اسمائے حسنی کو سمجھنا ضروری ہے. اس کے بعد ہی اسمِ ذات کی حقیقی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے

. ایک داعی کی زندگی میں جس طرح بہت سی چیزوں کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح اس کے ذہن و دماغ اور دل میں اسمِ ذات کی معرفت کا ہونا بھی ضروری ہے. اس کی معرفت ہوگی، تبھی وہ شرک کے ادنیٰ مظاہرے سے بھی محفوظ ہوگا، بے خوفی اور بے باکی سے اپنی دعوت پیش کر سکے گا، خود بھی اسلام پر مطمئن ہوگا اور دوسروں کو بھی کر سکے گا، سخت سے سخت حالات میں بھی گھبراہٹ اور مایوسی سے محفوظ رہے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیشہ حکمت و تدبر اور فہم و فراست کو پوری طرح کام میں لاسکے گا. اگر اسمِ ذات کی معرفت اور اللہ تعالیٰ پر یقین و اعتماد میں ذرا بھی کمی ہوئی تو وہ قدم قدم پر بے حکمتی اور بے فراستی کا شکار ہوگا. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادِ گرامی: قولوا آمنت بالله ثم استقم (کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم کر دکھا دو) کا یہی مطلب ہے. ڈاکٹر محمد منظور عالم

چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی




Back   Home