حق رائے دہی جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی
ڈاکٹر محمد منظور عالم
جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت حق رائے دہی ہے جسے انتخاب کہاجاتاہے ۔ ہمارے ملک کے دستور کے مطابق ہر پانچ سال پر عوام کو اپنانمائندہ منتخب کرنے کا حق ملتاہے ۔ ہمیں اپنی پسند اور ناپسند کے لیڈر کو چننے کا موقع ملتاہے ۔ہمارا لیڈر کیسا ہونا چاہیئے اس کا فیصلہ ہم عوام خود کرتے ہیں ۔ یہی جمہوریت کی سب سے بڑی خصوصیت ہے اور اس کا صحیح استعمال ۔ موقع کی مناسبت سے فائدہ اٹھاناعوام کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے ۔
بی جے پی کی پانچ سالہ حکومت ہمارے سامنے ہے ۔ ہم نے بہت قریب سے اس دورحکومت کو دیکھا اور مشاہدہ کیاہے کہ ملک ترقی کی رفتار سے کتنا ہٹ گیاہے ۔ معیشت تباہی کے کس دہانے پر پہونچ گئی ہے ۔ روزگار کے مواقع کتنے کم ہوگئے ہیں ۔کسانوں کی پریشانیوں میں کتنا اضافہ ہواہے ۔ اقلیتوں ،مسلمانوں دلتوں اور کمزوروں کو کس طرح کے مسائل کا سامناہے ۔ یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کا معیا رکتنا کم ہوگیا ہے ۔ طلبہ اور اساتذہ کس طرح کی دقتوں سے دوچار ہیں ۔عدلیہ ، آر بی آئی ،سی بی آئی سمیت دیگر آئینی ادارے کس طرح کی مداخلت سے دوچار ہوئے ہیں ۔ نفرت ،انتہاءپسندی اور اشتعال انگیزی کو کتنا فروغ ملاہے ۔ کرپشن اور رشوت کتنی بڑھی ہے۔ نوٹ بندی سے کتنی مصیبتیں جھیلنی پڑی ہے ۔ بے گناہوں ،بے قصوروں اور معصوموں کے قتل کی وردات کتنی بڑھی ہے ۔جرائم ،ریپ اور انتہاءپسندی کے واقعات میں کس قدر اضافہ ہواہے ۔غربت کتنی بڑھی ہے ۔عدم تحفظ اور انصاف سے محرومی کا احساس کس قدر لوگوں میں پیدا ہوگیاہے ۔ یہ سب ہماری نگاہوں کے سامنے ہے ہم نے خود اسے محسوس کیا ہے ۔ ہمارے شب ورزو کا واسطہ پڑاہے اس لئے ووٹ دیتے وقت ہمارے سامنے ان سب چیزوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ آئندہ مدت کیلئے ہم ایک ایسی حکومت کا انتخاب کرسکیں جس میں اس طرح کی پریشانیوں کا سامنانہ کرناپڑے ۔ملک کی ترقی کی رفتار پر بریک نہ لگے اور گذشتہ پانچ سالوں میں ملک کا جتنا نقصان ہواہے اس کی تلافی ہوسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹنگ کے عمل کو خفیہ رکھاگیاہے ۔تنہائی میں ایک شخص کووٹ دینے کا حق دیاگیاہے ۔ کوئی آفیسر بھی ووٹرس کے پاس نہیں ہوتاہے کہ وہ کچھ دیکھ سکے ، کسی پر نظر رکھے۔ آئین میں ووٹروں کو اتنی آزادی دینے اور اسے خفیہ رکھنے کا کا واحد مقصد صرف یہ ہے کہ آپ سوچ ،سمجھ کر،بے خوف اور آزادہوکر اپنا ووٹ دیں ۔ملک کے حق میں بہتر اور مفید نمائندہ کو چنیں ۔آپ پر کسی کی جانب سے خوف اور دہشت سوا ر نہ ہو۔ ہندوستان کا آئین انتہائی جامع ،لچکدار اور سیکولر ہے ۔تمام مذہبی ،لسانی اور علاقائی گروہوں او ر طبقات کو اس میں مکمل نمائندگی دی گئی ہے ۔ ہر ایک کو اس کے مذہب ،کلچر اور ثقافت پر عمل کرنے کی بھر پور اجازت ہے ۔کہیں بھی کسی طرح کا ٹکراﺅ نہیں ہے لیکن گذشتہ پانچ سالوں کے دوران حکومت نے سب سے ز یادہ اسی آئین پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اندورن خانہ آئین ہند تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ بھیم راﺅ امبیڈ کی قیادت میں ہمارے اکابرین نے جس آئین کی تشکیل دی تھی اس میں انصاف ،مساوات ،آزدادی او رتحفظ کا حقدار یکساں طور پر ہر ایک شہری کو بنایاگیاہے ۔ آر ایس ایس کو یہ نظریہ تسلیم نہیں ہے ۔ سنگھ پریوار کا ایجنڈا منووادی نظام اور منواسمرتی کا نفاد ہے ۔ ہندوستان کے عوام پر برہمنواد کی پالیسی تھوپنا آر ایس ایس اور بی جے پی کا بنیادی ایجنڈا ہے جس میں انسانوں کے درمیان مساوات ،آزادی اور انصاف کا کوئی تصور نہیں ہے ۔برہمنوں اور دیگر اعلی ذات کیلئے ہر ایک کو غلام بنانے کا ایجنڈا ہے ۔آئین ہند میں آر ایس ایس کے منووادی نظریہ کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہے اسلئے پوری کوشش اور جدوجہد ہورہی ہے کہ کسی طرح آئین سے چھیڑ چھاڑ کیا جائے ۔ مساوات ،آزادی اور انصاف کی فراہمی کو ختم کرکے اسے مخصوص لوگوں کیلئے خاص کردیاجائے ۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس کی یہی اولین کوشش ہوگی اورگذشتہ پانچ سالوں کے دوران اس سمت میں سنگھ پریوار نے بہت کچھ کامیابی حاصل کرلی ہے ۔آئین کی تبدیلی کا پورا خاکہ تیار کرلیاہے ۔2019 میں اگر دوبارہ بی جے پی اقتدار میں آئے گی تو عملی طور پر وہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنائے گی جس سے اقلیتوں ،دلتوں ،آدی واسیوں سمیت تقریبا تمام طبقات کی آزادی سلب ہوجائے گی ۔ انصاف ،مساوات او رتحفظ کے حقوق سے محروم کردیئے جائیں گے ۔ اس لئے ملک کے رائے دہندگان کی ذمہ داری ہے کہ ووٹ کو صرف ووٹ سمجھ کرنہ دیں بلکہ آئین کے تحفظ ،دستور کی بقاءاور ملک کی سلامتی کیلئے حق رائے دہی کا استعمال کریں ۔ایسی پارٹیوں کے خق میں اپنا ووٹ دیں جنہیں ملک کے آئین اور دستور پرمکمل بھروسہ ہے اور وہ اس سے کبھی چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے کیوں کہ ملک کا آئین جامع ،مکمل اور ہماری آزادی کا علمبردار ہے ۔ پانچ سالوں میں آئینی اداروں کو مکمل طور پر تباہ وبرباد کیاگیا ۔ سپریم کورٹ کے چار ججز کو سامنے کر یہ کہنا پڑا کہ حکومت عدلیہ میں مداخلت کررہی ہے ۔جمہوریت خطرے میں ہے ۔ سی بی آئی جیسی ملک کی سب سے بڑی ایجنسی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے خانہ جنگی کی شکار ہوئی اور عوام کا اعتماد اٹھ گیا ۔ آر بی آئی کی خود مختاری پر حملہ کیاگیا ۔ الیکشن کمیشن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش ہوئی اور اب فوج کا استعمال کیا جارہاہے ۔ فوج کی بہادری ،اس کی شجاعت اور ملک کیلئے دی گئی قربانیوں کو اپنی کامیابی بتاکر عوام کے جذبات بھڑ کائے جارہے ہیں ۔ انتخابات میں یہ سب ہمارے سامنے ہونا ضروری ہے ۔آئینی اداورں کا تحظ اور اس کی بقاملک کی سالمیت ،ترقی اور کامیابی کیلئے اولین شرط ہے۔ نفرت ،تشدد اور انتہاءپسندی ہندوستان کی گذشتہ پانچ سالوں میں شناخت بن گئی ہے ۔ ماب لنچنگ ، عصمت دری ،کرائم اور بے گناہوں کے قتل کی وجہ سے ہندوستان غیر محفوظ ملک بن گیاہے ۔ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران محمد اخلاق ،پہلو خان ،حافظ جنید ،روہت ویمولااور اس جیسے دسیوں واقعات نے ملک کی سالمیت ،لاءاینڈ آڈر پر سوالیہ نشان کھڑاکردیا ہے ۔اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ماب لنچنگ اور ہجومی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث تمام مجرمین کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ سیاست میں حصہ لے رہے ہیں ۔بی جے پی کی ریلیوں میں نعرے لگارہے ہیں ۔یہ صورت حال امن وسلامتی کیلئے نہ صرف تشویشناک بلکہ ملک کو خانہ جنگی کا شکارنے بنانے کی سازش ہے ۔انتہاءپسندوں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی سے ملک کی سلامتی متاثر ہوتی ہے ۔ انارکی پھیلتی ہے اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوجاتاہے ۔ وقتی طور پر ایک مخصوص طبقہ کے خلاف اس کی حمایت کرتے وقت یہ لگتاہے کہ کسی مقصد کی تکمیل ہوگئی ہے لیکن آگے چل کر یہی گروپ ملک کیلئے ناسور بن جاتاہے اور ایک دہشت گروپ کی شکل اختیار کرکے ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیتاہے اس لئے ایسے انتہا ءپسندوں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والی حکومتوں کو یہ سوچ لینا چاہیئے کہ کل ہوکر یہ گروپ انہیں کیلئے خطرہ بنے گا اور ملک کو انارکی کی طرف لے جائے گا ۔ انتخابات ہمارے سامنے ہے 11 اپریل سے ووٹنگ کی شروعات ہورہی ہے اس لئے ہم عوام یہ بات ملحوظ رکھیں کہ ایسی پارٹیوں کو ووٹ نہ دیں جن کی دہشت گردگروپوں کو حمایت حاصل ہے ۔ماب لنچنگ اور ہجومی تشدد کے مجرموں کو جن کی پشت پناہی حاصل ہے کیوں کہ یہ لوگ مسلمانوں اور اقلیتوں کے نہیں بلکہ ملک کی سلامتی ،ترقی اور آئین کے دشمن ہیں ۔ جمہوریت میں انتخاب کا متبادل کچھ اور نہیں ہوتاہے ۔ ہر پانچ سالوں پر حکومت چننے کا اختیا رملتاہے ۔ ایک مرتبہ ہوئی غلط کے ازالہ کیلئے پانچ سالوں تک انتظار کرناپڑتاہے اس لئے غور کریں ۔ سوچیں اور عہد کریں کہ 2019 میں کوئی غلطی نہیں کرنی ہے ۔ غلط فیصلہ نہیں لینا ہے۔ اپنے ووٹ کا استعمال کرکے ان لوگوں کو اقتدار تک پہونچاناہے جنہیں ملک کے آئین اور دستور پر بھروسہ ہے ۔ جو ملک کے جمہوری اقدار کو برقرار رکھیں گے ۔ جو سب کو ساتھ لیکر چلیں گے ۔ نفرت ،انتہاءپسندی اور شدت پسندی کا خاتمہ کرکے ملک میں امن وسلامتی کا فروغ یقینی بنائیں گے ۔ پانچ سالہ حالات ہمارے سامنے ہیں ۔ تمام مشکلات ہمارے ذہنوں میں تروتازہ ہیں اس لئے اس بہت سوچ سمجھ کر بٹن دبائیں ۔ اپنے دوستوں ،پڑوسیوں ،رشتہ داروں اور تمام متعلقین کے درمیان بیداری پیدا کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایک بھی ووٹ کا غلط استعمال نہ ہو ۔ غلط شخص کو کوئی بھی ووٹ نہ پڑے کیوں کہ جمہوریت میں ہم عوام کی سب سے اہم ذمہ داری صحیح نمائندہ کیلئے ووٹ کا استعمال اور مناسب لیڈر کی شناخت ہے ۔ یہ اچھی بات ہے کہ عوام میں بیداری ہے. انہیں حالات کا احساس ہے اور وہ بہتر فیصلہ لیں گے تاہم ای وی ای ایم کے حوالے سے شک اور تذبذب ابھی تک برقرار ہے. رائے دہندگان کو ایسا لگتا ہے کہ ای وی ایم کے ذریعہ ان رائے کا گلا گھونٹا جاسکتاہے. (مضمون نگار معروف دانشور اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹر ی ہیں ) |