اٹھ کہ اب دستور کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے
ڈاکٹر محمدمنظور عالم
اتر پرد یش انتخابات کے پانچ مرحلوں کا انتخاب مکمل ہوچکا ہے ۔ دو مراحل کا انتخاب باقی ہے اس کے بعد گنتی شروع ہو گی۔ توقع ہے نتائج ریاست کے رائے دہندگان کے عین مطابق ہوں گے کیونکہ رائے دہندگان نے جس بالغ النظری کا ثبو ت دیتے ہوے دوران الیکشن خاموشی سے اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا ،اس سے سیاسی پار ٹیا ں بھی کسی نتیجہ پر پہو نچنے سے نہ صر ف قاصر نظر آرہی ہیں بلکہ فرقہ پرستوں کی جانب سے جس طرح کی زبان کا استعمال کیا جا رہا ہے وہ اس بات کا اشارہ کررہا ہے کہ رائے دہندگان نے ان پانچ مراحل میں فرقہ پرستو ں کو مسترد کردیا ہے جس سے بے چین ہو کر اس کے لیڈ روں نے ووٹوں کے پولورائزیشن کا کھیل شروع کر دیا ہے بقیہ دو مراحل کے انتخابات میں فرقہ پرست طاقتیں کس حد تک اپنے اس مشن میں کامیا ب ہوں گی اس کا پورا انحصار یہاں کے رائے دہندگان پر ہے ۔ اب تک کی صورت حال میں ووٹروں کی سیاسی بصیرت، فراست اور سوجھ بوجھ جس طرح سامنے آئی ہے اس کی بنیا د پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ رائے دہندگان کسی کے جملے بازی میں آنے والے نہیں ہیں لیکن بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈروں اور خود وزیر اعظم نریند ر مودی کے ذریعہ جس طرح پو لو رائزیشن کا کھیل شروع ہوا ہے اس سے کب، کیسے اور کون متاثر ہوجائے، حالات پر نظر رکھنے والے اچھی جانتے ہیں کہ ایسے حالات میں کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرا جاسکتاہے البتہ بیدار رہ کر ہی اسکا مقابلہ کیا جاسکتاہے ،اور یہ تبھی ممکن ہے جب فرقہ پرستوں کی پلا ننگ جو کہ گمراہ کرنے والی ہوتی ہے کا شکار ہو نے کے بجا ئے اپنے جذبات اور ہوش و ہوا س کو قابو میں رکھتے ہوئے زمینی حالات کے تقاضہ کو محسوس کرتے ہو ئے فیصلہ کریں تاکہ دستور کی بالادستی قائم رہ سکے ۔ وہ دستور جس نے ہم ہندستانیوں کو ایک دھاگے میں باندھ رکھا ہے ۔ سماج کے کسی بھی کمزور طبقات کو تعصب و تفریق کے دلدل سے نکا ل کر یکسا ں حقوق و اختیارات کے ساتھ جینے کا حق دیا ہے ۔ ان طبقات کو آگے بڑھانے اور ملک کی مین اسٹریم میں شامل کرنے کے لیے آفر میٹیو ایکشن دیا ہے، پر عملدر آمد ہو سکے۔
بہار اور بنگال اسمبلی انتخابات او راس سے قبل ملک کے دارالحکومت دہلی اسمبلی انتخابات میں رائے دہندگان نے اسی فرست اور سیاسی سو جھ بو جھ کا ثبوت دیا تھا اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ملک کی اکثریت دستور پر نہ صرف بھروسہ رکھتی ہے بلکہ اس کے تحفظ کی ذمہ داری بھی محسوس کرتی ہے لیکن فرقہ پرستو ں کی جملہ بازی رائے دہند گان کو کنفیوژ ضرور کردیتی ہے جس کی وجہ سے اسے فائدہ ہوتاہے۔2014 کا لوک سبھا الیکشن بھی اسی نوعیت کا تھا جس میں 69 فیصد رائے دہندگان نے بی جے پی کو مسترد کردیا تھا لیکن ووٹو ں کی تقسیم نے اس کو اقتدار تک پہو نچا دیا۔ اس لئے جس با ت کو سمجھنے اور فوکس کر نے کی ہے وہ یہ ہے کہ رائے دہندگان کسی بھی حال میں کنفیوژ نہ ہو ں بلکہ آپسی صلح و مشورہ کر کے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کریں کہ ان کا ووٹ اس پارٹی کو جا ئے گا جو دستور کے لئے کام کر ے گی ا س کی حفاظت کر ے گی اور اس کے بتائے ہو ئے نکات کے تحت سماج کے کمزور طبقات، حاشیہ پر رہ رہے ،دلتو ں، آدی واسیوں، اقلیتوں اور مسلمانوں کو ان کا حق د ے گی تاکہ سماج میں رنگا رنگی اور بھائی چارگی باقی رہے جس سے ملک مضبوط ہو اور آگے بڑھے۔ چھتیس مہینے کی مرکزی حکومت کی کا رکرد گی کو دستور کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس نے دستور کی بالادستی کے لئے اقدامات کئے یاپھر اسے بے اثر اور کمزورکر نے والے کام کئے ہیں۔ بی جے پی حکومت کے بنتے ہی گھر واپسی ،لو جہاد، گؤ کشی جیسے نعروں کے ساتھ بی جے پی لیڈروں نے اپنی مہم شروع کردی اور اسی کے ساتھ اقلیتوں کو عام طور پر اور مسلمانوں کو خاص طور سے نشانہ بناتے ہوئے جس زبان کا استعمال کر نا شروع کیا وہ زبان ایسی تھی جو حکومت کے وزیر کی تھی لیکن اس لائق نہیں ہے کہ اسے یہاں نقل کیا جائے۔ ایک مہذب آدمی اس طرح کی زبان استعمال نہیں کرتا ہے اس کے باوجود اس طرح کی زبان استعمال کر کے مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر کی اور حکومت کی جانب سے اس پر کوئی گرفت نہیں کی گئی حتی کہ آر ایس ایس جو خو د کو ثقافتی سنگھٹن کہتا ہے کے ذمہ داروں کی طرف سے بھی کو ئی گرفت نہیں گئی بلکہ جس تواتر کے ساتھ یہ سلسلہ چلا ہے اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اس کام میں اس کی پوری مرضی شامل تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ دلتو ں کو بھی نشانہ بنا یا گیا ۔انہیں مارا پیٹا گیا اور ان کی حیثیت کو لیکر بھی سوالات اٹھاگئے وہ حیثیت جو اس ملک کے جمہو ری اور سیکولر دستور نے دی تھی، کو کٹہرے میں کھڑا کیا جانے لگا اور ریزرو یشن کو ختم کر کے وا پس ا سی سماج میں لانے کی با ت کہی جانے لگی جہا ں ان کی حیثیت ایک غلام سے بھی بد تر تھی ۔ اس مر حلے تک آنے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے سیکولر اور جمہوری دستور کو کمزور کیا جائے ،سماج میں بھائی چارگی کو ختم کرکے تعصب ،دشمنی اور عداوت کوبڑھا وادیا جائے تاکہ سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بکھر جائے اور پھر برہمن واد کے فلسفے کے تحت اس کے ماتحت رہے ۔ اس الیکشن میں وزیر اعظم نریندر مودی نے شمشان اور قبر ستان کو اٹھاتے ہوئے رمضان پر بجلی دینے کے ساتھ دیوالی پر بھی بجلی دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس میں کو ئی تفریق نہیں ہونی چاہئے ، جبکہ یہ بات واضح ہے کہ قبر ستان کی آراضی وقف کی آراضی ہوتی ہے ، راہ چلتے کوئی دفن نہیں کر سکتا اس کی چہار دیواری ریاستی حکومت کرارہی ہے کو شمشان سے جوڑ نا کسی طرح مناسب نہیں ہے کیونکہ شمشان کا پورا نظم و نسق حکو مت کے اداروں کے تحت انجام دیا جاتا ہے ۔ دیوالی پر بجلی اس طرح دی جاتی ہے کہ مسلم محلوں کی بجلی کاٹ دی جاتی ہے لیکن مسلمانوں نے اس پر کبھی کوئی احتجاج نہیں کیا بلکہ برادران وطن کی خوشیوں کی خا طر اس پریشانی کو برداشت کیا لیکن آج وزیر اعظم اس طرح کے بیا نات دیکر مسلمانو ں اوربرادران وطن کے درمیان دوری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نہ صرف انتخابی عمل میں مذہب کے نام پر تفریق پیدا کرنے کی کوشش ہے بلکہ وزیر اعظم کے شایان شان بھی نہیں ہے ۔ان کے وزراء نے کیرانہ میں ہندوں کی نقل مکانی کو ایشو بناتے ہوئے بیان دیا کہ ایسامسلمانوں کی وجہ سے ہوا ہے جبکہ ریاستی حکومت نے سادھو سنتوں کی ایک ٹیم کو اس جائزہ کے لئے کیرانہ بھیجا تھا جس نے اپنی رپورٹ میں صاف کہا کہ جن لوگوں نے نقل مکانی کی ہے وہ روزگار کے سلسلے میں دیگر جگہوں پر گئے ہیں اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر نہیں گئے ہیں ، اس کے با وجود پارٹی لیڈران جھوٹ بول رہے ہیں اور عوام کو گمراہ کررہے ہیں ۔ امت شاہ نے بھی ا س بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت بننے پر مذبح خانہ بند ہو ں گے۔ قارئین کے علم میں یہ بات یقیناًہو گی کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں گوشت کے ایکسپورٹ میں کافی اضافہ ہو ا ہے ۔ اس کے باوجود اس طرح کی بات کرنا کس طرف اشارہ ہے ، کو بخو بی سمجھا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اب کسی کی شہادت کی ضرورت نہیں کہ موجودہ حکومت دستور کی روشنی میں نہیں بلکہ منواسمرتی کو لانے کے لئے ناگپور کے حکم کو بجانے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کررہی ہے جو دستور کی روح کے خلاف سماج بنانے،سماج میں یکجہتی اوربھائی چارگی کو بڑھانے کے خلاف اورآپسی تعلق کو گہرا ہونے کے بجائے اس کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کی کوشش اورملک میں عدم تشدد کی جگہ تشدد کو ہوا دینے ، قانو ن کے رکھوالے قانون کی پاسداری کرنے کے بجائے ان کے ممبران ، ان کی تنظیمیں یاان کے حمایت یا فتہ لوگوں، تنظیم یا تجارتی کمپنیوں وغیرہ کے اشارے پر انہیں ہر طر ح کی مدد پہو نچا نے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف آئی ایس آئی جو ہمارے وطن عزیز کی دشمن ہے۔ انسانیت کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ تازہ ترین معاملہ میں مد ھیہ پردیش میں جو گروہ پکڑاگیا ہے ان سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے کتنے گہرے اور مضبوط رشتے ہیں کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا یہ و قت نہیں آگیا ہے کہ ہمارے اسلاف نے جس طرح آزادی کو حاصل کرنے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھااور اس کے نتیجہ میں ہماراملک جمہوری و سیکولر نظام کے تحت قائم و دائم ہے۔ پانچ سال میں ایک بار موقع ملتا ہے جہا ں ہماری ایک انگلی انقلاب بر پا کرتی ہے اورایسے عناصر جو دستور اور انسانیت کے مخالف ہو ں اوربھا ئی چارگی کو پنپنے سے روکنے والے ہوں۔ کیا اب بھی اپنے ضمیر کی آواز کو ملک کو بچانے اورترقی کی جانب لے جانے کے لیے استعمال نہیں کرسکتے۔ کیا اب بھی لفظوں کے جملہ بازی کے دھوکے یا بھکت بن کر اندھے ،بہرے اورگونگے بنیں یا دستور، قانون اورجمہوریت کو بچانے کے لئے اپنے ضمیر کو زندہ کریں۔ مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں |