گجرات ترقی کا ماڈل اور بہار انتخابات۔۔۔؟
ڈاکٹر محمد منظور عالم
الیکشن کمیشن کی جانب سے بہار میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوچکا ہے۔ ریاست میں انتخابات پانچ مرحلوں میں ہوں گے اور نتائج 8نومبر کو آئیں گے۔ دہلی الیکشن کے بعد بہار کا الیکشن اگرچہ ایک ریاست کا الیکشن ہے مگر اپنی معنویت کے لحاظ سے بہت اہم اور مستقبل پر گہرا اثر ڈالنے والا مانا اور سمجھا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ سارے ملک کی نگاہیں اس پر مرکوز ہیں۔ بہت سارے لوگ خاص طور سے بی جے پی کے سوچنے سمجھنے والے افراد بھی یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ کانگریس نے 25 برس حکومت کی اور 15سال لالو پرساد یادو نے اقتدار سنبھالا اور جنتادل 10سال حکومت میں رہی، آٹھ سال بی جے پی کے ساتھ تھی اور دوسال سے اکیلے اقتدار میں ہے۔ کیونکہ ان پارٹی کی حکومتوں نے بہار میں ترقی نہیں کی اس لیے بہار کو ترقی کی ضرورت ہے لہٰذا اس بار بی جے پی کو موقع دینا چاہیے جو ترقی کے ایجنڈہ کے ساتھ میدان میں ہے۔ اس لیے بہار میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ترقی کی اہمیت وافادیت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو کیونکہ ترقی ہر ایک کی ضرورت ہے۔ ترقی میں خوشحالی پوشیدہ ہے۔علم بھی ہے اور بنیادی ڈھانچہ کا تصور بھی، اس میں باہمی رشتے پروان چڑھتے ہیں اور سماجی تانا بانا مضبوط ہوتا ہے۔ بی جے پی ترقی کے اس دعویٰ کے لیے بطور ثبوت گجرات کی مثال تال ٹھونک کر پیش کرتی ہے۔ ترقی کا وہ نمونہ کیاہے اس کی ایک جھلک دیکھنا ضروری ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ آیا وہ ترقی جو گجرات میں گزشتہ 12سالوں میں سابق وزیرا علیٰ اور ہمارے موجودہ وزیر اعظم نریندرمودی جی کے زمانہ میں ہوئی اسے اپنانے میں بہار کے لوگوں کا بھلا ہوگا یا وہ ماڈل جو اس وقت نتیش کمار پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ فائدہ مند ہوگا۔ترقی انصاف کے ساتھ ہو، جس کے تحت بنیادی ڈھانچہ کو ڈیولپ کرنا، دستکاری اور مہارت کو بڑھاوا دینا، پڑھے لکھوں کے لیے کمپیوٹر کے ساتھ مزید مواقع پیدا کرنا، بچے اور بچیوں کی تعلیم کے لیے بہتر تعلیم کا انتظام کرنا، خواتین کو مزید ایمپاور کرنا اور ان کی جو صلاحتیں ہیں انھیں پروان چڑھانے کی کوشش کرنا، بہار کی صورتحال کے تناظر میں ترقی کو رفتار دینا، عام آدمی کے لیے روزگار اور سرمایہ کاری کے لیے مناسب مواقع فراہم کرنا جیسے عملی اقدامات کے ساتھ جدو جہد کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ پانچ سالوں میں مزید بہتری کی طرف جاسکتا ہے۔
2011-12 میں گجرات حکومت کے جومعاشی اعداد وشمار آئے ہیں اس کے مطابق 10سال میں تقریباً 60ہزار چھوٹی صنعتیں مکمل طور پر بند ہوگئیں ۔ اسی طرح ایف ڈی آئی کے معاملے میں گجرات 5ویں پائیدان پر ہے۔ 1995میں جب پہلی بار گجرات میں بی جے پی اقتدار میں آئی تھی اس وقت اس ریاست پر 10ہزار کروڑ روپے کا قرض تھا۔جب نریندرمودی نے 2001-02میں اقتدار سنبھالا تو 30دسمبر 2012میں ایک لاکھ 38ہزار کروڑ روپے کا قرض ہوگیا اور سرکاری بجٹ جو رواں سال میں پیش کیا گیا ہے اس پر اگر بھروسہ کیا جائے تو اس کے مطابق یہ قرض بڑھکر2لاکھ 7ہزار 695کروڑ ہوگیا ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافہ کے معاملے میں ریاست گجرات 8ویں پائیدان پر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گجرات میں زرعی پیداوار میں 10فیصد اضافہ کا نشانہ کبھی پورا نہیں ہوا۔ گجرات حکومت کی رپورٹ کے مطابق 2005-06سے 2010-11میں 3.44فیصد کی گراوٹ تھی۔ گجرات کے 26ضلعوں کے 225بلاک میں 57بلاک ایسے ہیں جن میں پانی کی بہت کمی ہے انھیں سیاہ زون بتایا گیا ہے۔ مارچ 2011تک زرعی پیداوار کے لیے بجلی کنکشن کی 4لاکھ 8ہزار 55درخواستیں التواء میں تھیں۔ صوبے میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد 44.6فیصد ہے ان میں 70فیصد ناخواندگی پائی جاتی ہے۔ 8ضلعوں کی تین تحصیلوں میں گجرات کے 2494اساتذہ کی جگہ خالی ہے اور گجرات کے 4ضلعوں میں 978ایسے اسکول ہیں جہاں ایک یا دو اساتذہ ہیں۔ 1990-95کے درمیان صحت پر خرچ 4.28فیصد گھٹ کر 2005-10میں 0.77فیصد کے درمیان ہوگیا۔ بچوں کی ناخواندگی کے معاملے میں گجرات ملک میں 15ویں نمبرپر ہے۔ عالمی بھوک نامی ادارے کی 2009کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے ایسے 17صوبوں میں جہاں کھانا نہیں ملتا ہے، اس میں 13ویں نمبر پر گجرات ہے۔ 2001میں غریبی کی شرح 32فیصد تھی جو بڑھکر 2011میں 39.5فیصدہوگئی۔ بینکوں میں اکاؤنٹ رکھنے والوں مسلمانوں کا حصہ 12فیصد ہے۔ گجرات میں اقلیتی بچوں کے لیے 52ہزار 260وظائف مرکزی حکومت کے ذریعہ آئے اس میں 75فیصد اور 25فیصد کے تناسب کے طور پر مرکزی اور ریاستی حکومت کا حصہ تھا۔ گجرات حکومت نے یہ سارا پیسہ واپس کردیا اور مرکز سے دوبارہ کوئی گزارش بھی نہیں کی کہ یہ وظائف دوبارہ بھیجے جائیں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق فسادات کے 1958معاملوں کو دوبارہ شروع کرنے کا حکم تھا تو پولیس نے اس کے برعکس صرف 117معاملوں میں ہی گرفتاریاں کیں جو کل تعداد کا محض 5فیصد ہے۔ گجرات میں نظم ونسق کا عالم یہ ہے کہ ہر تیسرے دن ایک خاتون کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا ہے جبکہ دلت خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کے واقعات 2001کے مقابلے میں 500فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔ (کیا مانجھی جی اور رام ولاس پاسوان جی کے لیے یہ غور کا مقام نہیں ہے) روزگار فراہم کرنے کے معاملے میں یہ ریاست ناکام ہورہی ہے گزشتہ 12سالوں کے عرصہ میں اس کے ذریعہ فراہم کردہ روزگار کی تعداد 0(صفر) ہوگئی ہے۔
بہار کے انتخابات کے لیے اس وقت کئی گٹھ جوڑ وجودمیں آچکے ہیں، ان میں جہاں ایک طرف نتیش کمار، کانگریس اور لالو پرساد یادو کا مہاگٹھ بندھن ہے تو دوسرا بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کا گٹھ بندھن این ڈی اے ہے، تیسرے مورچہ میں سماج وادی اور این سی پی وغیرہ ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین اور آل انڈیا اتحاد ملت کونسل کے علاوہ تقریباً چار درجن سے زائد سیاسی پارٹیاں میدان میں ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ گھمسان کی لڑائی دو مہاگٹھ بندھنوں این ڈی اے اور جنتادل مہاگٹھ بندھن کے درمیان ہی ہونا ہے اور جیسے جیسے الیکشن کا زور بڑھتا جائے گا ، الیکشن کا بخار بھی بڑھتا جائے گا، پسند ناپسند کا اظہار ہونے لگے گا، اپنی اپنی مرضی کے امیدوار اور گروہوں کے سلسلے میں فیصلے کیے جانے لگیں گے ویسے ویسے مختلف قسم کے سیاسی غیر سیاسی کھلے اور چھپے طریقہ کار استعمال ہوں گے۔ ہر طرح کے اخلاقی غیر اخلاقی حربے استعمال ہوں گے۔ اس حربے میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے آزمودہ ہتھیار نفرت کو پھیلانا، مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا، الزام تراشی کرنا، پیسہ گنگا کے پانی کی طرح بہانا، مختلف طبقات کے بیچ اختلافات کو وسیع کرنا اور ہندو مسلم کے درمیان خلیج کو پیدا کرنا اور ذات پات کو اپنے حق میں اچھال کرلانا، دنگے فساد کا ہونا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیوں کو بڑھاوا دینا اور بالخصوص مسلمانوں، دلتوں، آدی واسیوں اور پسماندہ طبقات کے درمیان بے اعتمادی کی فضا قائم کرنا اور ناحق الزام مسلمانوں کے سرمڑھنا ہوگا۔ ان ساری تدابیر کا مقصد ووٹ کو پولورائز کرنا اور اپنے حق میں ووٹ ڈالنے کی کوشش کرنا جہاں جمہوریت سسکتی ہوئی نظر آئے گی۔دستو رہند پر عمل کم سے کم ہوتا چلا جائے گا اور خوف وہراس، حرص ولالچ دونوں کا بہترین استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ عجیب بات ہے کہ جو پارٹی بڑے کرو فر سے باجپئی جی کے زمانے سے یہ کہتی آئی ہے کہ وہ بدعنوانی ختم کرے گی، انصاف قائم کرے گی اور ایک نئے طرز کی حکومت تشکیل دے گی جو بھارت کو مہان بنانے میں مددگار ہوگی وہی بات موجودہ حکومت نے بھی کہی تھی کہ وہ ذات پات کی حکومت نہیں کرے گی، اصول کی بنیاد پر ملک کی ترقی کرے گی، اصول کی بنیاد پر ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ جن دھن یوجنا وغیرہ اور اچھے دنوں کا وعدہ کرتے ہوئے آئی تھی، مگر زیادہ دن نہیں گزرے کہ اس نے بدعنوانی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے اور ویاپم گھوٹالہ، للت گیٹ وغیرہ بدعنوانی نے اس حکومت کے دعویٰ کی پول کھول دی۔ قابل ذکر ہے کہ بی جے پی میں کوئی اور چہرہ موجود نہیں جو الیکشن میں کوئی رول ادا کرسکے۔ صرف مودی جی کا ایک چہرہ ہے چنانچہ وہ پوری طرح انتخابی مہم کو بڑھانے میں مصروف ہیں۔ اس کی وجہ تو یہ بھی ہے کہ خود انھیں اپنے ہی لوگوں پر پورا اعتماد نہیں ، دوسرے عوام بھی ان چہروں پر اعتماد نہیں کرپارہے ہیں اور تیسرے یہ الیکشن ان کے مستقبل اور امیج سے جڑا ہوا ہے۔ اگر کامیابی ملتی ہے تو مستقبل بعید تک یہ ملک کا ایک ایسا چہرہ قرار دیا جائے گا جو عوام کے نہ چاہتے ہوئے بھی عوام کے لیڈر کا چہرہ ہوگا اور اگر ناکامی ملی تو صاحب چہرہ نہ صرف بی جے پی بلکہ آر ایس ایس پر ایک بوجھ ہوجائیں گے۔ اس لیے کرو اور مرو کی پالیسی پر نریندرمودی جی مہم چلائیں گے، دوسری طرف جو تیسرا مورچہ اترا ہے وہ یہ کہتا ہوا نظر آرہا ہے کہ غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی کی بنیاد پر یہ فرنٹ کام کرے گا۔ اس فرنٹ کا دلچسپ حصہ یہ ہے کہ پورے بہار میں اس گروہ کا کوئی مضبوط ڈھانچہ نہیں ہے پھر بھی حسب معمول ہر پارٹی نتائج آنے سے پہلے ہی حکومت بنانے کا خواب دیکھ کر میدان میں اتری ہے اور طارق انور کو مستقبل کا وزیر اعلیٰ پیش کیا جارہا ہے۔ شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ مسلمان بہت ہی بھولا بالا ہے اور یہ اس کی دیرینہ خواہش ہے، اس لیے مسلمان ان تمام نتائج سے بلند ہوکر اپنا ووٹ اسی خواہش کی تکمیل میں ڈال دیں گے، کاش سماج وادی پارٹی(ایس پی) اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتی اور اس گٹھ بندھن کو مضبوط کرتی اور فاشسٹ طاقتوں کر روکنے کے لیے ایک بڑا قدم اٹھاتی تو پورے ملک میں انصاف پسند، کمزور طبقات بشمول مسلمانوں میں ایک شاندار امیج پیدا ہوتی یا اگر ایس پی 2017کے نقطۂ نظر سے کسی مسلمان کو وزیر اعلیٰ بنانے کی خواہش ظاہر کرتی تو اس کڑی میں یہ جڑتی نظر آتی۔
نئی حکومت کے وزیر اعظم نریندر مودی جی نے ملک کو خوبصورت نعرے دئیے جس میں سب کا ساتھ سب کا وکاس، جن دھن یوجنا، اچھے دن، کالی دولت واپس لانا اور اکاؤنٹ میں 15لاکھ جمع ہونے کی بات تو بہت دور کی رہی عملی طور سے ان کی پارٹی کے صدر اور حکومت کے وزراء یہ کہنے لگے کہ یہ سب ہمارے وعدے نہیں ہیں یہ سب میڈیا کی پیداوار ہے یا انتخابی وعدے ہیں۔ الیکشن ہونے جارہے ہیں جو وعدے یہاں کیے جارہے ہیں وہ رائے دہندگان کو بھڑکانے اور انھیں تقسیم کرنے کے لیے ہوں گے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا جیساکہ ایک سال میں کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ اسی وعدہ میں پیاز کے آنسو میں غریب ڈوبتے نظر آرہے ہیں اور دال روٹی خاص کر دال غریبوں کی پہونچ سے دور ہوگئی ہے۔ کوئی کھانے والی اشیاء ایسی نہیں ہے جس کی قیمت آسمان نہ چھورہی ہو اور عام انسانوں کو پہونچ سے دور ہورہی ہے۔ انسانوں کا خون سستا ہوگیا ہے۔ فسادات کی تعداد بڑھتی چلی گئی ہے۔ اقلیات کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں او رموت کے بعد جو جگہ (قبرستان) نصیب ہوتی ہے وہ بھی خطرے سے دوچار ہورہی ہے۔ بھائی چارگی باوجود اختلافات کے قائم رہی لیکن اب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتے دیکھا جارہا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی ترقی کا وہ ماڈل جو امیروں کو مزید امیر بنائے ، غریبوں کو مزید غریب بنائے، ترقی بنام بے روزگاری پیداکرے ، کسانوں کو اپنی جان دینے پر مجبور کرے، بینکوں سے غریبوں کو قرض ملنے میں دشواری پیدا کرے، دلت، آدی واسی، کمزور طبقات اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کا طریقہ کار اختیار کیاجائے تو اسے سبکدوش کردیا جائے یا اسے الزامات کے تحت جیل روانہ کردیا جائے اور جو ایک دو انصاف پسند پولیس آفیسر نے اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کی تو اسے سبکدوش کردیاگیا یا اسے الزامات کے تحت جیل روانہ کیا گیا، ایسی صورت میں کیا بہار کے لوگوں کے لیے یہ ماڈل نمونہ کا ہوسکتا ہے؟

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home