مسلمان خیر امت کے فرائض انجام دیں
ڈاکٹر محمد منظور عالم
کائنات اور اس کا نظام ،خالق کائنات اور اس کے تخلیق کی منشاءکو جاننا سمجھنا اورا س کے پیغام پر عمل کرنا دنیا ائے انسانیت کی اولین ذمہ داری اور بنیادی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیئے ۔ہر ایک انسان کے فرائض میںی یہ بات رہنی چاہیئے کہ اسے خالق کائنات کا تابع اور فرماں بردار رہناہے اور جو لوگ خالق کی نافرمانیاں کررہے ہیں ۔ گمراہی کے راستے پر گامزن ہیں ۔ دنیا میں فساد وشربرپا کررہے ہیں۔ خالق کائنات کے نظام میں گربڑی پیدا کررہے ہیں ان کی اصلاح کرنی ہے، انہیں سیدھاراستہ دکھاناہے اور انہیں راہ راست پر لاناہے ۔ یہ مشن ، مقصد اور جذبہ ہر ایک انسان کے دل میں پیدا ہونا ضروری ہے تبھی انسانیت کی ترقی ہوگی ۔ سماج میں اصلاح ہوگا ۔ معاشرہ میں سدھا ر پیدا ہوگااور سبھی قوم کو سکون کے لمحات میسر ہوں گے ۔
گزشتہ سوسالوں کے دوران ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا نے بے پناہ ترقی کی ہے ۔ ہر میدان اور شعبہ میں حیرت انگیز تخلقیات سامنے آئی ہیں ۔عیش وآرام کے سبھی اسباب میسر ہوگئے ہیں لیکن دوسری طرف اخلاقی انحطاط اور زوال بھی گزشتہ سوسال کے درمیان لگاتار پروان چڑھاہے ۔ پچھلی ایک صدی کے دوران دنیا جس زوال وپستی سے دوچار ہوئی ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتاتھا اور نہ ہی ماضی میں ایسی پستی کا سامنا کرناپڑاہے ۔ اکیسوی صدی ایجادات اور ٹیکنالوجی کے ساتھ اخلاقی انحطاط کی راہ پر گامزن ہے جس کا سد باب ضروری ہے ۔ دنیا کوتباہی سے بچانا ، انسانیت کو گمراہی سے نکالنا اور نور ہدایت کی جانب گامزن کرنا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جسے اللہ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں خیرامت کا لقب دیاہے ۔ مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کہاہے ۔ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے درمیان اس لئے بھیجاگیا ہے تاکہ تم لوگوں کو اچھائی کا حکم دو اور برائی سے روکو ۔قرآن کریم کے سورہ آل عمران کی یہ آیت کریمہ بہت اہم ، معنی خیزاور انسانیت کیلئے ترقی کیلئے انسائیکلو پیڈیا ہے ۔ صاف طور پر مسلمانوں کوخطاب کرکے اللہ تعالی نے انہیں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیاہے لوگوں کو اچھائیوں کا حکم کرنے اور برائیوں سے روکنے کیلئے کہاگیاہے ۔ جسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہاجاتاہے ۔ موجودہ دور میں دنیابھر کے عوام مختلف حالات سے دوچارہیں ۔ پوری دنیا میں ہنگامہ برپاہے اور ہر طرف افرا تفری ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک سے لیکر پسماندہ ممالک ۔ ہر جگہ پریشانی ، بے چینی ، قاقہ کشی ،ڈاکہ زنی ، غریبوں کے ساتھ زیادتی اورکمزوروں پر ظلم ہورہاہے ۔ مٹھی بھی لوگ غریبوں کا استحصال کررہے ہیں ۔ امن وسلامتی اور سکون واطمینان کا مکمل طور پر فقدان ہے ۔ دولت ، پیسہ ، شہرت ، اقتدار سب کچھ ہونے کے باوجود لوگوں کو سکون میسر نہیں ہے ، نہ ہی امیر مطمئن ہیں اور نہ ہی غریبوں کو سکون میسر ہے ۔ پریشانی ، اضطراب اور مشکلات کے ایسے مناظر شاید کبھی دیکھنے کو ملے ہوں ۔ ایسے مواقع پر یہ سمجھنا اور جاننا ضروری ہے کہ دنیائے انسانیت پریشان کیوں ہے ۔ سکون میسر کیوں نہیں ہے ۔ ٹیکالوجی ، برق رفتاری ،آسائش کے سبھی اسباب میسرے ہونے کے باوجود بے چینی ، افراتفری اور بے قراری کیوں ہے ۔ اس اضطراب کا علاج کیاہے ۔ نفرت ، تشدد اور بے اطمیانی سے کیسے دنیا کو چھٹکارا دلایا جاسکتاہے ۔ ان چیزوں کے بارے میں سوچنا ، غور کرنا او را سکا حل نکالنا امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری ہے کیوں کہ قرآن کریم نے انہیں خیر امت کہاہے ۔دعوت دینے کا حکم دیاہے ۔ انسانیت کو راہ راست پرلانے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔ دنیا بھرمیں جاری افراتفری ، بے چینی اور پریشانی کا اگر جائزہ لیا جائے ، اس کے اسباب پر غور کیا جائے تو بنیادی بات یہ سامنے آتی ہے کہ دنیا بھر کے انسان اپنی تخلق کا منشاءبھول چکے ہیں ۔ وہ خالق کائنات کے خلاف بغاوت کررہے ہیں ۔ قانون فطر ت کے خلاف کام کررہے ہیں ۔ انسانیت کی فلاح اور ترقی کے بجائے انسانیت کی بیخ کنی کے اساب پر عمل پیرا ہیں ۔ کمزوروں پرظلم اور غریبوں پر زیادتی کررہے ہیں ۔ سماجی ناہمواری ہے ۔ معاشرہ میں انصاف ، مساوات اور آزادی کا فقدان ہے۔ یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جس نے پور ی دنیا کا سکون سلب کرلیاہے ۔ اطمینان کا خاتمہ ہوچکاہے ۔ امن وسلامتی معدوم ہے ۔ ہرطرف بے چینی ، نفرت تشدد اور ہنگامہ آرائی ہے اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان حالات میں انسانیت کو بچانے کام کرے ۔ انہیں راہ راست پرلانے کی کوشش کریں ۔ اس مرض کا علاج ڈھونڈھیں ۔جو مریض ہیں انہیں علاج فراہم کریں ۔ دنیا کی پریشانی اور اضطراب کا حل یہ ہے کہ انسانیت کو اس کی تخلیق کا سبب بتایا جائے ۔ انہیں ان کی پیدائش کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے ۔ انہیں بتایا جائے کہ یہ کائنات کیوں بنائی گئی ہے ۔ ارض وسما کا خالق کون ہے ۔ انسانوں کی تخلیق کا مقصد کیاہے ۔ زمین وآسمان اور اس پر موجود سبھی مخلوقات کو کیوں وجود بخشا گیاہے ۔ جب ایک انسان اپنے وجود کا مقصد جان لے گا ۔ اپنی پیدائش کے مقصد سے واقف ہوجائے گا ۔ خالق حقیقی کو جان لے گا ۔ ارض وسما کو وجود بخشنے والی ذات اور اس کے سبب کے بارے میں واقف ہوجائے گا تب وہ بھلائی کا کام کرے گا ۔ نفرت اور تشدد سے دور رہے گا ۔ انسانیت کی بھلائی کیلئے اقدام کرے گا ۔ اپنی زندگی کا ایک مقصد اور مشن بنائے گا کہ اسے کرنا کیاہے ۔ کس راسے پر اسے چلناہے ۔ کس طرح اپنی زندگی گزارنی ہے ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک دعوت ہے ۔ دعوت دینے والوں میں صبر ،حوصلہ اور جذبہ ضروری ہے ۔ دعوت دینے کے طریقہ پر عمل کرنا لازم ہے ۔ قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔ آپ اپنے رب کے راستہ کی جانب حکمت اور موعظت کے ساتھ لوگوں کو بلائیں ۔ یعنی حکمت ودانشمندی کے ساتھ لوگوں کو دعوت دیجئے ۔ انسانیت کی بھلائی کیلئے دعوت اور تبلیغ ضروری ہے ۔ لیکن یہ کام بحسن وخوبی انجام دینا ہوگا ۔ حکمت عملی کے ساتھ کرنا ہوگا ۔ اخلاق ،کردار ، اعمال ، کیریکٹر،تجارت ، ملازمت ، تعلیم سبھی کاموں میں حسن نیت پیداکرنی پڑے گی ۔ اسوہ رسول کو سامنے رکھنا پڑے گا تبھی دین اسلام کی دعوت ہوگی ۔ عوام پر اس کا اثر پڑے گا او راسلام کا آفاقی پیغام موثر ثابت ہوگا ۔ آج کے دور میں فکری یلغار ہورہی ہے ۔ انسانیت پر حملہ ہورہاہے ۔ دنیا کے مٹھی بھر لوگ پوری دنیا کو غلام بنانا چاہتے ہیں ۔عالم انسانیت پر اپنی غلامی تھوپنا چاہتے ہیں ۔ وہ پوری دنیا کو محکوم اور خود حاکم بننا چاہتے ہیں ۔یہ گروپ ماضی میں بھی پہلے کئی مرتبہ سرگرم ہوا اور اب پھر یہ سر اٹھارہاہے ۔ کمزوروں ، مظلوموں ، غریبوں اور بے بسوں کو محکوم اور غلام بنانا چاہتاہے ۔ آزادی سلب کرکے انہیں اپنا ماتحت بنانے کی منصوبہ بندی کررہاہے ۔ خاص طور پر ہر سمت سے مسلمانوں اور عالم اسلام پر حملہ ہورہاہے ۔ فکری ، سیاسی ، تہذیبی ، سماجی ، تعلیمی ، عسکری ہر میدان میں مسلمان اپنے دشمنوں کے نرغے میں ہیں ۔ لیکن یہی موقع ہے صبر سے کام لینے کا ۔ ہمت اور حوصلہ برقرار رکھنے کا ۔ اپنی طاقت اور توانائی کو منتشر ہونے سے بچانے کااور بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کا ۔ دعوت وتبلیغ ، اصلاح معاشرہ ، قوموں کے سدھار اور اس مشن کو انجام دیتے وقت عجز وانکساری ، اورنرمی ضروری ہے ۔ انسان کی فطرت میں جھکنا ،عاجزی اختیار کرنا۔ کبر وغرور او ر تکبر سے بچناہے ۔عاجزی ابن آدم کی فطرت ہے دوسری طرف تکبر اور غررو ابلیس کی فطرت ہے ۔ جنت میں غلطی کا ارتکاب ہوجانے کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کا معافی مانگنااور ابلیس کا اپنی غلطی پر قائم رہتے ہوئے معافی مانگنے سے انکار کرنا اسی فطرت کا مظاہرہ اور ریفلیکشن تھا ۔چناں چہ جب حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی تو انہو ں نے اللہ تعالی کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی مانگ لی جس کی بنیاد پر انہیں معافی مل گئی ۔ ابلیس معلون نے بھی غلطی کا ارتکاب کیا اور جب اللہ تعالی نے ابلیس ملعون سے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور معافی مانگنے کیلئے کہاتو ابلیس نے انکار کردیا او رتکبر کا مظاہرہ کیا۔یہ در اصل انسان اور شیطان کی فطرت کا مظاہرہ تھا ۔ آدم کی فطرت میں بندگی ، عاجزی ، انکساری ، اطاعت اور فرماں برداری ہے اس لئے حضرت آدم علیہ السلام نے فورا معافی مانگ لی اور اپنی بندگی ثابت کی دوسری طرف ابلیس نے کبر وغروراور تکبر وکا مظاہرہ کیا اور معافی مانگنے سے انکار کرکے سرکشی ،بغاوت اور غرور کا راستہ اختیار کیا ۔اس لئے ابن آدم کے درمیان دعوت دیتے وقت انسانی خصلت وفطرت ،یعنی عاجزی ، انکساری ،نرمی ، حکمت وموضوعت اور حسن اخلاق کا مظاہر ہ کرنا ضروری اور لازمی ہے اور انہیں اوصاف کی بنیاد پر مشن اور مقصد میں کامیابی مل سکتی ہے ۔ اس وقت پوری دنیا میں جو حالات چل رہے ہیںاس میں عام طور پر مسلمانوں کے استحصال کی مہم چل رہی ہے ۔ یہی وقت ہے کہ اہل ایمان رجوع کریں ۔ سیرت نگاری کا مطالعہ کریں ۔ قرآن کریم کی تعلیمات کو اپنائیں ۔ اللہ تعالی کے فرمان کو سینے سے لگائیں ۔ واعتصمو ا بحبو اللہ جمعیا و لاتفرقو کے پیغام پر عمل کریں ۔ کنتم خیر امة ۔۔۔۔کے پیغام کو سمجھیں کہ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو ہی خیر امت کا لقب دیاہے تاکہ لوگوں کو بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے ۔اللہ تعالی قرآن کریم میں ولقدکرمنابنی آدم بھی کہاہے ۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ تمام بنی نوع انسان قابل احترام ۔ مکرم اور معزز ہے ۔سبھی کو یکساں حقوق حاصل ہیں ۔ ہر ایک انسان انصا ف ، مساوات اور آزادی کا حقدار ہے ۔ کسی کو بھی کسی پر کوئی بھی ترجیح اور فوقیت نہیں دی جاسکتی ہے اور کیا یہ اولولالباب کا انٹرنیشنل ایجنڈا نہیں ہونا چاہیے؟. (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |