بی جے پی کا ساڑھے تین سالہ دور اقتدار اور گجرات اسمبلی انتخابات
ڈاکٹر منظور عالم
بی جے پی کو اقتدار میں آئے ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں،2014 کے عام انتخابات میں تاریخ ساز جیت درج کرنے کے بعد متعدد ریاستوں میں بھی بی جے پی نے کامیابی کے علم لہرائے ہیں اور اب مسلسل چھٹی مرتبہ گجرات میں جیت کا پرچم لہرانے کی کوششیں جاری ہیں ،لیکن دوسری طرف بی جے پی کامرکز میں یہ ساڑھے تین سالہ دور اقتدار بھی دیکھنے کی ضرورت ہے ،حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا وقت کا اہم تقاضا ہے کہ کیا مودی حکومت جن وعدوں کے ساتھ 2014 کے عام انتخابات میں جیت حاصل کرکے مرکز میں حکومت بنائی تھی اس کی تکمیل اس نے کردی ہے؟ ،متعدد ریاستوں میں جیت حاصل کرنے کے بعد وہاں کی عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جارہاہے؟ یا پھر ہر انتخاب میں صرف جملہ بازی سے کام لیاجارہاہے ،وعدوں کے قطار لگائے جارہے ہیں ،زمینی سطح پر کام کرنے کے بجائے سنہرے خواب دکھلائے جارہے ہیں اور یہی سب کچھ گجرات کی عوام کے ساتھ بھی ہونے والاہے ۔
2014 کے عام انتخابات کے پیش نظر بی جے پی نے عوام سے دسیوں وعدے کئے تھے ،خوش کن خواب دکھلائے تھے لیکن اب تک کسی ایک کی بھی تکمیل نہیں ہوسکی ہے ،آئیے ذرا ایک نظر ڈالتے ہیں بی جے پی کے منی فیسٹو اور اہم انتخابی وعدوں پر۔ بی جے پی کے منی فیسٹو میں سب سے اہم بات بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے نتاظر میں یہ تھی کہ حکومت بنتے ہی رام مند رکی تعمیر شروع کردی جائے گی لیکن حکومت بن جانے کے بعد مودی سرکارسیکولر پارٹیوں کی طرح یہ کہنے لگی کہ عدالتی فیصلہ کے بعدہی کچھ ہوگا ،بابری مسجد ۔رام جنم بھومی تنازع کا حل عدالت کرے گی بی جے پی حکومت نہیں ،منی فیسٹو میں ایک اور اہم بات کشمیر میں نافذ دفعہ 370 کے خاتمہ کے سلسلے میں تھی ،اتفاق سے مرکز کے ساتھ کشمیر میں بھی سرکار بی جے پی کے اشتراک سے بنی ہوئی ہے لیکن بی جے پی سرکار دفعہ 370 کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ہے ،در اصل یہ دواہم وعدے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیداکرنے اور ہندﺅوں کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے کئے گئے تھے،مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے کتنے ہندوبھائیوں نے بی جے پی کو ان انتخابی وعدوں کی بنیاد پر سپورٹ کیا تھا لیکن آج یہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہوگئی ہے کہ بی جے پی نے دھرم اور مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کرکے ہندﺅوں کی ایک بڑی تعداد کو دھوکہ دینے اور فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ، اور ایسے چیزوں کو بھی منی فیسٹومیں شامل کردیا جس کا تعلق دستور سے ہے ،مذکور ہ بالاامور دستور کا حصہ ہیں کوئی بھی حکومت دستوراور آئین کی خلاف وزری کرتے ہوئے عدالت سے فیصلہ آئے بغیر رام مندر نہیں بناسکتی ہے اور نہ ہی کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ ممکن ہے لیکن بی جے پی نے ووٹ حاصل کرنے کیلئے اپنے بھکتوں سے دستور مخالف اقدام کا بھی اعلان کردیا ، انہین خوش کن کرنے کیلئے وہ وعدے بھی کرڈالے جس کا اختیار نہیں ہے ۔دوسرے لفظوں میں یو ں بھی کہ سکتے ہیں کہ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی اپنے بھکتوں کے بھی نہیں ہوسکے ہیں ،اقتدار پانے کی ہوس اور وزیر اعظم کی کر سی پر جلوہ افروز ہونے کیلئے انہوں نے اپنے حامیوں اور بھگتوں کو بھی فرقہ وارانہ لکیر پر اس طرح کا خواب دکھلایا ،آئین کے خلاف جانے کا وعدہ کیا اور حکومت بن جانے کے بعد دستور کا حوالہ دینا شروع کردیا ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی اکثر انتخابی ریلی میں غریبی ختم کرنے ،کالادھن واپس لانے اور کرپشن پر لگام لگانے کی بات کی تھی لیکن ساڑھے تین سال کے عرصہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے ،گذشتہ سال نومبر میں نوٹ بندی جیسا اقدام کیا گیا لیکن پھر بھی کالادھن واپس نہیں آسکا ہے بلکہ سفید ہوکر بینک میں جمع ہوگیا ہے ،غربت کی شرح میں دن بدن اضافہ ہورہاہے ،ملک کی مجموعی پیدوارا جی ڈی پی میں دو فیصد کی گرواٹ آگئی ہے ،جی ایس ٹی نافذکرکے میڈل کلاس طبقہ پر ایک او ر پریشانی کا بوجھ ڈال دیاگیاہے ،انتخابی ریلی میں بہت زور شور کے ساتھ کہاگیاتھاکہ بی جے پی سرکار بننے کے بعد ہر ایک ہندوستانی کے اکاﺅنٹ میں پندرہ لاکھ روپے آجائیں گے ،سرکار بننے کے بعد جن دھن یوجنا کی شروعا ت کی گئی ،سات کڑور لوگوں نے اس امید میں اس اسکیم کے تحت اپنے اکاﺅنٹ کھلوالئے کہ پندرہ لاکھ روپے اسی اکاﺅنٹ میں آئیں گے لیکن ساڑھے تین سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجو د ایک پیسہ تک ان غریبوں ، مفلسوں کے اکاﺅنٹ میں نہیں آسکاہے بلکہ بینک کی پالیسی یہ بنادی گئی ہے کہ اگر اکاﺅنٹ میں زیر و بیلینس رہیں گے تو اضافی چار ج دینا ہوگا ۔ بی جے پی حکومت نے روزگاربڑھانے ،معیشت کو مضبوط کرنے اور نوجوانوں کے درمیان پائی جانے والی مایوسی کو ختم کرنے کا بھی وعدہ کیاتھالیکن رپوٹ یہ بتاتی ہے کہ بی جے پی سرکار آنے کے بعد روزگار کے مواقع میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگئی ہے ،وزیر اعظم نریند رمودی نے کئی طرح کی اسکمیں شروع کی ،عوام سے مختلف طرح کے وعدے کئے لیکن نتیجہ سبھی کا صفرکے قریب رہاہے۔ جن ریاستوںمیں بی جے پی کی سرکار بنی ہے وہاں بھی ترقیاتی کام تھپ پڑے ہوئے ہیں،فلاح وبہبود کی اسکمیں منظرنامے سے غائب ہیں ،عوامی مفاد میں کوئی اقدام نظر نہیں آرہاہے ،دوسری جانب لاءاینڈ آڈر کا مسئلہ بد تر ہوچکاہے ،نظم ونسق میں بے پناہ بگاڑ پیداہوچکاہے ،غنڈہ گردی اور دہشت گردی شروع ہوچکی ہے ۔ مہنگائی آسمان چھورہی ہے ،غریبوں اور میڈیکل کلاس طبقہ کیلئے راحت بھر ایک بھی اسکیم نہیں آسکی ہے ،حکومت کا ہر اقدام غریب مخالف بنتا جارہاہے ۔ یہ ہندوستان کی تصویر ہے ،مودی حکومت کے ساڑھے تین سالہ کارکردگی کی رپوٹ ہے ،داخلہ پالیسی کے ساتھ خارجہ پالیسی میں بھی مودی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوچکی ہے ،ساڑھے تین سالوں میں سرحد پر جتنے جوان شہید ہوئے ہیں اتنا یوپی اے اے کی دس سالہ مدت میں بھی نہیں ہوئے تھے ،یہ تمام واقعات بتارہے ہیں کہ موجودہ سرکار نا اہل ہوچکی ہے ،مرکز اور اسٹیٹ کی ذمہ داریاں سنبھالنے اور عوام پر حکومت کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی ایجنڈہ اور پالیسی نہیں ہے ،اگر ایسی پارٹیوں کا اقتدار برقرار رہااور ایسے لوگوں کو سپورٹ ملتارہاتو ہندوستان کا مستقبل مزید تباہ وبرباد ہوگا اور آنے والے دنوں میں ہم ہندوستانیوں کو شدید خسارے کا سامناکرناپڑے گا ۔ گجرات اسمبلی انتخابات ہمارے سامنے ہیں، تاریخ کا اعلان ہوچکاہے ،9 اور 14 دسمبر 2017 کو دومرحلوں میںووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ 18 دسمبر کو نتیجہ منظر عام پر آئے گا ۔مرکز اور دیگر ریاستوں میں ہم بی جے پی سرکار کارویہ دیکھ چکے ہیں،کارکردگی ہمارے سامنے ہے ،ایسے موقع پر بھی حکمراں جماعت الیکشن جیتنے کیلئے صرف الفاظ کا سہارا لے رہی ہے،انتخابی ریلیوں میں جنا ب وزیر اعظم نریندر مودی صاحب اور اور بی جے پی کے قومی صدر جناب امت شاہ و دیگر لیڈران وعدوں کی جھڑی لگائے ہوئے ہیں، 2014 کی طرح ایک مرتبہ پھر وہ جملوں کے بازیگر ہونے کا ثبوت پیش کررہے ہیں،ساڑھے تین سالوں میں جن وعدوں کو وہ پورا نہیں کرسکے ہیں گجرات کی عوام سے ایک مرتبہ پھر وہ ایسا ہی کچھ وعدہ کررہے ہیں ،خواب دکھارہے ہیں،گجرات کو پیرس اور لند ن بنانے کی بات کررہے ہیں ، آئندہ کرناٹک میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں جہاں بھی وہ اسی خطوط پر الیکشن جیتنے کی کوشش کریں گے ، اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ عوام بیداری کا ثبوت پیش کرے ،نوجوان سیاسی پارٹیوں کی شناخت کرے ، یہ پہچانے کے کون ان کے حق میں بہتر ہے اور کون مضر ہے اور اس کی ابتداءگجرات کی عوام کو کرنی ہوگی،وہاں کی عوام پر بہت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہیں کیا کرناہے ،ان کا فیصلہ کن کے حق میں ہوگا اور کن لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار سونپیں گے ۔ کیوں کہ ان کے سامنے تمام تر ثبوت ہیں،شواہد ہیں،سورج کی روشنی کی طرح تمام سچائی سامنے ہے ۔ بی جے پی کا رویہ ہم دیکھ چکے ہیں،ساڑھے تین سالوں میں یہ سرکار کچھ بھی نہیں کرسکی ہے ،اس لئے اس سے آگے بھی مزید کچھ کرنے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی وعدے پر اب اعتبار کیا جاسکتاہے ،مودی اینڈ کمپنی کے طرزعمل سے یہ ثابت ہواہے کہ یہ سرکار جملہ باز ہے ،صرف وعدہ کرتی ہے ،زمینی سطح پر کام کرنے میں صفر ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کے لیڈران بھی صرف جملوں کے سہارے الیکشن جیتنے کا عزم کئے ہوئے ہیں،خوبصورت تقریر اور فرضی وعدوں کے سہارے عوام کو لبھارہے ہیں ۔ خلاصہ کلام یہ کہ 2014 اور 2017کے درمیان تین سال کا عرصہ حائل ہے ،وعدے حقائق میں تبدیل نہیں ہوسکے ہیں، عوام میں بے چینی اور افراتفری ہے ،ہر طرف پریشانی کا عالم ہے ،فلاح وبہبود کا نام ونشان نہیں ہے ، مہنگائی بڑھتی جارہی ہے ،عوام کو کسی طرح کی راحت نہیں مل رہی ہے ،ان تمام روشن حقائق کے ہوتے ہوئے بھی گجرات میں اگر اس مرتبہ بھی بی جے پی کی جیت ہوجاتی ہے، بھکتوں کا اعتما د برقرار رہتاہے ،اب بھی انہیں اس سرکار سے کسی ترقی کی امید ہے تو اس کا مطلب یہی سمجھاجائے گا کہ یہ لوگ کسی اور دنیا میں رہتے ہیں،بھکتی کی انتہاءان میں پائی جاتی ہے ،حقائق تسلیم کرنے کی صلاحیت ان سے سلب ہوچکی ہے،ان کی دلچسپی ریاست کی ترقی اور فلاح وبہبود میں نہیں بلکہ ان طاقتوں کو سپورٹ کرنے میں ہے جن کے پاس کوئی مستحکم پالیسی نہیں ہے جو صرف فرقہ وارانہ خطوط پر عوام کو تقسیم کرتے ہیں اور جذباتی باتیں کرناجانتے ہیں۔بہر حال گجرات اسمبلی انتخابات بہت اہم ہیں ۔ بھکتو ں کی بھی بہت بڑی آزمائش ہے کہ اب بھی وہ کسی ایسی پارٹی کو سپورٹ کریں گے جس نے ساڑھے تین سال کے عرصے میں ان کیلئے کچھ نہیں کیا ہے ،دیگر عوام کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ صحیح قیادت کا انتخاب کرے ،فرضی خواب دکھانے والوں کو دندان شکن جواب دے اور اپنے ووٹ کی طاقت سے یہ پیغام دے کہ جھوٹے وعدے کرنے اور جملوں کی بنیاد پر ووٹ مانگنے والوں کیلئے گجرات کی سرزمین پر کوئی جگہ نہیں ہے ،باربار عوام دھوکہ نہیں کھاسکتی ہے ، ہندوستان کے تابناک مستقبل کی راہ میں ایسے لیڈران رکاوٹ ہیں ، ان کی پارٹیوں کی وجہ سے ہندوستان کی رفتار مزید سست ہوجائے گی ۔ یہ بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ اگر اس مرتبہ بھی گجرات میں بی جے پی کی سرکار بن گئی تو مزید کئی سالوں تک عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرناپڑے گا، انہیں مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا ،ہندوستان خسارے کا شکار ہوگا اور اس کی ذمہ داری ووٹروں پراور اندھ بھکتوںپر عائد ہوگی کسی اور پر نہیں ۔ (کالم نگار معروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں ) |