مغربی بنگال کا الیکشن کمزور طبقات ومسلمانوں کے لیے ایک چیلنج
ڈاکٹر محمد منظور عالم
مغربی بنگال، آسام، کیرل، تمل ناڈو اورمرکز کے زیر انتظام ریاست پانڈیچری میں ریاستی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ سبھی پارٹیاں رائے دہندگان کو لبھانے اور ان کے ووٹ کو حاصل کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ ان ریاستوں میں جہاں برسراقتدار پارٹی اپنے کاموں کو بطور حصولیابی کے رائے دہندگان سے ووٹ مانگ رہے ہیں وہاں اپوزیشن پارٹیاں حکمراں جماعت پر انتخابی وعدوں کو پورا نہ کرنے کا الزام لگاکر اپنے حق میں فضا سازگار کررہی ہیں۔ مذکورہ پانچ ریاستوں میں مغربی بنگال، آسام اور کیرالہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی قابل ذکر ہے۔ ان میں آسام میں سب سے زیادہ 34فیصد اور مغربی بنگال وکیرل میں 27فیصد مسلم آبادی ہے، جو وہاں کے الیکشن میں اپنا ثر رکھتی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق جس پارٹی کو مسلم ووٹ ملے گا، تاج اسی کے سر پر ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلم ووٹ کو حاصل کرنے کی تگ ودو کررہی ہیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی جو مسلم ووٹ کے تعلق سے مایوس ہے کی پوری کوشش اس بات پر مرکوز ہے کہ کسی طرح مسلم ووٹ کو منتشر کردیا جائے وہیں اس کی یہ بھی کوشش ہے کہ ہندو مسلم کے درمیان نفرت کو بڑھایا جائے تاکہ ووٹ پولورائز ہوسکے۔
جہاں تک مغربی بنگال کا معاملہ ہے۔ ایک لمبی حکمرانی کے بعد بائیں بازو کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا تھا اور گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ترنمول کانگریس اور کانگریس اتحاد نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس تبدیلی کو وہاں کے رائے دہندگان نے کافی پسند کیا جس نے انھیں ہوا کے ایک خوشگوار جھونکے کے ساتھ ماحول کی تازگی اور خوشبو کا احساس کرایا۔ اس لحاظ سے ریاست کے رائے دہندگان کا فیصلہ بہت صحیح تھا اور الیکشن میں انھوں نے بالغ رائے دہی کا ثبوت دیکر ایک نظیر قائم کی جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ موجودہ حالات اسی بالغ رائے دہی کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن یہ گزشتہ انتخاب سے مختلف ہے اور اس بار حالات برسراقتدار پارٹی کے حق میں رائے دہندگی کا مطالبہ کررہے ہیں ۔
مغربی بنگال بنگلہ دیش کی سرحد سے لگا ہوا ہے کچھ ایسی ہی صورتحال آسام کی بھی ہے ان دونوں ریاستوں میں آر ایس ایس، بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیمیں بنگلہ دیشی کے نام پر مسلمانوں کو حراساں کرتی ہیں، نت نئے الزامات لگا کر انھیں مشتعل کرتی ہیں اور اس بنیاد پر پورے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرتی ہیں، اور اس طرح کا ماحول بنایا جاتا ہے جہاں سچ کا سورج غروب ہوتا ہے اور جھوٹ کا سورج میڈیا کے ذریعہ طلو ع ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن مغربی بنگال کے عوام عموماً اور خاص طور سے مسلمانوں نے بیداری کا ثبوت دیا جس کی وجہ سے جھوٹ کا فلسفہ پروان نہیں چڑھ سکا اور عوام نے ممتا بنرجی پر بھروسہ کیا، ممتا نے اس بھروسہ کو باقی رکھا اور ماضی کی حکومتوں کی ناکامی کو سمجھتے ہوئے مثبت اقدام کیا اگرچہ توقع مسلمان مزید کی کررہے تھے۔
بائیں محاذ کی 27سالہ حکومت میں مسلمانوں کی پسماندگی کسی سے پوشیدہ نہیں رہی حتی کہ سچر کمیٹی نے جب پورے ملک کے مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی صورتحال کا جائزہ لیا تو انکشاف ہوا کہ مغربی بنگال کے مسلمان دیگر ریاستوں کے مسلمانوں کے مقابلے کافی پسماندہ ہیں۔ ممتا بنرجی نے مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جس کے نتیجہ میں گزشتہ تین سال کے اندر سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً 10فیصد ہوگئی جبکہ اس سے قبل محض 2فیصد تھی۔ اسی طرح کنّیا شری اسکیم شروع کی جس کی پوری دنیا میں تعریف کی گئی۔ اس کے تحت 33لاکھ لڑکیوں کو اسکالرشپ دیکر انھیں تعلیم کی طرف راغب کیا۔ گیتانجلی اسکیم کے تحت غریب عوام کے لیے گھر بنوائے گئے۔ ریاست کے 8کروڑ غریب عوام کو2روپے فی کلو چاول /گیہوں دستیاب کرایا گیا۔ معروف ماہر اقتصادیات امرتیہ سین نے ریاست کے مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی صورتحال پر مبنی رپورٹ میں جو اعداد وشمار پیش کیے ہیں ا س کو سامنے رکھتے ہوئے ریاستی حکومت آئندہ پانچ سال کے لیے ایسی منصوبہ بندی کرے جس سے پسماندہ قوم عموماً اور خصوصاً مسلمانوں کو اطمینان ہوسکے کہ تعلیم، روزگار، اقتصادیات اور دیگر میدان میں آگے بڑھنے کااسے بھرپور موقع ملے گا۔
مالدہ کے فرقہ وارانہ تصادم اور ورنداون بم دھماکوں میں ریاستی حکومت نے غیر جانبداری سے تفتیش کرکے کارروائی کی اور انصاف کو یقینی بنایا۔ حکومت کے اس طرز عمل کے سبب وزیر اعلی ممتا بنرجی کو اپوزیشن کی تنقید کا نشانہ بننا پڑا اور ان پر مسلمانوں کی منھ بھرائی کا بھی الزام لگا۔ لیکن اس کے باوجود ممتا بنرجی اپنے موقف پر قائم رہیں، جس کی وجہ سے ان کی امیج صاف ستھری بنی ہوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی پارٹی کے ایم ایل اے اور حکومت کے بعض وزراء کو اسٹنگ آپریشن میں رشوت لیتے دکھایا گیا ہے لیکن یہ معاملہ کوئی دوسال پرانا ہے جسے الیکشن کے موقع پر اٹھایاجارہا ہے تاکہ رائے دہندگان کو متاثرکیا جاسکے جبکہ حکومت کا موقف بالکل واضح ہے کہ اس معاملے کی جانچ چل رہی ہے اور جو رپورٹ آئے گی اس کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
یہ صحیح ہے کہ ریاست میں جہاں دیگر علاقائی مسلم سیاسی پارٹیاں میدان میں ہیں وہاں مسلمان بھی ایک رائے نہیں ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ اختلاف طریقۂ کار کا ہے جہاں کچھ لوگ ممتا بنرجی کے حق میں ہیں وہاں کچھ مسلمان کانگریس اور بائیں محاذ کے اتحاد کے ساتھ ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ ایسا اس لیے ضروری ہے تاکہ حکومت کے کاموں کی نگرانی کی جاسکے ورنہ اکثریت میں ہونے کے سبب حکومت پر کنٹرول ممکن نہیں ہے۔ اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ ممتا بنرجی کی نیت پر شک ہے بلکہ اس کی بنیاد اسمبلی کی وہ اکثریت ہے جس کی حصولیابی کے بعد مزاج کا بدل جانا سیاسی فطرت ہے۔ لیکن اس طریقۂ کار کو اختیار کرتے ہوئے دانشمندی کو محلوظ خاطر رکھنا ہوگا اور دانشمندی یہ ہے کہ ووٹ کی قیمت کو سمجھتے ہوئے موجودہ بگڑے ہوئے حالت کو سامنے رکھتے اپنے ووٹ کا اس طرح استعمال کریں کہ گزشتہ دو سال سے سماجی تانے بانے کو توڑنے کی جوکوشش ہو رہی ہے، کئی طرح کی اسکیمیں جو سورج کی روشنی نہیں دیکھ پارہی ہیں اور ’لوجہاد‘، ’راشٹرواد‘ اور گالی گلوج کی زبان کے ذریعہ ہندو مسلم کے درمیان جو دوریاں پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہیں، کو ناکام بنائیں اور ترنمول کانگریس کو ووٹ آئندہ پانچ سال مزید سہولتیں حاصل کرنے کے مقصد سے دیں تاکہ مسلمانوں کو نقصان پہونچانے والی بی جے پی کے اثرات سے محفوظ کرسکے۔ ووٹ ایک جمہوریت کافریضہ ہے جس کو پوری طرح سے ادا کرنے کے لیے خود کے علاوہ دیگرلوگوں کو اس کی اہمیت بتاتے ہوئے ووٹ مکمل طور پر ڈالنے کی کوشش کریں۔ یاد رکھیں کہ 5سال کا یہ الیکشن دستور کو نہ ماننے والی سیاسی پارٹی کے لیے سبق ہوگا کہ ہمارا دستور نہ صرف عظیم ہے بلکہ ہندو مسلم اکائی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اس لیے جذباتیت اور اشتعال انگریزی کا شکار ہوئے بغیر ایک سمجھدار اور فہم رکھنے والی قوم کی حیثیت سے بہار کی طرح ووٹ ڈالنے کے طریقۂ کار کو اختیار کریں تو شایداس کا مثبت اثر یہ پڑے گا کہ آر ایس ایس جو ناپاک منصوبے کے تحت کام کررہاہے، ناکام ہوجائے گا۔ کوشش کریں کہ مسلمان کمزور طبقات کو ساتھ لیکر چلیں تاکہ یہ اتحاد مسلمانوں اور کمزور طبقات کے ساتھ ملک کی ترقی، سماجی بھائی چارہ اور آپسی میل جول کو مضبوط کرسکے۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home