بی جے پی حکومت کا دوسالہ سفر، عدم رواداری سے سب کا وکاس تک
ڈاکٹر محمد منظور عالم
مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے دو سالہ مدت مکمل کرلی ہے۔اس موقع پر حکومت کے مختلف محکموں کی جانب سے اپنی کارکردگی کو پیش کرکے یہ بتانے کی کوشش ہورہی ہے کہ حکومت نے کیا کچھ کیا ہے۔ چونکہ کارکردگی پر مبنی کتابچوں کو ایک ہفتہ بعد جاری کیا جائے گا اس لیے اس کا جائزہ تو اسی وقت ممکن ہے البتہ آئین ہند کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے حکومت کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو یقیناًاس سے کسی حد تک تصویر صاف ہو جاتی ہے اور حکومت کا موقف بھی سامنے آجاتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ حکومت دستور کے تحت ہی وجود میں آئی ہے اور اس کے وزراء نے اسی آئین کا حلف اٹھاتے ہوئے اس کی پاسداری کی یقین دہانی کرائی ہے۔
دوسال کے عرصہ میں جہاں عدم رواداری کا معاملہ چھایا رہا وہاں مسلمانوں سے بھید بھاؤ اور تعصب کا سلسلہ بھی چلتا رہا حتی کہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی کافی ابتر رہی اور قصوروار دندناتے پھرتے رہے کیونکہ انھیں قانون کا کوئی خوف نہیں تھا جبکہ بے قصوروں کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہوتا گیا۔ انتخابات کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے، اچھے دن ان کے لیے آئے جنھوں نے اس ملک کو لوٹ کر اپنی تجوریوں کو بھرا جس کے نتیجہ میں بینکوں کی صورتحال کافی خراب ہوگئی ہے اور ملک کی اقتصادی شرح بڑھنے کے بجائے گھٹنے لگی۔ سبھی سماجی اسکیموں بشمول صحت اور تعلیم جیسے عوامی شعبوں کے بجٹ میں کٹوتی کردی گئی۔ ایسوچیم کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کئی صنعتوں میں نوکریوں میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں بے روزگاری بڑھی اور غریبی میں اضافہ ہوا، رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کردی۔ اس لحاظ سے حکومت کی دوسالہ کارکردگی کو کسی نقطۂ نگاہ سے کامیاب قرار نہیں دیاجاسکتا اور ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ صرف ایک سیاسی ہتھکنڈہ بن کر رہ گیا جس کے ذریعہ سب کے وکاس کی بات تو کہی گئی لیکن اس کا فائدہ صرف برہمن وادی لابی کو ہی ہوا۔ آئین ہند کا ابتدائیہ پانچ بنیادی اجزاء پر مبنی ہے۔ یہ اجزاء انصاف، آزادی، برابری، بھائی چارہ اور سیکولرازم پر مبنی ہے۔ اس کے تحت آئین نے در اصل سماجی ڈھانچے کی ہیئت ترکیبی کو اجاگر کیا ہے۔ ملک میں کثرت میں وحدت کا فلسفہ اسی وقت پروان چڑھ سکتا ہے جب ابتدائیہ کے ان پانچوں اجزاء پر عمل در آمد ہو۔ چونکہ یہ کام حکومت کی ذمہ داری میں شامل ہے اس لیے یہ توقع کی جاتی ہے کہ جو حکومت بھی اقتدار میں ہوگی وہ اس پر عمل کرکے آئین ہند کو مضبوط کرے گی کیونکہ اسی بنیاد پر اس نے اقتدار حاصل کیا ہے۔ اس حوالے سے جب ہم مرکزی حکومت کی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہیں تو دیگر حکومتوں کے مقابلے یہ الگ نظر آتی ہے۔ اس حکومت نے آئین کی دہائی دینے کے باوجود ایسے کام انجام دیے جو آئین کی روح کے منافی ہونے کے ساتھ اسے کمزور کرنے والے تھے۔ 26مئی 2014کو اقتدار پر قابض ہونے سے قبل 2014کے دہلی اسمبلی انتخاب کے موقع پر بی جے پی کی رکن سادھوی نرنجن جیوتی نے عوامی میٹنگ میں سماج کو تقسیم کرتے ہوئے بیان دیا کہ ’’ایک طرف رام زاد ے تو دوسری طرف ۔۔۔۔۔۔‘‘ہیں۔ یہ ایسے جملے تھے جنھیں کوئی شریف آدمی بولنا پسند نہیں کرتا ہے لیکن بی جے پی رکن اور ایک سادھوی نے کھلے عام اس کا اظہار کیا جس پر پارٹی کی جانب سے کسی طرح کی شرمندگی کا بھی اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی انھیں یہ سبق دیا گیا کہ اختلاف رائے کو ظاہر کرنے میں آداب اختلاف کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ البتہ کچھ لیڈروں نے اس بیان پر لیپا پوتی کرنا شروع کردی جیسا کہ اس طرح کے مواقع پر اکثر وبیشتر ہوتا ہے۔ مسلم مخالف بیان کی یہ روش بے لگام رہی کیونکہ حکومت نے ان پر کسی طرح کا قدغن نہیں لگایا جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ اس طرح کے بیانات کی لائن لگ گئی اور ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا نظر آنے لگا۔ ان میں ساکشی مہاراج، آدتیہ ناتھ یوگی، گری راج سنگھ، کملیش تیواری، سبرامنیم سوامی اور پروین توگڑیاوغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ایک جانب ’لوجہاد‘ اور ’گھرواپسی‘ جیسے نعروں کے ذریعہ ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو دوسری جانب پروین توگڑیا جیسے لوگوں نے مسلمانوں کو اکثریتی کالونی میں مکان دینے سے منع کرنے کا فرمان جاری کردیا حتی کہ جب کچھ مسلمانوں نے گجرات کی اکثریتی سوسائٹی میں مکان خرید لیا تو ستاکر انھیں خالی کرانے کا گُر بھی بتایا لیکن حکومت کی جانب سے ان کے اس طالبانی فرمان پر کوئی گرفت نہیں کی گئی۔ بی جے پی رکن اسمبلی سریش رانا پر مظفر نگر میں اشتعال انگیز تقریر کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہواجس کی وجہ سے فرقہ وارانہ فساد ہوا، کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اس کے برعکس انھیں زیڈ پلس سیکورٹی فراہم کردی گئی۔ اس سے قبل وزیر اعظم نریندرمودی نے لمبی خاموشی کے بعد اپنے لب کھولے او رکہا کہ کسی بھی مذہب کے خلاف تشدد ونفرت پھیلانے ولوں کے خلاف کارروائی کی بات کہی لیکن سماج کو تورنے والی بیان بازی اور سریش رانا کے ’انعام واکرام‘ پر خاموش رہے۔ یقینی طور پر یہ ایک تضاد ہے جس کے ذریعہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ مغربی بنگال بی جے پی صدر دلیپ گھوش کا یہ فرمان کہ ’’جو بھارت ماتا کی جے نہ بولے اسے ڈیڑھ فٹ چھوٹا کردیا جائے‘‘ اتنا ہی نہیں بلکہ بھٹکل سے بی جے پی ایم پی اننت کمار ہیگڑے کے ذریعہ پریس کانفرنس میں اسلام کو دہشت گردی کی جڑ بتانا اور پارٹی وحکومت کا اس پر خاموش رہنا شکوک وشبہات پید اکرتا ہے۔آگرہ میں وزارت فروغ وسائل انسانی کے وزیر مملکت شنکر کٹھیریا کے ذریعہ مسلمانوں سے فائنل لڑائی کی خبریں میڈیا میں آنے کے باوجود بی جے پی کی طرف سے انھیں کلین چٹ دیا جانا سوالات کو پیدا کرتا ہے۔ آر ایس ایس جنرل سکریٹری بھیا جی جوشی کا بیان ’’ترنگا قومی جھنڈانہیں بھگوا قومی جھنڈا ہے اور قومی ترانہ جن گن من نہیں بلکہ وندے ماترم ہے‘‘۔ ہندو سوابھیمان تنظیم کے ذریعہ کھلے عام اسلحہ کی ٹریننگ دینا اور اس کی نمائش کرنا، یہ ایسے واقعات ہیں جو اس حکومت کی کتھنی اور کرنی کو واضح کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینے میں روزے دار کو زبردستی کھانا کھلاکر اس کے روزہ کو تڑوایا گیا۔ یہ سب ملک کے کسی دور دراز علاقے میں نہیں بلکہ اسی دہلی کے مہاراشٹر سدن میں مسلم باورچی کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ گوشت پر پابندی لگنے کے ساتھ ہی کچھ بی جے پی اراکین پارلیمنٹ بھی یہ کہنے لگے کہ گوشت کھانا ہے تو پاکستان چلے جاؤ۔ مدراس میں واقع آئی آئی ٹی کے طلباء مرکزی حکومت کے ذریعہ گؤ کشی پر پابندی کو لے کر وہاٹس ایپ گروپ شیئر کررہے تھے لیکن وزارت فروغ وسائل انسانی نے اس کو برداشت نہیں کیا اور اس ادارے کے ڈائریکٹر کو خط بھیج کر اس پر قدغن لگانے کا حکم صادر کیا۔ اس طرح احساسات و خیالات کو شیئر کرنے پر پابندی لگاکر حکومت نے غیر جمہوری کام کیا جو کہ تنقیدی سوچ اور تصور کو پابند سلاسل کرتا ہے جبکہ ڈیموکریسی کی پہچان ہی اس کی صحت مند تنقید سے جڑی ہوتی ہے۔ گوشت کے نام پر قانون اور انتظامیہ کو درکنار خود سے سزا دینے کی ایک نئی روایت نے جنم لیا۔ پونے میں ایک مسلم طالب علم کا قتل اور دادری میں اخلاق بشمول جھارکھنڈ میں دو دیگر مسلم نوجوانوں کو گوشت کے الزام میں پیٹ پیٹ کر مارڈالنے کے واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان معاملوں میں گوشت کی موجودگی کو لے کر پولیس میں کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی گئی اور نہ ہی قانون کو اپنا کام کرنے دیا گیا اس کے برخلاف بھیڑنے خود ہی سزا دینے کا فیصلہ کیا جبکہ یہ بات جانچ سے سامنے آگئی کہ دادری کے گھر میں ملا گوشت گائے کا نہیں تھا اور بالغرض اگر تھا تو کیا بھیڑ کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار ہے کیا اس سے قانون کی بالادستی قام ہوتی ہے یا پھر اس سے برسر اقتدار گروپ کا فکری ونظریاتی بنیادوں پر تشدد کا اظہار ہوتاہے۔ یہ صورتحال یقیناًتشویشناک ہے اس طرح کے واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو اس حکومت کے زمانے میں شروع ہوئے اور جس کے ذریعہ سماج میں بھائی چارگی، مساوات اور برابری کے آئینی تصور کو ختم کرنے کی دانستہ کوشش کی گئی لیکن حکومت یا سنگھ کے ذمہ داروں نے اس پر لگام لگانے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا جس کی وجہ سے سماج رواداری سے عدم رواداری کی جانب چل پڑا۔ صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف وزیر اعظم اور وزیر داخلہ یہ بیان دیتے کہ مسلمان آئی ایس آئی ایس جیسی دہشت گرد تنظیم میں شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے ملک کے دستور پر پورا بھروسہ ہے تو دوسری جانب اسی حکومت کی جانچ ایجنسیوں کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کو اٹھایا جاتارہا۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی طلباء یونین کے ذریعہ چھڑی بحث میں ’راشٹرواد ‘کی ایک نئی تعبیر پیش کی گئی وہ یہ کہ جو برہمن واد کے خلاف بولے گا وہ ’دیش دروہ‘ کا مجرم مانا جائے گا بالفاظ دیگر اس اصطلاح کو امریکا کے صدر جارج بش کے ان الفاظ کی طرح استعمال کیا گیا جس میں بش نے دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں آپ یا تو ہمارے ساتھ دیں یا پھر دہشت گردوں کے ساتھ۔ کچھ ایسا ہی ماحول یہاں کے فرقہ پرستوں نے بنایا۔ بابارام دیو جیسے سنت یہ کہنے لگا کہ ’’اگر قانون کا خوف نہ ہوتا تو بھارت ماتا کی جے نہ کہنے والوں کے ہزاروں سرکاٹ دیتا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ بھار ت ماتا کی جے نہ کہنے پر یہ اختیار کس نے بابا رام دیو کو دیا، کیا قانون کی حکمرانی ختم ہوگئی ہے جو انفرادی طور پر سزا دینے کی بات کی جارہی ہے۔ در اصل برہمن واد کی یہ وہی ذہنیت ہے جس نے سماج کے کمزوروں، دلتوں، آدی واسیوں اور اقلیتوں کو ان کے حق سے محروم رکھا اور زیادتیوں کو دھرم کے ذریعہ تحفظ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ملک کا سیکولر آئین منظور نہیں ہے کیونکہ اس میں سبھی شہریوں کو برابر کے حقوق واختیارات دیے گئے ہیں جبکہ ان کی منشاء سماجی طور پر تفریق اور بھید بھاؤ پید اکرنے کی ہے تاکہ برہمن واد کا غلبہ برقرار رہے۔ عدم رواداری اور بھید بھاؤ کے سبب آج صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ جب ایک مسلم نوجوان سونی ٹی وی کے ڈائریکٹر سے نوکری کے لیے درخواست کرتاہے تو اس کا جواب ہوتا ہے کہ ’’ہم کسی مسلم کو نوکری نہیں دیتے ہیں کیونکہ وہ دہشت گرد ہوسکتے ہیں‘‘۔ یہ ذہن کس سماج کی عکاسی کرتا ہے کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے طاقت کے نشہ میں جس طرح اتراکھنڈ کی منتخب حکومت کو برخاست کر صدرراج نافذ کیا اس پر سپریم کورٹ نے سرزنش کی اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے وزیر قانون ارون جیٹلی نے عدلیہ کو ہی نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ کام کرنے میں رکاوٹ پیدا کررہی ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک مختصر وقفہ کے بعد دوبارہ عدلیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ سوال یہ ہے کہ آئین کی حفاظت کی ذمہ داری عدلیہ پر بھی ہے اگر وہ اس میں کسی طرح کی کوئی کمی محسوس کرتی ہے تو وہ اس کے تحفظ کو یقینی بنائے گی لیکن موجودہ حکومت کے رویہ اور اب تک کی کارکردگی کے جائزہ سے صاف ہے کہ اسے ملک کا سیکولر آئین پسند نہیں ہے۔ آئین کی بنیاد انصاف ہے لیکن اس کے ساتھ جس طرح کھلواڑ ہورہا ہے اس کا واضح ثبوت دہشت گرد ی کے معاملوں میں گرفتار سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ودیگر 6ملزمان کو کلین چٹ دینا ہے۔ اگر یہ لوگ بے قصور ہیں تو پھر ان بم دھماکوں کا قصور وار کون ہے؟ ذہن میں رہے کہ جب ہیمنت کرکرے نے ان بھگوا دہشت گردوں کو گرفتار کیا تھا تو اس کے بعد ہی سے سیریل بم دھماکوں کا سلسلہ رک گیا تھا، بعد میں سرکاری وکیل روہنی سالیان نے یہ انکشاف کرکے خبردار کردیا تھا کہ این آئی اے ان سے ان لوگوں پر نرمی برتنے کے لیے کہہ رہی ہے شاید اسی بنیاد پر کسی نے لکھا ہے کہ مہاتما گاندھی کے قتل کی جانچ این آئی اے سے کرائی جائے کیاپتہ گوڈ سے بھی بے قصور ثابت ہوجائے۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |