انسانی عظمت کیلئے علم ناگزیر

تمام بنی نوع آدم کو اللہ تعالی نے حضرت آدم او رحضرت حوا سے پیدا کیاہے ۔روئے زمین پر آباد سبھی انسان حضرت آدم ہی کی اولاد ہیں۔ کسی کو کسی پر کسی طرح کی کوئی بھی نسلی ، علاقائی ، جغرافیائی برتری اور فوقیت حاصل نہیں ہیں ۔ سبھی انسان لائق احترام اور قابل اکرام ہیں ۔ آپس میں ایک دوسرے پر فوقیت اور ترجیح کی وجہ محض علم ہے ۔ علم عظمت انسانی کا سبب ہے ۔ علم وتحقیق کی وجہ سے ہی انسان کی تعظیم میں اضافہ ہوتاہے ۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایاہے

” اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی“( سورہ اسراء، آیت نمبر 70) آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے واضح طور پر کہاہے کہ” ولقد کرمنا بنی آدم“ اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی۔ یعنی انسان کوعقل ، علم، قوت ِ گویائی، پاکیزہ صورت، معتدل قد و قامت عطا کئے گئے ، جانوروں سے لے کر جہازوں تک کی سواریاں عطا فرمائیں ، نیز اللہ تبارک وتعا َّ نے انہیں دنیا و آخرت سنوارنے کی تدبیریں سکھائیں اور تمام چیزوں پر غلبہ عطا فرمایا، قوت ِ تسخیر بخشی کہ آج انسان زمین اور اس سے نیچے یونہی ہواوں بلکہ چاند تک کو تسخیر کرچکا ہے اور مریخ تک کی معلومات حاصل کرچکا ہے، بَحر و بَر میں انسان نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں ۔ یہ چند ایک مثالیں ہیں ورنہ اس کے علاوہ لاکھوں چیزیں اولادِ آدم کو عطا فرما کر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اسے عزت دی ہے اور انسان کو بقیہ تمام مخلوقات سے افضل بنایا ہے۔

”ورزقناہم من الطیبات “اور انہیں رزق دیا۔ یعنی لطیف اور خوش ذائقہ غذائیں دیں جو گوشت اور نباتات دونوں پر مشتمل ہوتی ہیں اور جنہیں لوگ خوب اچھی طرح پکا کر کھاتے ہیں۔پکی ہوئی غذا کھانا بھی انسان کا خاصہ ہے کیونکہ انسان کے سوا حیوانات میںپکی ہوئی غذا اور کسی کی خوراک نہیں۔

”وفضلنا ہم علی کثیر“ اور انہیں فضیلت دی۔ آیت میں فرمایا گیا کہ ہم نے اولادِ آدم کو اپنی کثیر مخلوق پر فضیلت دی۔ امام حسن بصری رحمہ کا قول ہے کہ اکثر کا لفظ کل کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ، لہذا ان یات میں اکثر کل ہی کے معنی میں ہے۔ملائکہ بھی اِس آیت کے عموم میں داخل ہیں اور انسانوں کے خاص افراد یعنی انبیا کرام فرشتوں کے خاص افرادسے افضل ہیں اورنیک انسان عام فرشتوں سے افضل ہیں۔

تکریم انسانیت کے بعد تعظیم انسانیت کا نمبر آتاہے اور اس کا سبب محض علم ہے ۔ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد انہیں تمام اشیاءکا علم سکھایا اور اسی علم کی بنیاد پر انہیں فرشتوں پر فضیلت عطا کی ، علم کی بنیاد پر ہی انہیں زمین پر اللہ تعالی نے اپنا خلیفہ مقرر کیا ۔حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق اور زمین پر انہیں خلیفہ بنائے جانے کا فیصلہ ہوا تو فرشتوں نے اعتراض کیا ، چناں چہ اللہ تعالی نے ان سے اشیاءکا نام پوچھا

جسے وہ نہیں بتا پائے ،حضرت آدم علیہ السلام نے بتادیا اور یہی علم ان کی برتری اور فضیلت کا سبب ثابت ہوا ۔

علم کو ہمیشہ اور ہر مذہب نے ضروری اور لازم قرار دیا ۔انسانی عظمت کو فروغ دینے ، انسان کا وقار بڑھانے اور شرف عطا ءکرنے کیلئے ہمیشہ علم حاصل کرنے پر زور دیاگیا ۔ قرآن کریم کی پہلی آیت میں بھی حصول علم کی تلقین کی گئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کریم کا نزول ہوا تو آغاز اقراءسے ہوا ۔ یعنی پڑھیے ، علم حاصل کیجئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم کو سب سے زیادہ فوقیت دی اور صحابہ کرام کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی ہمیشہ جدوجہد اور کوششیں کی ۔ غزوہ بدرکے جنگی قیدیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیمی خدمات لی اور ان سے درخواست کی وہ صحابہ کرام کو تعلیم دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصول علم کو ہر مسلمان کیلئے لازم اور ضرروی قراردیا ۔ ارشاد فرمایا ۔ طلب العلم فریضہ علی کل مسلم ۔ علم حاصل کرنا ہر ایک مسلمان مردو وعورت پر فرض ہے ۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علم جہاں سے بھی ممکن ہو حاصل کرو ۔ اسی پر یہ مشہور حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کے بارے میں کچھ محدثین کی رائے ہے کہ یہ ضعیف حدیث ہے ۔ ”علم حاصل کرو خواہ چین تک کا سفر ہی کیوں نہ کرناپڑے“

قرآن کریم ، احادیث رسول ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ، صحابہ کرام کی زندگی اور تمام مہذب قوموں کی تاریخ واضح طور پر یہ بتاتی ہے کہ ایک انسان کی کامیابی ، ترقی اور عظمت کیلئے علم ضرروی ہے ۔ علم کے بغیر عظمت کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتاہے ۔ یہی ہماری کامیابی کی ضمانت ہے ۔ تاریخ کے اوراق بھی اس پر شاہد ہیں

زمانہ کی فطرت میں تبدیلی ہے ۔ زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ مختلف ادوار اور اوقات کی ضروریات اور ترجیحات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔ زندگی کے ہر نظام میں بدلتے وقت کے ساتھ تبدیلی ہورہی ہے ، پہلے سفر کا طریقہ کچھ اور تھا آج کچھ اور ہے ۔ میڈیکل کا نظا م پہلے کچھ اور تھا آج کچھ اور ہے ۔ تدریس کا طریقہ پہلے کچھ اور تھا آج کچھ اور ہے ۔ پہلے کی ضروریات کچھ اور تھی آج کی ضروریات کچھ اور ہے ،اسی کو تبدیلی اورچینجنگ کہاجاتاہے اور جب حالات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔ زمانہ میں تغیر وتبدل ہوتاہے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ ایشوز سامنے آجاتے ہیں ، نئے نئے حالات کا سامنا کرنے میں دقتوں کا سامنا کرناپڑتاہے ۔ جن حالات واقعات کا پہلے کبھی وقوع نہیں ہواہوتاہے اس کا سامنا کرنے کے بعد اس کی انجام دہی مشکل ہوجاتی ہے اور مسائل کا یہ حل علم وتحقیق کے ذریعہ نکلتاہے۔ علم وتحقیق ہی کے ذریعہ رہنمائی ملتی ہے ۔ مسائل اور پروبلم حل ہوتے ہیں ۔ مشہور واقعہ ہے کہ قابیل نے ہابیل کا قتل کردیا،اس کے بعد قابیل پریشان ہوگیا کہ لاش کا کیا کریں، کیوں کہ روئے زمین پر یہ پہلاقتل تھا۔ کسی انسان کی پہلی موت تھی ،لاش کی تدفین کا کوئی تصور ہی ذہن میں نہیں تھا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی حکم آیا ہواتھا ، چناں چہ قابیل نے دیکھا کہ دو کوے آپس میں لڑرہے ہیں ، پھر اس میں سے ایک نے دوسرے کو ماردیا اور اس کے بعد اپنی چونچ سے کھدا کھود کر مردہ کو ے کو دفن کردیا ۔کوے کے اس عمل کو دیکھ کر قابیل کا شعور بیدا ہوا اور انہوں نے ہابیل کی لاش زمین میں دفن کی ۔

خلاصہ یہ کہ مسائل اور علم میں گہرا رشتہ ہے ۔ تبدیلی اور اختلاف کے بعد مسائل پیدا ہوتے ہیں اور ان مسائل کا حل علم کے ذریعہ نکلتاہے ۔ مسائل اور علم کا امتزاج نہایت اہم ہے ، یہی ترقی کاسبب بنتاہے ۔ جن قوموں کو مسائل سے دوچار ہوناپڑا ہے اور پھر انہوں نے محنت اور جدوجہد کرکے اس کا حل تلاش کیا ہے کامیابی انہیں کو ملی ہے ۔ سائنس اور دیگر عصری علوم میں یورپ کی موجود ہ ترقی کا سبب بھی ان کے یہاں مسائل کی بہتات اور کثرت ہے اور مسائل کے حل کیلئے انہوں نے علم کی جانب توجہ کی ۔مسائل اور علم کی وجہ سے معاشرہ میں اعتدال پیدا ہوتاہے ۔ سما ج میں توازن آتاہے ۔ بیلنس برقرار رہتا ہے ۔ قوموں کی ترقی کے راہ ہموار ہوتے ہیں ۔اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ علم کی یہ اہمیت اور ضرورت جس قدر ماضی میں تھی آج بھی اسی طرح ہے ۔ آج بھی ہر قوم کی ترقی اور کامیابی حصول علم میں مضمر ہے ۔ قوم کی سو فیصد ترقی اور کامیابی کیلئے سو فیصد تعلیم ضروری ہے۔علم وتحقیق قوموں کے درمیان جتنا زیادہ پائے جائے گاترقی میں اس کا حصہ اتنا ہی زیادہ ہوگا ۔ علم وتحقیق کے ہی ذریعہ کامیابی ، کامرانی اور تمام شعبوں میں فراوانی کے درواز ے کھلتے ہیں ۔ جن قوموں نے علم وتحقیق پر توجہ دی ، اس میدان کو اپنایا انہیں ترقی ملی ۔ اس لئے یہ کہنابجا اور درست ہے کہ سیاسی ، سماجی اور معاشی ترقی کیلئے علم وتحقیق ضروری ہے ۔ ٹیکنالوجی پر گرفت ہونا لازم ہے ۔جدید علوم میں مہارت کے بغیر ترقی کا خواب شرمند ہ تعبیر نہیں ہوسکتاہے اور علم وتحقیق کا فروغ حاملین قرآن وحدیث کی ذمہ داری ہے ۔ قرآن وحدیث کا علم رکھنے والوں پر لازم ہے کہ وہ علم وتحقیق کا دائرہ وسیع کریں ، عوام کو اس جانب مائل کریں ۔ اس کے عظیم فوائد اور دور رس اثرات سے آگاہ کرکے قوم کی ذہن سازی کریں ۔ بچوں کی تربیت کرکے انہیں علم وتحقیق اپنا نے پر زور دیں اور یہ کوشش کریں کہ سماج اور معاشرہ میں زیادہ سے زیادہ علم وتحقیق پروان چڑھے ۔ ٹیکنالوجی کی معلومات بڑھے ،جدید علوم کی جانب رغبت بڑھے ۔

(کالم نگار تھنک ٹینک ادارہ آئی او ایس کے چیرمین اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home