میڈیااور جمہوریت
ڈاکٹر محمد منظور عالم
میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہاجاتاہے۔جمہوریت کی بقا، عوامی مسائل کے حل۔ مظلوموں،غریبوں اور کمزوروں کی مدد میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہوتاہے۔میڈیا کا مطلب ہوتاہے عوام تک حقائق پہونچانا۔ صحیح معلومات فراہم کرنا اور سچائی پر مبنی خبروں کو نشر کرنا۔تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ صحافیوں نے ہمیشہ اس پیشہ میں ایمانداری سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔میڈیا کو غیر جانبدار رکھاہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایمر جنسی کے زمانے میں بھی میڈیا نے اپنے کردار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ صحافیوں کو دباﺅ اور خوف کا اندیشہ تھا لیکن انہوںنے ایمانداری کا ثبوت پیش کیا۔حکومت کے سامنے جھکنے،کسی طرح کا دباﺅ قبول کرنے اور خوف ودہشت میں مبتلا ہونے کے بجائے میڈیا نے غیر جانبداری سے کام لیا۔عوام تک حقائق پہونچایا،کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن آج معاملہ بالکل بدل گیاہے۔ آج پریس کو مکمل آزادی ہے۔ خبروں کی ترسیل کے دسیوں ذرائع ہیں۔پہلے صرف پرنٹ میڈیا تھا روزنامہ اورہفت روزہ اخبارات کے ذریعہ خبروں کی نشرواشاعت ہوتی تھی۔ہرجگہ اس کا پہونچنا بھی مشکل ہوتاتھا لیکن اب سیٹلائٹ کا زمانہ ہے۔ملک میں لاکھوں کی تعداد میں اخبارات کی اشاعت کے علاوہ ایک ہزار سے زائد ٹی وی چینلز ہیں۔ ویب پورٹلز کی بھرمار ہے۔سوشل میڈیا کے بعد اب ہرکوئی اس پیشہ سے وابستہ ہوگیاہے۔ ٹی وی کی محتاجگی بھی ختم ہوگئی ہے۔ میڈیا ہاﺅسز پر بظاہر کوئی پابندی بھی نہیں ہے لیکن ان سب کے باوجود ملک کے ٹی وی چینلوں اور بعض اخبارات کے ذریعہ جس طرح خبروں کو پیش کیا جارہاہے۔جس انداز سے میڈیا اہلکار کام کررہے ہیں اس نے اس پیشہ پر ہی سوال کھڑا کردیاہے۔میڈیا کی اہمیت مشکوک کردی ہے۔جمہوریت کے چوتھے ستون کے تئیں عوام میں شک وشبہ پیدا ہوگیا ہے اور ایسالگ رہاہے کہ میڈیا اب کسی کے ہاتھ کھلونا بن گیاہے ۔ کچھ لوگ اقتدار کے حصول ،منصب کی رسائی اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اس کا استعمال کررہے ہیں اور میڈیا باآسانی اس مہم کی شکار ہے یایوں کہیے کہ میڈیا نے اب اپنا مقصد ہے جھوٹ کی تشہیر ،غلط پیرو پیگنڈہ کرنا ،سچ کے بجائے جھوٹی خبروں کو نشر کرنا بنالیاہے ۔ واضح طور پر یہ فرق محسوس کیاجاسکتاہے کہ 1975 میں اعلانیہ ایمرجنسی تھی ،صحافیوں کو ایک طرح سے خوف تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے پیشہ سے سمجھوتہ نہیں کیا لیکن آج جس طرح میڈیا ہاﺅسز کررہے ہیں اس کی حقیقت سمجھ سے بالاتر ہے ؟یا تو حکومت نے غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ کرکے صحافیوں کو اپنے نرغے میں پھنسارکھا ہے ۔سچ بولنے اور حقائق عوام تک پہونچانے میں انہیں شدید خطر ہ لاحق ہے۔ مختلف انداز میں انہیں ڈرایا دھمکایاجاچکاہے یاپھر دوسری صورت یہ ہے کہ دولت وثر وت کے لالچ میں میڈیا نے اپنا ضمیر بیچ کر اپنے اصولوں سے سمجھوتہ کرلیاہے ۔
کسی بھی ملک کو سنوارنے یا اس کو بنانے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔اسے اس طرح بھی کہ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی پر میڈیا کے ذریعہ بہت سے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اسمارٹ موبائل فون کی کثرت کے بعد اب میڈیا تقریبا ہر شخص کی زندگی حصہ بن گیاہے۔بچہ،بوڑھا،عور ت مرد،تعلیم یافتہ ناخواندہ تقریبا ہر ایک شخص کی زندگی کا میڈیا اب جز و لاینفک بن گیاہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز جب تک تھے اس وقت تک میڈیا تک ہر ایک عام آدمی کی رسائی نہیں تھی لیکن سوشل میڈیا اور انڈرائڈ فون کے بعد اب ہر ایک شخص میڈیا سے وابستہ ہوگیا ہے اورہر ایک کی زندگی پر میڈیا اثر انداز ہورہاہے۔ اس لئے میڈیا کی طاقت اب بہت بڑھ گئی ہے۔اس کی اہمیت دوبالاہوگئی ہے۔میڈیا کے ذریعے ہم کسی بھی ملک کے معاشی حالات کو یکسر تبدیل کر سکتے ہیں اور اس کے صحیح استعمال سے ہم معاشرے میں بہتری لا سکتے ہیں۔دوسری طرف یہ بھی سچائی ہے کہ میڈیاکی طاقت کا غلط استعمال کرکے ہم کسی بھی ملک کے حالات اور معاشی نظام کو درہم برہم کرسکتے ہیں۔ اس کے نظام کو تہس نہس کرسکتے ہیں۔ملک کے عوام پر ایک ظالم اور ناکارہ حکومت کو مسلط کرکے ملک کے بڑھتے قدم کو نہ صروف روک سکتے ہیں بلکہ اسے دسیوں سال پیچھے ڈھکیل سکتے ہیں۔ میڈیا کی یہ طاقت اور اہمیت ملک کو بنابھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔رائے عامہ ہموار کرنے اور عوام کے درمیان نظریہ قائم کرنا کردار بھی میڈیا ادا کررہی ہے۔ایسے میں میڈیا کی ذمہ داری ہے ملک کی صحیح رہنمائی کرنا۔ خبروں کو صحیح انداز میں پیش کرنا۔عوام تک حقائق پہونچانا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ملک میں اس کے برعکس ہورہاہے۔ جھوٹ کی بنیاد پر خبریں نشر کی جارہی ہے۔حقائق چھپا ئے جارہے ہیں۔ فرضی خبروں کے ذریعہ عوام کے ذہن کو پراگندہ کیاجارہاہے۔ ٹی آر پی کے حصول اور پیسوں کی لالچ میں میڈیا ہا?سز جانبدارانہ رپوٹنگ کررہے ہیں۔ہندوستان میں صحافت کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب ملک کا ہر سنجیدہ شہری میڈیا کے رویہ پر نالاں اور افسوس کناں ہے۔اسے ملک کے تئیں خطرے کی علامت کے طور پر دیکھاجارہاہے اور ایسالگ رہاہے کہ میڈیا ملک کوسنوارنے کے بجائے اسے بگاڑنے پر آمادہ ہے۔ آج کی میڈیا حقائق بتانے کے بجائے جذبات سے کھیلنے لگی ہے۔ایک جھوٹ کو اتنی مرتبہ بیباکی اور خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاجاتاہے کہ عوام کے ذہن میں وہی سچ بن کر رچ بس جاتاہے۔ ٹی وی چینلز کے اینکروں کو دیکھ کر لگتاہے کہ وہ حالت جنگ میں ہیں۔ اپنے الفاظ، انداز اور باڈی لینگویج سے کسی دوسرے پر حملہ آور ہیں۔ وہ حکومت سے سوال کرنے کے بجائے اپوزیشن پارٹیوں کے ترجمان سے سوال کرتے ہیں۔ سرکار کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے بجائے اپوزیشن پارٹیوں کے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں۔بر سر اقتدار پارٹیوں سے احتساب کرنے کے بجائے گذشتہ حکومتوں سے حساب مانگتے ہیں۔ صحافیوں کے رویے اور انداز کو دیکھ کر لگتاہے کہ ٹی وی چینلز میں صحافتی اقدار کا خاتمہ ہوگیاہے۔میڈیا کا عمل اب پی آر میں تبدیل ہوگیاہے۔ اب صحافت نہیں ہورہی ہے بلکہ اس نام پر پبلک ریلیشن بنانے کا کام کیاجارہاہے۔ میڈیاعوام تک حقائق پہونچانے اور سچائی بتانے کے بجائے پی آر ایجنسی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ملک شدید بحران سے دوچارہ ہے۔ معاشی حالت زوال پذیر ہے۔ جی ڈی پی کی شرح میں کمی آتی جارہی ہے۔ روپیہ کی قیمت گھٹ رہی ہے۔ تشدد اور دہشت گردی ملک میں نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ یہی اب اس کی شناخت بن گئی ہے۔اقلیتوں کیلئے غیر محفوظ ملک بن گیاہے۔ غربت کی شرح بڑھ گئی ہے۔ خواتین کے ساتھ ریپ اور کرائم میں نمبر ون ملک بن گیاہے۔خوشحال ممالک کی فہرست میں 140 ویں نمبر پر پہونچ گیاہے۔ کسانوں،دلتوں،آدی واسیوں اور اقلیتوں کو ہر محاذ پر پریشانیوں کا سامناہے لیکن میڈیا میں ان سب موضوعات کا کوئی چرچا نہیں ہے۔ شدت پسند اور اشتعال انگیز لیڈروں کی طرح میڈیا میں بھی اشتعال انگیز خبریں نشرکی جارہی ہے۔عوام کے جذبات بھڑکانے کے علاوہ کسی بھی سنجیدہ موضوع پر میڈیا میں کوئی بحث نہیں ہورہی ہے۔موجودہ میڈیا کا یہ رویہ افسوسناک،شرمناک اور میڈیا کیلئے بدترین زوال کی علامت ہے۔ایسی صحافت جمہوریت کیلئے خطرہ،ملک کیلئے مضر اور عوام کیلئے نقصان دہ ہے۔ ملک کی ترقی، ہندوستان کی سلامتی۔عوام کی خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ میڈیا اپنا صحیح رول ادا کرے۔وہ خود کو جمہوریت کا چوتھا ستون ہونے کا حق دا کرے۔اپنی اہمیت کو سمجھ کر یہ پیشہ انجام دے اور یہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزلی میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔اس لئے ہندوستان میں اگر ترقی کی شرح میں کمی آرہی ہے۔ شدت پسند عناصر اور آئین مخالف پارٹیاں اگر اقتدار میں آتی ہے تو یہ ملک یقینی طور پر تباہ ہوگا اور اس کیلئے ہماری میڈیا اولین ذمہ دار ہوگی۔ بہر حال ملک بدترین صورت حال سے گزر رہاہے ۔معاشی سطح پر ملک دیوالیہ کا شکارہے ۔ جی ڈی پی کی شرح میں گرواٹ آچکی ہے ۔ ریپ اور خواتین کے کرائم کی شرح میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔تشدد ،انفرت اور اشتعال انگیزی کی شرح گذشتہ ستر سالوں کے دوران سب سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ مہنگائی میں ریکاڈ ٹوڑ اضافہ ہوا ہے ۔ ملازمت ملنے کے بجائے ایک کروڑ ملازمت کم ہوگئی ہے ۔غربت ،جہالت اور پسماندگی میں بے پناہ اضافہ ہوچکاہے ۔ کسانوں کی خود کشی کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں ۔ گائے کے نام پر ماب لنچنگ کرکے سو سے زیادہ مسلمانوں ،دلتوں اور آدی واسیوں کاقتل کیاگیاہے ۔ کرپشن اور رشوت خوری کا سلسلہ بڑھ گیا ہے ۔کرائم اور جرم کی وجہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کا شمار ناپسندیدہ ملک کے طور پر ہونے لگاہے ۔ ایسی صورت حال میں عوام کو میڈیا کی باتوں پر بھروسہ کرنے اور اسے دیکھنے کے بجائے خود سوچنا ،سمجھنا اور غور کرنا ہوگا کہ انہیں کیا کرناہے ۔11 اپریل سے شروع ہونے والے انتخابات میں کن لوگوں کا اقتدار تک پہونچاناہے ۔کسے اپنا ووٹ دینا ہے ۔ یہ مرحلہ بہت اہم اور بیش قیمت ہے ۔جمہوریت میں الیکشن کے ایام بہت قیمتی ہوتے ہیں ۔اس موقع پر لیاگیا بہتر فیصلہ پانچ سالوں تک انسان کو مطئمن اور پرسکون رکھتاہے ۔ذراسی چوک اور غلطی کی بنیاد پر پانچ سالوں تک پچھتا نا پڑتاہے ۔ اس لئے ووٹ ڈالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں ،غور کرلیں ،گذشتہ پانچ سالوں کا جائزہ لیں پھر کسی کے حق میں بٹن دباکر ووٹ ڈالیں تاکہ 2014 سے اب تک جس طرح آپ کو پچھتانا پڑا ہے ،پریشانیوں کا سامناکرناپڑاہے آئندہ پانچ سالوں میں آپ کو پشیمانی کا سامنا نہ کرناپڑے ۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |