حکومت اور آر ایس ایس کیا واقعی اقتصادی ترقی کے تئیں سنجیدہ ہیں؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
گزشتہ دو سال کے دوران اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھانے اور ملک کو ترقی کی جانب لے جانے کے مقصد سے جن نئی نئی اسکیموں سے کان آشنا ہوئے ہیں وہ بظاہر تاثر دیتے ہیں کہ اس سے پہلے کی حکمراں پارٹیوں نے اس نہج پر کوئی دھیان نہیں دیا ہے بلکہ اب بی جے پی قیادت والی این ڈی اے حکومت اس تعلق سے کافی سنجیدہ ہے اور اس کا مظہر یہ ہے کہ اس نے’’اسٹارٹ اپ انڈیا‘‘ ،’’اسٹینڈ اپ انڈیا‘‘ اور ’’میک ان انڈیا‘‘ جیسی کئی اسکیمیں شروع کی ہیں تاکہ ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار کو بڑھایا جاسکے۔ لیکن کیا اقتصادی ترقی کے یہ نئے سیکٹرس اس مشن کو پور اکررہے ہیں یا صرف نام کی حدتک ہی پرکشش ہیں جن کا زمینی حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ بات بھی کم اہم نہیں ہے کہ مرکزی حکومت کے تمام تر بلند بانگ دعوؤں کے باوجود اقتصادی ترقی کی رفتار تیز نہیں ہورہی ہے جس کا اندازہ جہاں عام لوگوں کو ہے وہاں خود سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی رپورٹیں اس پر مہر ثبت کرتی ہیں۔ اقتصادی ترقی کی رفتار نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ گزشتہ دوسال سے ملک کا سماجی ڈھانچہ ہے جہاں کمزوروں، دلتوں، آدی واسیوں اور اقلیتوں میں ایک قسم کا خوف وہراس پیدا ہو اہے اور سنگھیوں کوزعم ہوا ہے کہ قانون اور ضابطے اس کے لیے نہیں ہیں۔ وہ خواہ کچھ بھی کریں، حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ یہ تصور کسی حد تک صحیح بھی ثابت ہوا ہے غیر ذمہ دارانہ بیان پر نہ تو کسی کی سرزنش کی گئی اور نہ ہی سماجی ہم آہنگی ویکجہتی کو بگاڑنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ ایسی صورت میں عدم اعتماد کا ماحول بنا اور باتیں ہوئی اقتصادی ترقی کی، جو کہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے تمام اعلانات کے باوجود وہ اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی جس کا اعادہ اس نے کیا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جس طرح بیرونی دورے کرنا شروع کیے اس کے بعد لوگ یہاں تک کہنے لگے کہ انھیں وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ وزیر خارجہ ہونا چاہیے تھا۔ وہ جہاں گئے وہاں موجود ہندستانیوں کے مجمع کو خطاب کیا اور واپس آکر دیش واسیوں کو یہ خوشخبری سنائی کہ عنقریب بیرونی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کرنے آرہے ہیں اس سے ملک کی اقتصادی سرگرمیاں بڑھیں گی اور خوشحالی آئے گی۔ اس پس منظر میں اگر ہم حکومت کے ذریعہ کیے گئے تجارتی معاہدوں جنھیں ہند۔ای یو ایف ٹی اے کہتے ہیں کے اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ سالوں میں 50 فیصد کی ہی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر علاقائی تجارتی معاہدہ جیسے جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک، یورپی یونین وغیرہ ہیں جو علاقائی اور آپسی تعاون کو بڑھانے میں کافی معاون رہے ہیں لیکن ا س میں بھارت کافی پیچھے ہے۔ آسیان ممالک میں تجارتی معاہدہ بھی ٹھہر سا گیا ہے اور گزشتہ دنوں بروسلز میں یورپین یونین کے ساتھ ہندستان کی کانفرنس ہوئی تو اس میں سب سے اہم پہلو تجارتی معاہدہ پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی اور پورا پروگرام صرف ایونٹ ڈپلومیسی بن کر رہ گیا۔ اسٹارٹ اپ کو جس دھوم دھام اور شور شرابے کے ساتھ شروع کیا گیا تھا اس کا نتیجہ کیا نکلا، حکومت ابھی نہیں بتارہی ہے لیکن مارکیٹ سے جو اشارے مل رہے ہیں وہ مثبت نہیں ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق لدھیانہ جو کہ اسمال انڈسٹریز کا ہب ہے وہاں بھی انڈسٹریز بند ہورہی ہیں۔ اکیلے پنجاب میں محض دو سال میں کئی ہزار چھوٹی اکائیاں بندہوچکی ہیں۔ یہ وہ اسمال انڈسٹریز ہیں جو چھوٹی سطح پر نہ صرف روزگار پیدا کرتی ہیں بلکہ ایک بڑی آبادی کو اس سے جوڑے رکھتی ہیں جس سے ان کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی ہے لیکن حکومت کی پالیسی ایسی ہے کہ لوگوں کو روزگار کرنا مشکل ہورہا ہے حالیہ دنوں پورے ملک میں 42دن چلی جیولرس کی ہڑتال اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اس ہڑتال کا اثر بھلے ہی سرمایہ داروں پر نہ پڑا ہولیکن جو لوگ یومیہ یا پھر ماہانہ مزدوری پر کام کرتے ہیں ان کے لیے دوجون کی روٹی حاصل کرنا مشکل ضرور ہوگیاتھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ پالیسی معاملہ تھا جس پر حکومت نے اتنا وقت لگادیا جس کا براہ راست اثر غریب طبقہ پر پڑا لیکن آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا تنظیموں کے کارکنوں کی جانب سے جس طرح ملک کے ماحول کوفرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کیا جارہا ہے اس نے تو پورے ملک کی اقتصادیات کو ہی متاثرکیا ہے۔ انڈسٹریز کھلنے کے بجائے بند ہورہی ہیں اس کی بنیادی وجہ خوف وہراس کاماحول ہے۔ گوشت کی تجارت کے نام پر فرقہ پرستوں کی جانب سے جس طرح غنڈہ گردی کی جارہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کس طرح محض شک کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کو پیٹ پیٹ کر مارڈالاجارہا ہے، اور حکومت کی جانب سے اس طرح کے واقعات پرکسی طرح کا اظہار ندامت تو دور وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کا مواخذہ بھی نہیں کررہی ہے جس کی وجہ سے ان عناصر کے حوصلے بلند ہیں۔ ملک کے اقتدار پر قابض بی جے پی اور اس کی سرپرستی کررہی آر ایس ایس کی اقتصادی معاملوں میں کیا سوچ ہے اور وہ ملک کو کس راستے پر لے جانا چاہتی ہے۔ دوسال کا عرصہ اس جائزے کے لیے کم نہیں ہوتا ہے۔ اس جائزے سے صاف ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے ان کے نزدیک تو وہ ایشوز ہیں جن سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارگی متاثر ہو، کو پروان چڑھانے میں دلچسپی ہے۔ منواسمرتی کو نافذ کرنے والوں کی منشا ملک کے ماحول کو بھگوا رنگ میں رنگنا ہے تاکہ فکری سطح پر انتشار پیدا ہو اور جو طبقات اس ملک میں رہتے ہیں وہ بے چین ہوں اور ان کی اقتصادی حالت متاثر ہو کیونکہ بہتر اقتصادیات کے چلتے نہ تو آر ایس ایس کا منواسمرتی کا استحصالی منصوبہ پورا ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کا نظریہ پروان چڑھ سکتا ہے۔ ریزرویشن ختم کرنے کا آر ایس ایس سربراہ کا بیان بھی اسی ضمن میں ہے تاکہ دلت، کمزور طبقات، آدی واسیوں، اقلیتوں اور مسلمانوں کو واپس اسی پوزیشن میں لایا جائے جہاں انھیں اقتصادی طور پر پسماندہ رکھ کر ان کا استحصال کیا جاسکے۔ حکومت بظاہر جو اقدامات کررہی ہے اس سے اقتصادی طور پر کمزور اور پسماندہ طبقات کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ حکومت ان کی خیر خواہ ہے اور انھیں اوپر اٹھانے کی کوشش کررہی ہے لیکن جب سنگھ پریوار اور اس کی ذیلی تنظیموں کے لوگ ماحول کو خراب کرکے اقتصادی ترقی کا راستہ روکتے ہیں توحکومت ان پر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے انھیں کھلی چھوٹ دیتی ہے۔ اس لحاظ سے دونوں کا ایجنڈہ ایک ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ایک پیٹھ تھپتھپاتا ہے تو دوسرا وار کرتا ہے۔ متاثر آہ وفغاں کرتا ہے لیکن اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔ اقتصادی سطح پر مودی حکومت کی یہ دو سالہ کارکردگی کی ایک ہلکی سی جھلک ہے، ایسو چیم نامی تجارتی ادارے نے اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں بھی اس نے بتایا ہے کہ کس طرح گزشتہ سالوں کے مقابلے لیدر، آٹو موبائل اور دیگر شعبوں میں روزگار کی کمی ہوئی ہے جبکہ یہ وہ شعبے میں جو روزگار کے حوالے سے اپنی شناخت رکھنے کے ساتھ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتے ہیں۔ 2015میں کم از کم آٹھ شعبوں ٹکسٹائل، چمڑا، دھاتیں، موٹرکاریں اور ہینڈلوم میں صرف 135000روزگار کے مواقع پیدا ہوئے جبکہ 2014میں ان شعبوں میں 421000 ملازمتیں پیدا ہوئی تھیں۔ 2015کے آخری تین مہینوں میں برآمدگی کے شعبہ سے 20ہزار لوگوں کو ملازمت سے رخصت کردیا گیا ہے۔ 2015میں جو بھی بیرونی سرمایہ آیا ہے اس کا بڑا حصہ سافٹ ویئر، فنانشیل سروس، تجارت، اسپتال اور سیاحت کی طرف منتقل ہوا ہے۔ روایتی شعبے اس سرمایہ کاری سے محروم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ روایتی شعبوں کو نظر انداز کرکے صرف نئے نئے دلکش ناموں سے اسکیموں کو متعارف کرنا یقینی طور پر کمزور اور پسماندہ طبقات کے لیے نہیں ہے کیونکہ جن اسکیموں کو موجودہ حکومت نے شروع کیا ہے وہ انفارمیشن ٹکنالوجی کی بنیاد پر مبنی ہیں اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنا ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہے جس طرح حکومت نے ان کورسیز کی فیس میں اضافہ کیا ہے وہ کمزور اور پسماندہ طبقات کے لیے آگے بڑھنے کا محض ایک خواب ہی ہے۔ آئی آئی ٹی کی فیس 90ہزار سے بڑھاکر یکلخت 2لاکھ روپے کردی اسی کے ساتھ دیگر پروفیشنل کورسیز کی فیس میں بھی اضافہ کرکے اسے صرف سرمایہ داروں کے لیے مخصوص کردیا ہے تاکہ سماج میں اقتصادی اونچ نیچ بدستور بنی رہے جس سے حکومت کو منواسمرتی کا تفریق پر مبنی ایجنڈہ لاگو کرنے میں آسانی ہو۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |