فرقہ وارانہ ذہنیت اور سوچ سے دستور کو لاحق خطرات
ڈاکٹر محمد منظور عالم
جمہوریت کو قائم ودائم رکھنے اور اس کی ترقی نیز مختلف مراحل سے گزارنے، انسانی ضروریات کی تکمیل، انسانی خواہشات اور اچھی حکمرانی، دنیا کی تبدیلی کے تناظر میں شہری، انفرادی اور اجتماعی حقوق میں تبدیلی کے تناظر میں اپنے اپنے رول کو ادا کرنے کے لیے جمہوریت نے تین ستون قائم کیے ہیں۔ جسے ہندستانی دستور میں مناسب انداز میں رکھا گیا ہے۔ اس کا ایک ستون مقننہ، دوسرا تنفیذ اور تیسرا عدلیہ ہے۔ یہ تینوں ستون ایک دوسرے سے مربوط ہیں ایک دوسرے کو مدد پہونچاتے ہیں اور ایک دوسرے کے کاموں کو بہتر ڈھنگ سے آگے بڑھاتے ہیں۔ ان تینوں کی اہمیت کو جتانے یا اس کے نقص کو بیان کرنے کے لیے غیر تحریری ستون میڈیا ہے۔
مقننہ میں جو طاقت ہے اس طاقت کو عوام کے ہاتھوں میں پہونچانے کے لیے عوامی نمائندوں کے ذریعہ پارلیمنٹ اور قانون ساز کونسل چاہیے، تاکہ جو اراکین عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر پنچایت، اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پہونچیں وہ نمائندے پارلیمنٹ کے اندر عوام کی فلاح وبہبود، تہذیبی اکائیوں کو مضبوط کرنے کے لیے عوامی سطح پر جو تانا بانا ہے اس کو مستحکم کرنے اور ملک کی ترقی میں عوام کو شامل کرنے نیز عوام کی دشواریوں کو دور کرنے کے لیے یہ قانون سازی کرتے ہیں اور جو قانون بنتے ہیں اس پر عملد رآمد کے لیے انتظامی مشنری کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا کے اندر جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں ان میں بد عنوانی سر فہرست ہے۔ دیگر جو جرائم ہیں اس کے ذریعہ تمام حقوق پامال ہورہے ہیں۔ قاتل مقتول کی شکل میں، ظالم مظلوم کی شکل میں ان تمام حیلے بہانے کو اختیار کرتے ہوئے عوام کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے کبھی ذات برادری، کبھی مذہب کے نام پر کبھی اکثریت کے نام پر تو کبھی اقلیت کو خوفزدہ کرنے کے لیے مہم چلائی جاتی ہے کہ اقلیت سے ملک کی اکثریت کی سوچ اور عقیدہ خطرے میں ہے۔ اس کے نام سے کبھی نفرت کو پھیلاکر کبھی زہر کو پھیلا کر کبھی چھپے اور کبھی کھلے انداز میں میڈیا کے سہارے ایسے افراد کو منتخب کرکے بھیجنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جہاں جمہوریت اور قانون سازی کی روح، عوامی مفاد اور عوامی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں حتی کہ سنگین جرائم کے لو گ بھی نمائندگی کے لیے کامیاب ہوکر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں پہونچ جاتے ہیں اور ایسے افراد کا پورا دھیان مفاد اعظم کے بجائے انفرادی فائدے اور تحفظ پر رہتا ہے جس کی نتیجہ میں دستور کی جو من وعن روح ہے تنفیذ کے ذریعہ اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ اس روح کے خلاف اس کو تباہ وبرباد کرنے کے لیے جو بھی ان لوگوں کی سمجھ میں آتا ہے ا سکے مطابق قدم اٹھاتے ہیں۔ کوئی بھی قانون خواہ کتنا ہی بہتر کیوں نہ ہو، کتنا ہی اعلیٰ وارفع مقاصد کے لیے کیوں نہ تیار کیا گیا ہو، کتنا ہی اعلیٰ وجمہوری اقدار کو بڑھانے کے لیے کیا گیا ہو، کتنا ہی انسانیت کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا ہو، کتنا ہی تعصب کے دھارے کو روکنے کے لیے کیا گیا ہو، نفرت اور زہر کو گھٹانے، بھائی چارگی کو بڑھانے، مذہبی اکائیوں کے اندر بہتر روابط قائم کرنے اور خواتین وبچوں کی عزت وآبرو اور ان کے ناموس کی حفاظت کے لیے ہو یہ قوانین منشائے دستور اور منشائے قانون دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اگر اسے صحیح طور سے تنفیذ نہ کیا جائے۔ اسی لیے جمہوریت میں تنفیذی قوت کو ایک مستقبل جگہ دی ہے جسے Executiveقوت کہتے ہیں۔ یہ قوت صرف دستور اور قانون کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انصاف کے لیے کام کریں اور اس پر کسی طرح کی آنچ نہ آنے دیں۔ تمام تفتیش اور تحقیق کسی تحقیق کے بغیر اور کسی ذات برادری کے جھکاؤ کے بغیر کسی مذہبی رجحان کو پید اکیے بغیر تمام معاملات چاہے وہ ترقی، تعلیمی اور اقتصادی ہوں ان تمام پہلوؤں پر انتظامی مشنری اسی روح کے ساتھ عمل کرے اور اسی لیے یہ اہم ترین حصہ ہے۔ دستور کے ذریعہ جو کٹیگری بنائی گئی ہے اس میں جانچ ایجنسی ہو، بیوروکریٹس ہوں، پولیس یا پیراملٹری فورس ہو خواہ چھوٹی چھوٹی پنچایت ہو یا میونسپل کارپوریشن، پورے ملک میں وہ ایک دوسرے سے جڑنے اور اعلیٰ وارفع اقدار کو مضبوط کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں تاکہ د ستور اور قانون کی جہاں حفاظت ہو وہاں قانون کا حترام اور خوف ہو۔ اس کے نتیجہ میں انصاف کا راستہ آسان اور عام انسانوں تک پہونچ سکے۔ تیسری اہم اکائی عدلیہ ہے۔ عدلیہ ان دونوں پر جہاں نگاہ رکھتی ہے وہاں عدلیہ کے کام میں کسی طرح کی رکاوٹ کھڑی نہ ہو اس کے کام کاج کو آگے بڑھانے، انصاف فراہم کرنے اور انصاف کے طریقہ کو آسان بنانے، انصاف پر اعتماد قائم رہنے اور عام انسانوں کا عدلیہ کا پورا احترام اور اعتماد کا قائم ہونا ضروری ہے۔ عدلیہ کے ساتھ قانون سازی اور انتظامی مشنری لازم وملزوم ہیں۔ ان دونوں پر انصاف کی نگرانی اور ان لوگوں کے طریقۂ کار پر بھی نگاہ رکھنا لازمی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا قانون سازی کے مرحلے میں ایسے لوگ جن پر سنگین الزام عائد ہیں وہ اس کے ممبر بن چکے ہیں اور نہ صرف ممبر بلکہ وزارت کے منصب پر بھی فائز ہوچکے ہیں اور وزیر کی باگ ڈور ان کی زیر نگرانی چل رہی ہے۔ نہ صرف وزیر بلکہ وزیر اعطم پر بھی لوگوں کا یہ الزام پایا جارہا ہے کہ ان پر بھی سنگین الزامات ہیں۔ اگر ان لوگوں کو اس بات کا اختیار دیا جائے کہ عدلیہ کے اندر کیسے اور کس طرح کے جج آئیں گے تو وہ جج ان حضرات کی مرضی کے مطابق آئیں گے یا انصاف پسند ججوں کو لانے کی کوشش ہوگی۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسے افراد جن پر سنگین الزامات ہیں وہ پسند کریں گے کہ ایسے جج آئین جو انصاف کے لیے معروف ہیں ، ان کا جھکاؤ کسی خاص آئیڈیالوجی یا کسی خاص مذہبی فکر سے اس حد تک متاثر نہیں ہے کہ انصاف لکھتے وقت ان کا جھکاؤ مذہب کی طرف مائل بہ کرم نظر آئے۔ سوال یہ بھی ہے کہ وہ تمام جانچ ایجنسی اور تنفیذی قوت جو اوپر سے لے کر نیچے تک خواہ بیورو کریٹ، پولیس یا دیگر ایجنسی ہو، وہ سارے جج جو انصاف کرنا چاہتے ہیں، انصاف کے عمل کو مضبوط کرنا چاہتے ہوں۔ انصاف کے لیے دستور کی روشنی میں طرف داری سے بلند ہوکر کسی نظریہ کی طرف کوئی جھکاؤ رکھے بغیر کسی اکائی کی طرف چاہے وہ مذہبی، لسانی، علاقائی وغیرہ ہو، کیا ایسی صورت میں انصاف کرسکتے ہیں جہاں قانون سازی میں اکثریت ایسے افراد کی ہو جو ایک خاص رجحان اور نظریہ کے حامل ہیں اور انصاف کی جتنی بھی جانچ ایجنسی ہیں، کہاجاتا ہے کہ اس کی اکثریت آر ایس ایس کے نظریہ سے متاثر ہے جس کی نتیجہ میں وہ تمام چیزوں سے آزاد ہوکر تحقیق کریں جس کا اندیشہ ہے کہ وہ تحقیق کے معیار کو قائم نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کا رجحان مخصوص آئیڈیا لوجی سے متاثر ہے جیساکہ مختلف ذرائع سے خبریں آتی ہیں کہ وہ جانچ ایجنسی اقلیتوں بالعموم اور مسلمان بالخصوص کے بارے میں ان جانچ ایجنسیوں کی رائے اکثر وبیشتر متعصبانہ رویہ پر قائم ہے تو عدلیہ یا ہمارے جج خواہش کے باوجود پولیس اور جانچ ایجنسی کے ذریعہ فراہم کی گئی رپورٹ یا اس کی جانچ اور دیگر محکمہ جات کی رپورٹ کی روشنی میں اقلیتوں بالعموم اور کمزور طبقات بالخصوص مسلمانوں کو انصاف مل سکتا ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ سارے اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی دستور کی قسم کھاتے ہیں حلف لیتے ہیں اور دستور کا ابتدائیہ جہاں انصاف، برابری، بھائی چارگی، آزادی اور سیکولرازم پر زور ڈالتا ہے۔ مگر ان پانچوں ستون کی نہ صرف عملی طور پر اس کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ علی الاعلان بھی کہتے ہیں جیسا سوامی اکشے مہاراج اور دیگر لوگوں نے اعلان کیاکہ ’’ہم دھرم کی حفاظت کے لیے پارلیمنٹ میں گئے ہیں‘‘۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا ہماری عدلیہ جو دستور کی حفاظت کے لیے اور دستور کی روح کو قائم رکھنے کے لیے قانون سازی اور تنفیذ پر نگاہ رکھے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے افراد جو قانون سازی میں کھلے طور پر دستور کے ابتدائیہ کی دھجی بکھیر رہے ہوں اور قانون کے محافظ جس میں پولیس اور دیگر عملے خواہ بیوروکریٹ ہوں، ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے ہمت نہیں رکھتے بلکہ ان کی چشم پوشی کے نتیجہ میں قانون اپنا رول ادا کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے اور قانون کا احترام اور خوف ان کے دلوں سے نکلتا جارہا ہے تو کیا عدلیہ کوئی ایسی کارروائی کرسکتی ہے جو قانون کی بالا دستی کو قائم کرسکتی ہے۔ قانون کے محافظ خاص طور سے پولیس میں نیچے سے لے کر اوپر تک کا اگر رویہ کسی ایک فرقے کی طرف سخت ہے اور دوسرے کی طرف نرم ہے۔ مثلاًکسی مدرسہ یا مسجد کے بارے میں اگر کوئی جھوٹی خبر بھی آجائے تو اکثر وبیشتر وہاں پولیس کو ہتھیار نظر آتا ہے ایسی صورتحال میں کیا کمزور طبقات اور مسلمانوں کو انصاف مل سکتا ہے۔ چوتھا غیر تحریری ستون جسے ہم میڈیا کہتے ہیں اس کا اصل رول تو حقیقت پیش کرنا تھا اور تعصب سے بلند ہوکر ملک کی ترقی اور گلوبل نقشے میں ملک کو ایک عظیم مقام پر پہونچانے میں معاون ومددگار ہونا چاہیے تھا مگر کافی عرصہ سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف خواہ صحیح یا زیادہ تر غلط اطلاعات آتی ہے تو اسے طشت از بام کرکے پیش کیا جاتا ہے اور اس کے برعکس حقیقت پر مبنی خبریں اس مخصوص نظریہ والے گروہ کے سلسلے میں آتی ہیں تو اس کی خبریں یا تو شائع نہیں ہوتی یا ٹی وی پر نظر نہیں آتی اگر آتی بھی ہیں تو وہ ایک جھلک کا کام کرتی ہے یا چھوٹی سی جگہ حاصل کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ میڈیا دستور کے تینوں ستون پر نگاہ رکھنے کا کام کررہا ہے یا صرف اقلیتوں، کمزور طبقات بالعموم اور مسلمانوں کے خلاف بالخصوص زہر افشانی میں براہ راست یا بالواسطہ معاون ثابت ہورہا ہے؟ ان ساری گفتگو کی روشنی میں عدلیہ پر پورا یقین ہے کہ انصاف کو قائم رکھنے کے لیے عدلیہ اور جج کسی طرح کے Compromise نہیں کریں گے مگر سوال یہ ہے کہ تمام ذرائع معلومات اور جانچ ایجنسی کی اکثریت اگر متعصب ہیں، مخاصمانہ نظریہ رکھتا ہے، مخالفت کا عنصرپایا جارہا ہے تو انصاف کیسے اور کیونکر مل سکتا ہے۔ اقلیتوں بالعموم مسلمان بالخصوص اس وقت خوف ودہشت کے عالم میں ہیں کہ ہماری عدلیہ اور جج ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بالخصوص تعصب اور تنگ نظری سے بلند ہیں مگر ان تک تحقیقی وتفتیشی رپورٹ جس کی بنیاد پر وہ فیصلہ دیتے ہیں کیا وہ فیصلے انصاف پر مبنی ہوں گے؟ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |