ہندستانی آئین اور موجودہ مرکزی حکومت
ڈاکٹر محمد منظور عالم

جمہوریت کی تشریح میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ فاردی پیوپل، آف دی پیوپل اور بائی دی پیوپل کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ ان تینوں الفاظ میں فار ، آف اور بائی کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ملک کا ہر وہ باشندہ جو ووٹ ڈالنے کے دائرے میں آتا ہے وہ ملک کی سالمیت، اس کی ترقی اور اس ملک میں رہنے والے باشندوں میں امن وآتشتی، باہمی تعلقات وروابط، تہذیبی اکائی کی اپنی شناخت کے ساتھ اور اس ملک کی جو مشترکہ تہذیب ہے اس کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے کے لیے حکومت سازی کے واسطے ووٹنگ کے دئے گئے اختیار کا استعمال کرتا ہے تاکہ اس کے اندر وسعت پیدا ہو۔ جب جمہوری نظام قائم ہوتاہے تو دستور کی روشنی میں انتخاب کے ذریعہ دھیرے دھیرے ایک روایت قائم ہوتی ہے جو دستور کی روح مانی جاتی ہے جہاں دستور کے ذریعہ عوام کے نمائندے منتخب ہوکر آتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نفرت کو مٹانے، محبت کو بڑھانے، آپسی لڑائی جھگڑے کو ختم کرنے اور بھائی چارگی کو پروان چرھانے، دستور کی حفاظت اور ملک کے ہر باشندے کے لیے دستور سے رہنمائی حاصل کرکے اچھے قوانین کو لانے اور قانون کی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے حکومت سازی کی جاتی ہے۔
جہاں بھی انسانی سماج یا معاشرہ ہوتا ہے وہاں اختلافات فکر، آپسی تکرار، سماجی تناؤ، تہذیبی اکائیوں کی کشمکش ، انسانی اور مذہبی اقلیتوں میں ایک طرف اکثریت کا خوف اور تناؤ فطری طور پر پایا جاتا ہے۔ اسی لیے جمہوری طرز کی حکومت قائم کی جاتی ہے۔ جہاں ساری اکائیوں کو خواہ وہ تہذیبی، لسانی، مذہبی، لادینی یا غیر مذہبی ہوکو دستور میں مناسب انداز سے حکومت کی طرف سے کسی کی طرف داری، ترجیح اور ناانصافی نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ ہندستان میں بھی آزادی کے60سالوں کے باوجود دستور کے عین مطابق کام نہیں ہوسکا۔ دستور کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں،قانون کے خوف اور احترام میں کمی آئی مگر ایک روایت یہ قائم ہوئی کہ ملک کے ہر شہری کو یہ یقین رہا کہ جب تک دستور اور عدلیہ قائم ہے، اس وقت تک ہمارے ملک کا ارتقا، خواہ تعلیمی ہو یا اقتصادی، سماجی ہو یا تہذیبی، قانونی ہو یا عدلیہ میں اس ملک کا ہر شہری شریک ہوتا ہے۔ 2014کے عام انتخابات بھی اسی دستور کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی نگرانی میں ہوئے، لیکن اس الیکشن میں دستور کی روح کے منافی بے شمار کام ہوئے اس کے باوجود انتخابات الیکشن کمیشن کے بنائے ضابطہ کی روشنی میں منعقد ہوئے جس کے نتیجہ میں آر ایس ایس نے اپنی پارٹی بی جے پی کو کامیابی سے ہمکنار کرایا اور نام نہاد این ڈی اے کا قیام وسیع تر پیمانے پر عمل میں آیا اور 26مئی کو حکومت کی تشکیل ہوئی۔
یقینی طور پر عوام کے مینڈیٹ جو 69فیصد تقسیم ووٹ اور 31فیصد یکجا ہونے کے نتیجہ میں بی جے پی اور این ڈی اے کو بڑی کامیابی ملی۔ باوجود اس کے کہ کمزور طبقہ خواہ دلت ہو، او بی سی ہو یا اقلیت سبھی کو اس بات کا خوف تھا کہ دوران الیکشن جس طرح کے خوف وہراس کا ماحول قائم کیا گیا اور فرقہ وارنہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سیکولر پارٹیوں میں اپنے وجود کی لڑائی کے لیے ووٹ تقسیم ہوا اور مسلمانوں کے اندر کنفیوژن کے نتیجہ میں ووٹ منتشر ہوا پھر بھی یہ یقین تھا کہ جو روایت اس ملک میں 60/65سالوں میں قائم ہوئی ہے۔ اس روایت کی روشنی اور دستور کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت اپنا کام کرے گی اور جو انصافیاں، نفرت کی شدت اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے افراد کو گرفت میں لانے کی کوشش کرے گی مگر تین ماہ کے اندر یہ بات سامنے آنے لگی کہ وہ افراد جن پر بھیانک اور سنگین قسم کے الزامات لگے ہوئے ہیں اور جن پر مقدمہ بھی چل رہا ہے، ان کو وزارت کے عہدے سے نوازا گیا، ان کو سیاسی پارٹی کا صدر بنایا گیا اور مختلف میدانوں میں انھیں عہدوں سے نوازا گیا۔ آر ایس ایس اور ا سکی بنائی ہوئی مختلف تنظیمیں اور ان سے متاثر ہوکر دیگر جو تنظیمیں وجود میں آئیں ان کے اندر وحشیانہ ولولہ پیدا ہوا اور کمزور طبقات دلت، اقلیت اور بالخصوص مسلمان ہر طرح کے سنگین حالات سے گزرنے لگے۔ قانون اس قدر بونا ہوتا چلا گیا کہ آر ایس ایس کے معمولی سے معمولی ورکر پولیس کے بڑے بڑے آفیسر کو خائف کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں اور بڑی دلیری سے قانون اور دستور کی دھجی ادھیڑی جارہی ہے مگر حکومت خاموشی اختیار کرکے ان لوگوں کو تقویت دے رہی ہے نہ کہ ان لوگوں کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش ہورہی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہماراملک جمہوری پارلیمنٹری سسٹم کے تحت کام نہیں کررہا ہے بلکہ صدارتی انداز اختیار کیے ہوئے ہے جہاں کوئی وزیر اپنے عہدہ کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے خود کفیل نظر نہیں آرہا ہے بلکہ اسے کسی بھی لمحے وزیر اعطم کے ذریعہ بے بس کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ تین مہینے میں اس کی بے شمار مثالیں سامنے ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ہٹلر نے بھی پارلیمنٹری نظام کو اختیار کرکے پاور اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے سامنے خود اس پارٹی کے بڑے لوگ بے بس ہوتے چلے گئے، مخالفین کمزور ہوتے چلے گئے، میڈیا کے بل بوتے دن کو رات اور رات کو دن بنانے کی کامیا ب کوشش ہوتی رہیں اور سرمایہ داروں کو ان کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ انھیں مدد کرتی رہیں۔ جہاں غربت کو ہٹانے کے بجائے غریب کو ہٹانے کی مہم چلی اور ان لوگوں کو جنگ کا ایندھن بننے پر مجبور کیا گیا اور نفرت کی شدت اتنی بڑھی کہ یہودی نسل کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور دوسری جنگ عظیم کی شکل میں تبدیلی آگئی ۔
جمہوری طرز میں حکومت عوام کی ، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعہ قائم ہوتی ہے۔ وہ اپنے عوام کی ترقی اور فلاح وبہبود کے تئیں جواب دہ ہوتی ہے۔ جو اس معیار پر پوری اترتی ہے وہ بہترین جمہوریت کہلاتی ہے۔ مگر ایک ایسی حکومت جو ایک خاص ذہنیت کے ساتھ آئی ہے تو وہ سب سے پہلے جمہوریت کی روح کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے جیسا کہ جارج بش دوم نے اپنے ملک امریکا اور یورپ کے عوام کے جذبات نیز ساری سائنٹفک انفارمیشن کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور آج تک اس جنگ کی آنچ اور اس کی تپش سے مڈل ایسٹ نکل نہیں سکا ہے۔ ایسی مثالیں حکومت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ ہمار ملک مستقبل میں عدل وانصاف، بھائی چارگی، نفرت سے آزاد، ہر ایک کو آگے بڑھنے کا موقع، شناخت کی ترقی کے موقع کی ایک مثالی حکومت بنے یا ماضی میں دوسری جنگ عظیم کے نقش قدم پر چلے یا حال میں جارج بش کے طریقے پر چلے۔ ان دونوں طریقوں پر چلنے سے وہاں کی عوام تباہ وبرباد ہوتی ہے۔ عوام کا اعتماد ایک دوسرے پر ختم ہوتا ہے۔ عوام مصیبت کی چکی میں بالخصوص کمزور لوگ پسے جاتے ہیں اور حکومت اس کی پرواہ نہیں کرتی کہ مستقبل میں اس کے اثرات ملک پر کیا پڑیں گے۔ ملک کے عوام کے ساتھ کیا ہوگا؟ پڑوس کے ساتھ تعلقات کا کیا ہوگا؟ دنیا میں ہمارا کیا مقام ہوگا؟ تاریخ سے سبق لینا اچھے حکمرانوں کی پہچان مانی جاتی ہے۔ طاقت کے نشے میں عبرت کی نگاہ کے بغیر طاقت کا استعمال غلط عناصر کو بڑھاوا ملک کے لیے کبھی مفید نہیں ہوتا۔ آج ضرورت ہے کہ ہماری حکومت اس بات پر غور کرے کہ فلسفہ دستور ہند جس کے دیباچہ میں یہ پہلو دیا گیا ہے وہ اس ملک کے لیے مفید ہے یا اس کا پامال کرنا اور ایک خاص فلسفہ جو منواسمرتی سے جنم لیتا ہے کو قائم کرنا زیادہ مفید ہے۔
آج دنیا جن حالات سے گزررہی ہے جہاں امریکا کی قیادت گرتی جارہی ہے اس کی گرفت جنگ چھیڑنے کے نتیجہ میں کمزور ہوتی جارہی ہے او رپوری دنیا کے اندر انسانیت ایک بے بسی کے مقام پر پہنچ رہی ہے، بیروزگاری بڑھ رہی ہے، انسان، انسان کو غلام بنانے کی کوشش کررہا ہے، انسانوں کا استحصال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے، تہذیبی اکائیوں کی لڑائیاں تیز تر ہوتی جارہی ہے، کسی کا کسی پر بھروسہ کم ہوتا جارہا ہے ایسے حالات میں باپو کا فلسفہ عدم تشدد انسان کو ترقی دینے اور اپنے شہریوں کی ضرورت کو پورا کرنے کی حرص ولالچ کی جگہ انسان کو بنانے کے بجائے ایک نیا مشعل راہ بنانے کی ضرورت نظر آتی ہے۔ اگر ہمارا ملک اور ہماری حکومت اس فلسفہ حیات، فلسفہ حکومت اور فلسفہ دستور کی روح کو اختیار کرے تو آنے والی دہائیوں میں ہمارا ملک دنیا کے لیے نمونہ بن سکتا ہے اورمثالی بن کر رہنمائی کرسکتا ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ انسانیت کو فروغ دینے کا جذبہ پیدا ہوجائے اور حکومت کو طاقت کانشہ نہیں ہو بلکہ حکومت عوامی فلاح کا نمونہ بن جائے تو شاید 21ویں صدی کی کایا پلٹ ہوسکتی ہے۔ آئیے ہم سارے ہندستانی خواہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں، کسی خاص فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، عام آدمی ہوں یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں، بڑی سوچ کے مالک ہوں یا روزی روٹی کمانے والے یہ سب مل کر اس پر غور کریں کہ ہمارا ملک اعلیٰ نمونہ بنے یا مستقبل کی تاریخ میں ایک ’تاریک دور‘ کے نام سے پکارا جائے۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home