بہار الیکشن: مسلمان اور کمزور طبقات کا امتحان
ڈاکٹر محمد منظور عالم
بہار اسمبلی انتخابات کو لیکرچہار جانب ہما ہمی کا دور دورہ ہے، سیاسی سرگرمیاں بڑھی ہوئی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے وجود کو مضبوط کرنے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے مختلف حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں۔ ممکنہ طور پر کامیاب ہونے والے امیدواروں کی فہرست بنانے کے ساتھ پارٹی کیڈر کو اعتماد میں لینے اور فضا کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی مہم جاری ہے۔ چھوٹی بڑی ریلیوں کے ذریعہ عوام تک رسائی کو یقینی بنایاجارہا ہے اور مختلف سروے کی روشنی میں جائزہ لیا جارہا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے؟ یہ جمہوری نظام کا ایک فطری طریقہ ہے جس میں جوش اور ولولہ پیدا ہونا اس کا لازمی حصہ ہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کے وجود کا محرک بھی ہے اور ان کی حیات وبقا کا انحصار بھی۔ سیاسی پارٹیاں اور بہار کے رائے دہندگان ابھی الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ کا اعلان کررہے ہیں اور ضابطہ اخلاق کے نافذ ہونے کا بھی انتظار ہے۔
بہار کا انتخابی منظر نامہ اس لحاظ سے بڑ ادلچسپ ہے کہ وہاں کئی سیاسی پارٹیاں میدان میں ہیں لیکن انتخابی لڑائی کے لیے دوسیاسی اتحاد پوری آب وتاب کے ساتھ میدان میں ہیں۔ ابھی تک جو حالات ہیں، اس کے تناظر میں یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مہاگٹھ بندھن سبقت لے چکا ہے کیونکہ اس کے یہاں سیٹوں کا بٹوارہ ہوچکا ہے اور اس میں شامل جنتا دل یو، راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے اندر مضبوط اتحاد نظر آرہا ہے۔ کس امیدوار کوکس سیٹ پر اتارنا ہے، اس کام میں یہ سیاسی پارٹیاں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب این ڈی اے اتحاد ہے اس کے اندر ابھی بھی ہنگامی صورتحال برقرار ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی ہمیشہ دو قدم آگے چلتی ہے لیکن بہار میں وہ چار قدم پیچھے ہے، اور اس کے نتیجہ میں اس اتحادمیں رسہ کشی اور سیٹوں کی تقسیم کو لیکر لڑائیاں چل رہی ہیں۔ یہ لڑائیاں خواہ کتنی چلیں آخرکار انھیں سیٹوں کا بٹوارہ کرنا ہے اور اپنے اپنے حصہ کے لیے مناسب امیدوار بھی اتارنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ این ڈی اے اتحاد میں شامل پارٹیاں لفظ این ڈی اے کے ساتھ چلنا چاہیں گی یا بی جے پی کے نام سے الیکشن لڑیں گی۔ وہ کس کے ساتھ جانا پسند کریں گی، یہ ان کا اپنا اندرونی معاملہ ہے جسے انھیں خود حل کرناہے۔ بہار کا یہ الیکشن بڑا اہم اور نازک مرحلے میں ہے۔ بی جے پی کے پاس ایک ہی چہرہ ہے جو ہمارے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جس طرح وزیرا عظم ا س الیکشن میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اس میں شریک ہورہے ہیں، اس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم نہیں بلکہ اس ریاست کے وزیر اعلیٰ ہوں اور نہ بی جے پی کا دیگرکوئی لیڈر اتنی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ اسے موقع مل رہاہے جہاں عوام اس کو سننے آئیں یا عوام کو Mobiliseکرکے لایا جائے، چاہے وہ کرائے کے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس وقت بہار کے رائے دہندگان کے سامنے کئی سوال ہیں جس میں سب سے اہم ایشو مہنگائی کا ہے۔ مرکز میں بی جے پی حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل الیکشن میں پورے دم خم سے عوام کو راحت دینے کی بات کہی تھی لیکن حکومت عوام کو راحت پہونچانے کے بجائے ان کی زندگی کو مزید تنگ دست کررہی ہے۔ مہنگائی جہاں آسمان کو چھورہی ہے وہاں اسکینڈل اتنے بڑھے کہ ماضی کی تاریخ بھی شرمانے لگی۔ لاقانونیت نے قانون کے وقار کو گھٹادیا اور امن جیسی چیزیں نظروں سے اوجھل ہونے لگیں۔ چھوٹے پیمانے پر فسادات اتنے بڑھے کہ پولیس اسٹیشن پر روزنامچوں کی کمی ہونے لگی، پولیس کی طرف سے ناانصافی اور دبنگوں کی طرف سے زیادتی اتنی زیادہ ہونے لگی کہ ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کیا جانے لگا، عورتوں کی عزت ووقار کے تحفظ کی دہائی دینے والی پارٹی کے دور حکومت میں اس کی عزت لوٹنے، برباد ہونے کے واقعات اتنے بڑھے کہ عام آدمی شرمسار بھی ہونے لگا۔ تعلیم جو ملک کی ترقی کی ضمانت دیتی ہے، اس کے بجٹ میں کمی کی گئی جس سے نہ صرف ناخواندگی میں اضافہ ہوا بلکہ مزدور اور کمزور لوگ جس حال میں ہیں اسی حال میں رہ گئے۔ اس پر وہ خوشی منائیں، کیونکہ صحت، خواتین اور بچوں کے بجٹ میں خصوصی کمی کرکے ان کی خوشیوں کو چھین لیا گیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں کمزور صحت کے ساتھ اور مستقبل میں اپنی قوت کو بڑھانے، صحت مندرکھنے، ملک کی ترقی میں ولولہ کے ساتھ شریک ہونے میں پیچھے ہی رہ جائیں گے۔ دلتوں، اقلیات اور آدی واسی جسے اپنی صحت کے نقطۂ نگاہ سے بھی گوشت کی شکل میں جو وٹامن ملتا تھا کے کاروبار سے آمدنی ہوتی تھی، پر قدغن لگانے کی کوششوں کے نتیجہ میں وہ کمزور اور غریب ہی رہیں گے۔ جانوروں کے تحفظ کے نام پر فسادات کو بڑھاوادیا جارہا ہے جس سے ملک اور ریاست بہار کاجو سماجی تانا بانا تھا، اس کو توڑنے میں تیزی لائی گئی۔ کسانوں کی زمین جو اس کی روزمرہ زندگی کی بنیادی ضرورت اور اس کے مستقبل سے جڑی ہوئی ہے، اس کو بھی چھین لینے اور سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے یعنی عوام سرمایہ دار کے مزدور کی حیثیت سے یا بڑی مشین کے کل پُرزے بن کر رہنے کے سبب بلندی کا خواب نہ دیکھیں اور نہ اس کے لیے جدو جہد کریں۔ پھر بھی یہ خوبصورت نعرہ لگایا جارہا ہے اور گجرات کو مثال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ گجرات کی موجودہ صورتحال زبانِ حال سے کہہ رہی ہے کہ جس ترقی کی بات کی جارہی ہے، وہ دعویٰ صحیح نہیں ہے، اس لیے سوال یہ ہے کہ یہ ترقی کس لیے، کس کے لیے؟ کیا کم پڑھے لکھے لوگ، کمزور صحت والے، کمزور خواتین اور صحیح خوراک نہ ملنے والے بچوں کو اس ترقی سے ان لوگوں کو کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب جو مہاگٹھ بندھن بنا ہے وہ بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ وہاں بھی ترقی میں ہر ایک کو برابر کا موقع ملتا، انصاف کے راستے آسان ہوتے اور خاص طور سے مسلمانوں کی نمائندگی کم نظر آرہی ہے اور مہاگٹھ بندھن کویہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اس بات کی کوشش کرے کہ جس کی نمائندگی صحیح نہیں ہورہی ہے، اس الیکشن میں اس کو پُر کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ دلتوں اور مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ آئندہ الیکشن میں بہار کے فائدے کے لیے کون بہتر ہوگا۔ اس پرا پنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں اور بڑے پیمانے پر استعمال کرانے کی کوشش بھی کریں۔ لوگوں کو ترغیب دیں کہ جمہوریت میں ووٹ بہت قیمتی ہوتا ہے، اسے ضائع کرنا، نہ دینا یا غلط جگہ دینا بہت ہی نقصان دہ رہتا ہے جس کو کم از کم پانچ سال تک بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ بڑے بڑے وعدے جیسا کہ پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی نے اچھے دنوں کو لانے کی بات کہی تھی، اس پر پارٹی صدر امت شاہ نے کہا کہ یہ انتخابی جملہ ہے جسے سورج کی روشنی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے اس سے آگے بڑھکر حکومت کے مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ یہ سوشل میڈیا کا پھیلایا ہوا ہے، اس سے پارٹی کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ اس پارٹی، اس کے ذمہ داروں اور ان کے عمل کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنے میں بہت زیادہ دماغ کو لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔جذباتیت سے اوپر اٹھ کر سچائی کو دیکھنے کی کوشش کریں جہاں دلت اور کمزور طبقات بھی مختلف انداز میں وعدے نہ پورا کرنے، صحیح اقتصادی حکمت عملی نہ اختیار کرنے اور انھیں آگے بڑھانے کے لیے مناسب قدم نہیں اٹھانے سے بھگت رہے ہیں، وہاں مسلمانوں کو زیادہ بھگتنا پڑرہا ہے، کیونکہ قانون کی تنفیذ کرنے والوں کی نگاہ میں مسلمان دوسروں کے برابر نہیں ہیں، وہاںآئے دن انھیں مختلف الزامات کے تحت پوری حکمت عملی سے صرف ووٹ کو پولورائز کرنے کے مشن پر بی جے پی کام کررہی ہے اور سارے اصول دستور، نظام عدل اور نظام قانون اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنا ہے کہ یہ الیکشن کوئی آخری نہیں ہے۔ ہمارے جمہوری نظام کی یہ بڑی قوت رہی ہے کہ پابندی سے ہر پانچ سال پر سوائے ایک دفعہ (ایمرجنسی) کو چھوڑ کر، الیکشن ہوتا ہے اور اس الیکشن میں کمزور طبقات نے اپنے ووٹ کا جب بھی سوچ سمجھ کر بڑی تعداد میں ووٹ ڈالا ہے تو ملک کا دستور، اس کی روح،الفاظ اور اسپرٹ کو قوت ملی ہے اور جب بھی جذباتیت، ناراضگی یا غصہ میں ووٹ ڈالا ہے، اس کا فائدہ براہ راست اس سیاسی پارٹی کو پہونچا ہے جو بنیادی طور پر اس دستور اور اس کی روح کو ماننے سے انکار کرتی ہے، مجبوری میں عوام کو یہ بتانے کی ضرور کوشش کرتی ہے کہ دستور کے مطابق یہ کام ہوگا اور اگر ایسا ہوتا تو ’لوجہاد‘، ’گھر واپسی‘ جیسے نعرے نہیں دیے جاتے، اور نہ نفرت آمیز بیان بازی کی جاتی اور نہ اقتصادی پیکچ ایسے بنتے کہ غریب، غریب تر اور امیر، امیر تر بنتا۔ اس پردلت، آدی واسی، کمزور طبقات، ا قلیات اور بالخصوص مسلمانوں کو غور کرنا ہے کہ آیا دہلی اسمبلی انتخابات میں جو اتحاد پیش کیا گیا جس کے نتیجہ میں فرقہ پرست پارٹی کو بری طرح شکست ملی یا راجستھان اور ابھی کرناٹک میں میونسپل الیکشن میں ووٹ کے انتشار کی وجہ سے فرقہ پرست پارٹی کو کامیابی ملی اور یہ انتشار د وبنیادوں پر ہوا۔ ایک تو یہ کہ مسلم سیاسی پارٹیوں نے اپنے غلط تجزیہ کی روشنی میں اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا اور بیشتر جگہوں پر بری طرح ناکامی ہوئی اور اس کا براہ راست فائدہ وہاں بی جے پی کو پہونچا اور دوسری وجہ آپس میں تال میل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور جن لوگوں نے بھی کوششیں کیں، ان کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ اس وقت بہار کے ان کمزور طبقات اور مسلمانوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیسے آپس میں تال میل ہو، ان میں اتحاد پیدا ہو اور دستور کو بچانے کی جدوجہد میں دوسری ذات برادریوں سے کیسے ملاقاتیں کی جائیں اور ہر حال میں اس کو دیکھیں کہ وہ پارٹی کامیاب نہ ہو جو اپنے سیاسی ایجنڈہ پر کام کم کرتی ہو بلکہ آر ایس ایس کے ایجنڈہ اور حکم کے مطابق کام کرتی ہو، ظاہر ہے کہ ملک کے سماجی تانے بانے کو جس طرح توڑا جارہا ہے، اس پارٹی کے بہار میں اقتدار میں آنے کے بعد بہت تیزی سے ٹوٹیں گے۔ اس لیے دانشمندی اور سوچ کا تقاضہ ہے کہ ملک میں ایک ایسی فضا قائم ہو جو انسانی وقار کے مطابق ہو، سماجی مزاج اور دستور کی روح کی منشا کے مطابق ہو، قانون کی بالادستی ہو اور بھائی چارگی کو پروان چڑھائے اور حکومت میں حصہ داری ہو ،تبھی ہمارا دیش سربلند ہوگا اور یہی ہمارے خوابوں کی تعبیر ہوگی۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |