’جملہ بازوں‘ کی پکاراور رائے دہندگان کا جواب
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
36 ماہ قبل جمہوری طریقے سے دستور پر عمل کرتے ہوئے 2014 کا الیکشن ہوا ۔ جہاں آر ایس ایس کی بنائی ہوئی بہت سی تنظیمیں اوروہ تنظیمیں جو آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی سے اتفاق رکھتی تھیں، ان سب کی کوششوں کے نتیجہ میں اور ساتھ میں میڈیا جو جمہوریت میں غیر تحریری چوتھا ستون ماناجاتا ہے ، اس کے مکمل تعاون سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت بنی اور آر ایس ایس کی سوچ کے دھارے میں رہتے ہوئے اراکین پارلیمنٹ نے بھی آئین کی قسم کھائی اور اس کی روشنی میں اپنی ذمہ داری کو قبول کیا، اس ذمہ داری میں خاص طور سے دستور کی پا سداری ، اس پر عمل کرنے ، دستور کے ذریعہ ملک میں رہنے اور بسنے والے سبھی عقائد ، سوچ و فکر رکھنے والے، مختلف علاقوں میں رہنے والے ، شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والوں نے ایک حسن ظن قائم کیا کہ یہ نئی حکومت جو بی جے پی کی قائم ہوئی ہے ،دستور کی روشنی میں اسکا پاس و لحاظ رکھتے ہو ئے اس طرح سے کام کر ے گی جس سے ملک میں رہنے والے خواہ کسی عقیدہ، ذات یا دھرم کے ماننے والے ہوں ، چھوٹے ہوں ، یا بڑے ہوں، دلت ہوں یا آدی واسی یا اقلیت ہو ں سب کے درمیان اتحاد و اتفاق کی کڑی دستور ہی رہے گا ، لیکن زیا دہ وقت نہیں گذرا جہاں مودی بھکتوں کے علاوہ جو عام ہندستا نی ہیں کا بھر م ٹوٹتا گیا او ر اب تو یقین ہو گیا کہ موجودہ حکومت صرف وہی کرے گی جو اسے ناگپور سے سمجھا یاجائے گا ، یا حکم دیا جائے گا، اور اس کی بنیا د میں نفرت پیدا کر نا ، نفرت کی شدت کو بڑھاوا دینا ، آپس میں لڑائی جھگڑے کرانا اگر جھگڑے نہ ہورہے ہوں تو اس کے لیے راستہ آسان کرنااور قانون کو اس مقام تک پہونچا نا جہاں فرقہ پرست ذہنوں کو مدد مل سکے ۔ غریب اور دبے کچلے افراد کو مزید ستا یا جاسکے، جہاں آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی سے اختلاف ہو اسے چھوڑا نہ جائے، بلکہ کسی بھی جھوٹے بہانے سے اسے پھنسایا جائے اور ایسے معصوم لوگوں کو بھی الزام لگا کر پولیس کی تحویل سے لیکر جیل کی کوٹھری تک بھیجا جائے اور قانون اپنی لاچارگی کا ثبوت دینے کے باوجود اگر بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ اور اس سے منسلک تنظیموں کے افراد ہیں تو کوئی دھڑ پکڑ نہ کی جائے، اسے قانون کے شکنجہ میں نہ لایا جائے، بلکہ قانون کے رکھوالے اپنی معذرت پیش کریں اور ان لوگوں سے معاملات کریں۔
مئی 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مرکز کی بی جے پی حکومت نے جن کاموں کو بڑھانا شروع کیا ان میں ’گھر واپسی، لو جہاد، گؤ رکشا اور ’بیٹی لاؤ بیٹی بچاؤ‘ جیسے کاموں کو انجام دیا گیا۔ دلتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا، مردہ جانوروں کو ڈھونے کا کاروبار کرنے والوں کی ہی چمڑی اکھاڑی جانے لگی۔ ماروتی وین سے باندھ کر کھلے عام انہیں پیٹا گیا۔ ملک کے مختلف مقامات پر انہیں زدوکوب کیا گیا اور کسی طرح سے ان کی دادرسی نہیں کی گئی اور نہ ہی حکومت یا ناگپور نے اس پر کسی طرح کے قدغن کی گوہار لگائی اس کے برعکس جب اس طبقہ نے گجرات میں پٹائی سے تنگ آکر مردہ جانوروں کو اٹھانے سے انکار کر دیا تو انتظامیہ حرکت میں آئی لیکن انتظامیہ کا متحرک ہونا ان کے دکھوں کا ماداوا نہیں تھا بلکہ دھمکی آمیز رویے پر مبنی تھا، اگر کام پر نہیں لوٹے تو حکومت کی مراعات سے بے دخل کر دیے جاؤ گے۔ مرکز میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی ریاستوں میں جس طرح دلتوں وسماج کے کمزور طبقات پر مظالم کا گراف بڑھا ہے وہ ایک کڑوی سچائی ہے۔ جس کا ثبوت اعداد وشمار کی روشنی میں حکومت کے مختلف شعبوں کے ذریعہ تیار کردہ رپورٹ میں موجود ہے۔ اس تعلق سے ہم نے گزشتہ مضامین میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
تازہ معاملہ نوٹ بندی کا ہے۔ 8 نومبر کو رات 8 بجے اچانک وزیراعظم نریندرمودی ٹی وی پر سامنے آئے اور باشندگان ملک کو یہ ’خوشخبری‘ سنائی کہ آج سے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ بیکار ہو گئے۔ وہ نوٹ جس پر ریزرو بینک کے گورنر کی دستخط ہوتی ہے اور حکومت اس بات کی گارنٹی لیتی ہے کہ متعلقہ شخص کو یہ روپے ادا کر دیے جائیں، کیونکہ اس کی گارنٹی حکومت نے لی ہے۔ اچانک آئے اس فیصلہ نے عام آدمی کو دوسرے دن سے کام کاج پر جانے کے بجائے بینکوں میں لائن لگا کر نوٹ جمع کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس دوران حکومت لگاتار اپنے موقف کو بدلتی رہی اور کسی ایک موقف پر قائم نہیں رہی، جس کے نتیجہ میں عام آدمی اپنی اقتصادیات، شادی بیاہ ودیگر معاملوں کے لیے پریشان رہا، کیونکہ اس کے پاس موجود نقد کرنسی محض کاغذ کا ٹکڑا ہو کر رہ گئی تھی اور نئی کرنسی مانگ کے مطابق سپلائی نہیں ہو رہی تھی، جس کی وجہ سے انتظار اور پریشانیوں کا دائرہ بڑھتا جا رہا تھا۔ نوٹ بندی کا اعلان کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ملک میں نقلی کرنسی بہت بڑی تعداد میں آگئی ہے اسے روکنا ہے، لیکن جب اس پر اپوزیشن اور اقتصادی ماہرین کی جانب سے سوال اٹھنے لگے تو کہا گیا کہ دہشت گردوں کی فنڈنگ کو روکنا ہے، لیکن جب پنجاب میں دہشت گردوں کے پاس سے 2000 روپے کے نئے نوٹ برآمد ہونے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو کہا گیا کہ ریئل اسٹیٹ میں کافی بلیک منی لگی ہے، اس لیے اس کے داموں میں کمی لانا ہے۔ نقدی کی کمی کے سبب ریئل اسٹیٹ کاروبار میں کافی گراوٹ درج کی گئی، جس کے بعد کہا گیا کہ کیش لیس اکنامی بنانا ہے۔ کیش لیس اکنامی کے تصور پر جب ماہرین نے سوالات اٹھائے تو کہا گیا کہ کیش لیس سوسائٹی بنانا ہے اور اب یہ خبر سنائی جارہی ہے کہ ایسا مستقبل میں بہتر اثرات یعنی اچھے دنوں کے لیے کیا جا رہا ہے، اس لیے اس کو برداشت کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس کے بہتر اثرات کس طرح سامنے آئیں گے جبکہ ہر شعبہ میں گراوٹ، کمی اور بے روزگاری درج کی جارہی ہے؟ 28فروری 2017 کو حکومت کے ذریعہ جی ڈی پی کے جو اعداد وشمار جاری کیے گئے ہیں، اس میں اس بات کو مسترد کیا گیا ہے کہ نوٹ بندی سے ملک کی اقتصادیات پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے، جبکہ نوٹ بندی کے وقت ہی 2 فیصد جی ڈی پی میں گراوٹ کی بات اقتصادی ماہرین نے کہی تھی۔ اس رپورٹ پر بھی اقتصادی ماہرین اور اقتصادی اداروں کا ماننا ہے کہ کہیں یہ اعداد وشمار کی بازریگری تو نہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان نے زندگی کے بہت سے شعبوں میں ترقی کی اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت کے سبب آج بھی باشندگان ملک کے دیہی علاقوں کی اکثریت ان ترقیات سے محروم ہے۔ ایسی ہی ایک ترقی بجلی ہے جسے دیہاتوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن آزادی کے 68 سال بعد بھی ملک کے سبھی گاؤں بجلی سے روشن نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کوشش جاری ہے کہ انہیں بھی بجلی سے روشن کیا جائے، لیکن اسی درمیان ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب بجلی بھی ہندو اور مسلمان ہو کر دو خانوں میں تقسیم ہو گئی۔ وزیراعظم نریندرمودی نے یوپی اسمبلی انتخابات کی ریلی میں جس طرح بجلی کو لیکر بیان دیا کہ اگر رمضان پر بجلی ملتی ہے تو دیوالی پر بھی ملنی چاہیے، پر اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اترپردیش کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے کہا کہ گنگا میّا کی قسم کھا کر بتائیں کہ بنارس کو 24 گھنٹے بجلی مل رہی ہے یا نہیں۔ اس پر مودی سمیت پارٹی کے کسی لیڈر نے قسم کھا کر اکھلیش کے بیان کو غلط ثابت نہیں کیا۔ گزشتہ دنوں کانپور کے پاس اندور۔ پٹنہ ایکسپریس ریل حادثہ پر بھی وزیراعظم نریندرمودی نے کہا کہ اس کی سازش کے تار سرحد پار سے جڑے ہوئے ہیں، جو کہ دہشت گردانہ فعل ہے۔ یکم مارچ 2017 کو روز نامہ ’دی ہندو‘ میں اس کی تردید خود ریلوے کے ڈائریکٹر جنرل گوپال گپتا نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ریلوے ٹریک میں آئی خرابی کے سبب یہ حادثہ ہوا تھا اور اس میں کسی طرح کا دھماکہ خیز مادہ شامل نہیں تھا‘۔
کہا جاتا ہے کہ جو عادت پکی ہو جاتی ہے اس کا چھوٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔ گجرات کی 13 سالہ حکومت میں جس نفرت اور شدت کا تجربہ کیا گیا اور جب مرکز میں حکومت بن گئی تو 13 سال کے عرصہ میں ایک طرح کی جو عادت ثانیہ بن گئی تھی، جھوٹ کا سہارا لیکر میڈیا کے ذریعہ عام شہریوں کو دھوکے میں رکھتے ہوئے 36 مہینے کی یہ حکومت اس طرح سے سامنے آرہی ہے جس میں ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ لگارہی ہے۔ کچھ خاص لوگوں کا وکاس تو ضرور ہوا جو ہمیشہ مالی مدد بی جے پی اور آر ایس ایس کی کرتے رہے۔ ’اچھے دن آئیں گے‘ کا نعرہ لگایا گیا اور بھروسہ دلایا گیا کہ 15 لاکھ روپے ان کے اکاؤنٹ میں آئیں گے۔ ان نعروں پر بھروسہ کرتے ہوئے گزشتہ الیکشن میں یوپی کے لوگوں نے بھرپور سپورٹ کیا جسے بعد میں امت شاہ نے جملہ بازی قرار دیا۔ اب اس الیکشن میں وزیراعظم جو ملک کی عظمت اور وقار ہوتا ہے، جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وزیراعظم کی زبان سے جو بات نکلتی ہے اسے نہ صرف وقار کی حیثیت سے دیکھا جائے بلکہ اس میں جھوٹ کا شائبہ بھی نہ ہو گا، مگر 2014 میں جو الیکشن ہوا وہ اس کو ثابت نہیں کر سکا لیکن تب وہ اپوزیشن کے لیڈر تھے۔ یوپی الیکشن میں جو بات کہہ رہے ہیں وہ بحیثیت وزیراعظم کے کہہ رہے ہیں، اور وزیر اعظم ایسا کوئی ذمہ دارانہ بیان دیں کہ جو بات انہوں نے کہی وہ صحیح نہیں ہے، عہدہ کے وقار اور اس کے منصب کے خلاف ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یوپی کے عوام بالعموم اور رائے دہندگان بالخصوص اس سچ اور جھوٹ کے فرق کو جاننے کے بعد، ریلیوں میں جملہ بازی کو پیش کرنے، پونے تین سال کے تجربے کے بعد، کسان خودکشی کر رہے ہیں اور انہیں کوئی راحت بھی نہیں مل رہی ہے، تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں اس کشمکش میں ہیں کہ کیا سب پر ایک ہی آئیڈیالوجی کو تھوپا جائے۔ معاملہ چاہے حیدرآباد کا ہو، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا ہو، جودھپور کالج کا ہو اور فی الوقت معاملہ دہلی یونیورسٹی کے رام جس کالج کا ہو۔ کیا طلبہ کو آزاد فکر، آزاد سوچ اور آزادی سے عمل کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کیا دستور کی روشنی میں اس کی گنجائش ہے۔ کیا دستور سے آزادی رائے کا حق ہٹا دیا گیا ہے۔ کیا برابری کا حق دینا بند کر دیا جائے، کیا انصاف کے سارے راستوں کو مسدود کر دیا جائے، کیا کسی ایک رائے کو زندگی میں شامل کر لیا جائے، مشترکہ کلچر کی جگہ ایک کلچر جو ایک مخصوص گروہ کا ہے اور آر ایس ایس چاہتا ہے کہ اسے قبول کر لیا جائے، کیا بھائی چارگی کو مکمل ختم کر دیا جائے، کیا ایک دوسرے پر بھروسہ ہٹا دیا جائے، کیا ایک دوسرے کی مدد خاص طور سے غریبوں، کمزوروں خواہ کسی ذات، عقیدے یا دھرم کے ماننے والے ہوں، اس میں دیوار کھڑی کر دی جائے، کیا ’ہم عوام‘ جنہوں نے دستور کو قبول کیا اور 68 سال سے حکومت قائم ہے اس کی جگہ منواسمرتی کو قبول کر لیا جائے، کیا انسانیت کی جگہ نفرت اور تعصب کے طور طریقے کو قبول کر لیا جائے۔ ان سوالوں کا جواب 36 مہینے کے تجربہ میں کیا لکھنے کی ضرورت ہے، یا یہ سورج کی روشنی کی طرح سب کے سامنے عیاں ہے۔ اس لیے رائے دہندگان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ووٹ کی قیمت کو سمجھیں، بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں اور ووٹ صرف اسی کو دیں جو دستور کی حفاظت بھی کر سکے، خود اس پر عمل کرے اور اس کے ذریعہ سماجی تفریق کو مٹا سکے، انصاف کو قائم کر سکے اور ملک کو آگے بڑھا سکے، تاکہ دستور کا وقار اور اس کی عظمت قائم ودائم رہے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home