خود کو سپر پاور سمجھنے والے حکمرانوں کا ہمیشہ یہی انجام ہواہے
نقطہ نظر :ڈاکٹر محمد منظور عالم
دنیا ہزاروں سال سے قائم ہے ۔ کرہ ارض نے اس درمیان بے شمار تغیرات اور تبدیلیوں کا سامنا کیاہے ۔ مختلف قوموں نے یہاں جنم لیا ہے ۔ بے شمار کا نام ونشان تک مٹ گیاہے ۔ ہر دورمیں ہزاروں لوگوں نے حکومت کی ہے ۔ کئی لوگوں نے خود کو اس دنیا کو سب سے بڑا حکمران سمجھا ، خود کو کائنات کا سب سے بڑا سپر پاور سمجھ لیا پھر انہیں کے لوگوں ان کا بدترین انجام بھی دیکھا ۔ دنیا کی دستیاب تاریخ میں کئی ایک نامور حکمرانوں اور بادشاہوں کی طاقت ، دبدبہ اور پھر ان کے بدترین انجام کا تذکرہ ملتاہے ۔ اسی کرہ ارض پر کبھی نمردو کی حکومت تھی جس نے طاقت اور غرور کے نشہ میں خود کو خدا سمجھ لیاتھا لیکن اس کی خدائی لمحوں میں ختم ہوگئی اور دنیاآج تک اس کو اس کے بدترین انجام کیلئے جانتی ہے ۔ اسی دنیا میں کبھی شداد کی بادشاہت تھی جس نے یہ دعوی کردیا کہ وہ خدا ہے ، وہی سب سے طاقتور ہے اور پھر دنیا نے اس کا بھی بدترین حشر دیکھا ، جو خود کو سب سے طاقتور ، سب سے سپرور پاور سمجھ رہاتھا ایک مچھر سے بھی نجات حاصل نہیں کرسکااور بدترین انجام کا شکار ہوا۔ اس دنیا میں فرعون ،ہامان اور قارون کا انجام بھی سبھی کیلئے درس عبرت ہونا چاہیئے ۔ طاقت،عقل اور دولت کے نشہ میں فرعون اور اس کے ساتھیوں نے خود کو خدااور کائنات کا خالق سمجھ لیا تھا ۔ اقتدار کا نشہ سوار ہونے کے بعد رعایااور عوام پر ظلم وستم ڈھانا شروع کردیاتھا کا اس کا دعوی تھا کہ وہی خدا ہے ،ا س سے بڑی کو ئی اور طاقت ہے نہیں ۔ اللہ تعالی کے وجود کا انکار کرکے خودکو خداسمجھ لیا لیکن پھر اس کا انجام بھی دنیا کیلئے عبرت بن گیا اور اپنی رعایا کے ساتھ دریانیل میں غرق ہوگیا ۔ اس کی لاش آج بھی پوری دنیا خاص کر ظالم حکمرانوں کیلئے درس عبرت ہے جسے نہ تو زمین نے قبول کیا اور نہ آسمان نے اور جس نے اسے بتایاکہ تم خدا نہیں ہو ، تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے ، خدا کی ذات کوئی اور ہے تم اس کے غلام ہو اس کی پرورش وپرداخت اسی کے گھر میں ہوئی اور اسے اس کا احساس تک نہیں ہوسکا ۔ تاریخ عالم میں کئی ایسی قوموں کا تذکرہ موجود ہے جس نے بغاوت کی ،سرکشی کی ، اللہ تعالی کے فرستادہ انبیا ءکرام کو ماننے سے انکار کیا ،ا ن کے ساتھ زیادتی کو تو اس کا انجام بدتر ہوا اور اللہ تعالی نے اس کی جگہ دوسری مخلوق کو آباد کیا ۔حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا واقعہ سب اہم اور قابل ذکر ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو اللہ تعالی کی طرف بلایا ۔ دین کی دعوت دی ۔ وحدانیت کا سبق پڑھایا تو قوم نے ماننے سے انکار کردیا ، ان کا مذاق اڑایا ، ان پرظلم وستم شروع کیا ساڑھے نو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد قوم کی سرکشی اور بغاوت میں کمی نہیں ہوئی پھر اللہ تعالی نے سیلاب کی شکل میں عذاب مسلط کرکے سبھی کو تباہ وبرباد کردیا او رایک کشتی کے ذریعہ اپنے منتخب بندوں کو بچالیا ۔ حضرت نوح علیہ السلام جب اللہ تعالی کے حکم سے کشتی بنارہے تھے تو ان کی قوم مذاق اڑاتی تھی کہ یہاں سمند رنہیں ہے ،دریا نہیں ہے یہ کشتی کہاں چلے گی لیکن اللہ تعالی ہر ناممکن کو ممکن بنانے کی قدرت او رطاقت رکھتاہے ۔ شروع سے لیکر اب تک یہی ہوا ہے کہ جب بھی دنیا کے حکمرانوں نے اپنے حدود سے تجاوز کیا ہے ،انسانیت کی تعظیم کی بجائے اس کی تذلیل کی ہے ۔ انسانوں کو غلام بنانا چاہاہے ۔ اپنی حیثیت اور اوقات بھول کر خو د کو خد اسمجھے کی غلطی کی ہے ۔ قدرت کے نظام میں چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی ہے، خود کوسپر پاور جتایا ہے تو ان کا انجام بدتر ہواہے ۔ وہ طاقت پاِش پاش ہوگئی ہے ، ایسے حکمراں ، ایسی ریاست تباہ وبرباد ہوگئی ہے ۔ دنیا کیلئے وہ درس عبرت بنی ہے اور ان کا انجام اس طرح بھیانک ہوا جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں گیاتھا ۔ بیسوی صدی میں ہونے والی جدید ترقی اور سائنس کی بے پناہ کامیابی نے انسان کو مغرور بنادیاتھا ، بعض حکمرانوں نے خود کو سپر پاور سمجھ کریہ باور کرانا شروع کررکھاتھا کہ دنیا میں وہی سب سے طاقتور ہے ، اسی کی خدائی ہے ،اس کے اوپر کوئی اور نہیں ہے ، وہ جیسے چاہے گا نظام چلائے گا ۔ وہ تمام آفتوں ،مصیبت اور برے حالات سے محفوظ ہے ،اسے کبھی کوئی نقصان نہیں پہونچاسکتاہے ۔ انسانوں نے سمجھ لیاتھا کہ اس دنیا میں سائنس سے بڑھ کر کوئی دماغ نہیں ہے ۔ ایٹم بم سے بڑھ کر کوئی اور طاقت نہیں ہے ۔ ڈالر کے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ میڈیکل کے پاس تمام امراض کا علاج ہے ۔اپنی معیشت ، اپنی فوج ، اپنے میڈیکل سستم اور اپنی طاقت پر اتنا غرور اور بھروسہ ہوگیا تھا کہ اسی کو سب کچھ سمجھ لیاتھااو ریہ یقین کامل ہوگیاتھا کہ ان سے اوپر اور ان سے بڑھ کر کوئی اور نہیں ہے لیکن آج یہ سب سے ایک کرونا وائرس کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں ۔ سائنس اب تک یہ معلوم کرنے میں ناکام ہے کہ آخر یہ ہے کیا ۔ میڈیکل نظام اس کی دوا بنانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکا ہے ۔ دفاعی ساوزسامان او رجنگی اسلحہ میں یکتائے روزگار ممالک اس کرونا کے سامنے کمزور اور شکست خودردہ ہوچکے ہیں ۔ آسمان میں اڑنے والے جہاز ایئر پورٹ پر اپنی بے بسی کیلئے رو رہے ہیں ۔ سمندروں کو چیرنے والے جہاز بندر گاہ کے کنارے خاموش پڑے ہیں ۔ سڑکیں سنسان پڑی ہیں ۔ ٹرینیں بند ہیں ۔پوری دنیا تھپ پڑی ہوئی ہے ۔ کہیں کوئی نقل وحرکت نہیں ہورہی ہے ۔ یہ ایک وارننگ اور تنبیہ ہے۔ اپنی اوقات اور حیثیت بھو ل جانے والوں کیلئے مسیج ہے ۔ خدا کو فراموش کرنے والوں کیلئے پیغام ہے کہ اس دنیا کاحقیقی خالق کوئی اور ہے ۔ سپر پاو ر کوئی اور ہے اور وہ ذات اللہ تعالی کی ہے ۔ اس کی سامنے ساری طاقتیں ہیچ ہے، وہی حاکموں کا حاکم اور خالقوں کاخالق ہے ۔ جس نے بھی دنیا میں ظلم وستم برپا کیاہے ۔ انسانوں کا قتل عام کیاہے ۔ مظلوموں ، غریبوں اور کمزروں کو ستایاہے اس کا انجام بدتر،شرمناک اور عبرتناک ہواہے ۔ آج کی دنیا میں جولوگ سپر پاور سمجھ رہے ہیں ، خود کو حکمران سمجھ بیٹھے ہیں ان کیلئے نمرو د ، فرعون اور ہامان کا بدترین انجام درس عبرت ہے ۔ کرونا وائرس یہ ایک سبق اور تنبیہ ہے ۔ روئے زمین پر حکومت کرنے والے حکمراں نہیں ہوتے بلکہ وہ اللہ تعالی کے نائب ہوتے ہیں ، اصل حکمرانی اور حکومت پروردگار عالم کی ہوتی ہے ۔ حضرت داﺅد علیہ السلام نبی بھی تھے اور سلطنت کے حکمراں بھی ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ان کا تذکرہ کرتے ہوئے خلیفہ کا لفظ استعمال کیاہے جس کا مفہوم ہے کہ ہم نے داﺅ د علیہ السلام کو روئے زمین پر خلیفہ بنایاہے ۔ یہ لفظ اور پوری تشریح سے یہ ثابت ہوتاکہ خلیفہ او ر حکمراں کی ذمہ داری اللہ تعالی کے احکامات کی اطاعت اور ان کے تخلیق کردہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے نظام مملکت کو چلاناہے ۔ عدل وانصاف کو قائم کرنا بنیادی ذمہ داری ہے۔ دنیا کے حکمرانوں نے خود کو حقیقی حکمراں اور سب سے طاقتور سمجھ کر عدل وانصاف کا سبق فراموش کردیاتھا ۔ خالق ارض وسماوات کے قانون کو پس پشت ڈال کر ان کی نافرمانی اور بغاوت انتہاءکو پہونچ چکی تھی ، اقتدار کے نشہ میں مذہب ،ذات اور نسل کی بنیاد پر تفریق کرنے لگے تھے ۔ انسانیت کے خلاف ،ظلم پر مبنی ایک نظام مسلط کردیاگیاتھا اور کچھ جگہوں پر ایک پوری منصوبہ بندی ہورہی تھی ۔مظلوموں ، کمزوروں اور غریبوں کو تباہ وبرباد کرنے کی پوری پلاننگ ہورہی تھی اور اس کے پیچھے یہی ذہنیت کارفرماتھی کہ ہم طاقتور ہوچکے ہیں ، اب ہمیں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل سے کوئی نہیں روک سکتاہے ۔ دنیا کی کوئی طاقت ہماری راہ میں حائل نہیں ہوسکتی ہے ۔ ایسی سوچ اور غرور وتکبر میں متبلا حکمراں آج اپنی بے بسی پر رور ہے ہیں ۔ ان کے سارے اسباب وسائل بیکار ثابت ہوچکے ہیںاوران کے سامنے یہ پیغام واضح ہوگیاہے کہ دنیا کا اصل مالک کوئی اور ہے ۔ سپر پارور اللہ تعالی کی ذات ہے ۔اس کے نظام سے بغاوت اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے حکمراں تاریخ میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے ہیں ۔ مختلف دور میں ایسے سرکش،ظالم اور جابرحکمرانوں کا انجام انتہائی بدتر ہواہے ۔ اکثریت کی طاقت کے نشہ میں چوروں قومیں اس طرح تباہ وبرباد ہوئیں کہ دنیا میں ان کا نام ونشان تک باقی نہیں رہ گیاہے اوردنیا کیلئے وہ درس عبرت بنے ہیں ۔ آج کی صورت حال پوری دنیا کے ساتھ ہندوستان ، یہاں کے عوام اور بالخصوص حکمرانوں کیلئے درس عبرت ہے ۔ سیکھنے کا مقام ہے اور یہ ذہن نشیں کرلیناضروری ہے کہ اللہ تعالی کی ذات اصل سپر پاور اور طاقت ور ہے ۔ ان کی مخلوق پر جب حد سے زیادہ ظلم ہوتاہے ۔ انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے ۔ احکام خدواندی کے ساتھ بغاوت کی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کا انجام بدتر ہوتاہے اور پوری دنیا کیلئے اسے عبرت بنادیاجاتاہے ۔ یہ موقع ہے احتساب اور محاسبہ کرنے کا ۔اپنے اعمال اور طرز عمل کے جائزہ لینے کا ۔ حکمران عالم اور ار باب اقتدار کو اب عہد کرلینا چاہیئے کہ حالات نارمل ہونے کے بعد اب وہ طاقت کا بیجا استعمال نہیں کریں گے ۔ غرور اور تکبر سے دور رہیں گے ۔ انسانیت کی تذلیل اور بے حرمتی نہیں کریں گے ۔ عوام کی خدمت او رریاست کے فلاح وبہبود کو یقینی بنائیں گے ۔ خدائی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے اور ہمیشہ یہ بات ذہن نشیں رکھیں گے کہ اصل سپر پاور اور اصل حاکم اللہ تعالی کی ذات ہے ۔ اسی کی مرضی کے مطابق پوری کائنات کا نظام چلتاہے ۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |