سلسلہ9
*دعوت میں ہمدردی اور نرمی کا پہلو*


. قرآن کریم میں دعوت کو امت مسلمہ کے وجود کا مقصد بتایا گیا ہے. اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: "تم بہترین امت ہو، جسے انسانوں کے لیے نکالا گیا ہے. تم بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو." پروردگار کا یہ بھی بڑا احسان ہے کہ اس نے صرف ہمارا مقصد بتانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ہمیں دعوت کا طریقہ کار بھی بتایا ہے. اس طریقہء کار کے کچھ اصولوں پر پہلے گفتگو کی جاچکی ہے. لیکن ابھی ایک ایسی اہم چیز پر گفتگو باقی ہے، جو دعوتی طریقہ کار کے تمام اصولوں سے وابستہ ہے. وہ اہم چیز ہے ہمدردی اور نرمی

دعوت کے سلسلے میں اسلام کا نقطہء نظر یہ ہے کہ داعی خود کو سب کا لیڈر اور نگراں نہ سمجھے. بلکہ وہ اپنے آپ کو خادم اور چھوٹا سمجھے. اُس کے ذہن میں ہمیشہ یہ تصور ہو کہ ہر انسان چاہے وہ اسلام کا کتنا ہی بڑا دشمن کیوں نہ ہو، ہمارا بھائی ہے. اُس کے پاس صحیح معلومات کی کمی ہے اس لیے اسے ہماری ضرورت ہے. ہمیں جس طرح بھی ہو اُس کو صحیح معلومات دینی ہے اور اُسے سچ کی راہ پر لانے کی کوشش کرنی ہے. اسلام نے ہمدردی اور نرمی کا تصور اتنے پرزور انداز میں دیا ہے کہ انسان کے لیے اس کا تصور مشکل ہے. فرعون جیسا شخص، جو خود کو خدا کہتا تھا اور برسوں سے بنی اسرائیل کو شدید مصیبتیں دے رہا تھا، اُس کے پاس جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو بھیجا گیا تو حکم ہوا: "اُس سے نرم بات کہنا." اسی طرح اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا گیا: "اگر آپ زبان اور دل کے سخت بن گئے تو لوگ آپ سے دور ہوجائیں گے." یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پوری حیاتِ مبارکہ میں کبھی بھی دعوت کے سلسلے میں کوئی غصے والی یا سخت بات نہیں کہی. اس نرمی اور ہمدردانہ رویے کا جو شان دار نتیجہ نکلا وہ دنیا کے سامنے ہے

. حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو کی گئیں یہ نصیحتیں قرآن کریم میں اسی لیے بیان کی گئی ہیں کہ امت مسلمہ ان سے ہمیشہ روشنی حاصل کرتی رہے. غیروں کے ساتھ ہم دردی اور نرمی کو اپنا شیوہ بنائے. اپنے کردار و عمل سے اُن پر یہ واضح کر دے کہ ہم انھیں اپنا دشمن نہیں سمجھتے. بلکہ اپنا بھائی سمجھتے ہوئے ان سے پوری ہم دردی رکھتے ہیں. اس کے لیے ہمیں ہم دردی اور نرمی کی قرآنی تعلیمات کو جدید ترین وسائل و ذرائع استعمال کرتے ہوئے مختلف انداز اور مختلف جہتوں سے استعمال کرنا ہوگا. اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم دعوتی اسلوب کے ایک اہم ترین پہلو کو فراموش کر دیں گے. یہ ہمارا بڑا نقصان ہوگا ڈاکٹر محمد منظور عالم

چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی




Back   Home