بھارت کے اسٹوڈینٹس مجاہدین آزادی کے نقش قدم پر گامزن
نقطہ نظر :ڈاکٹر محمد منظور عالم
قربانی ،جدوجہد ،پرخلوص جذبہ،بلندحوصلہ اور عزم مصمم کے بعد ہی کوئی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے ۔ طویل جدوجہد ، منصوبہ بندی اور لمبی لڑائی کے بعد انقلاب آتاہے ۔ہندوستان کے موجودہ حالات میں بھی انقلاب کی آہٹ ہے ۔ ایک تبدیلی رونما ہونے والی ہے لیکن اس کیلئے طویل جدوجہد ،قربانی اور منصوبہ بندی درکار ہے ۔ حالیہ دنوں میں جس طرح پورا ملک سراپا احتجاج بناہواہے اس نے ایک تحریک کو جنم دیاہے ۔ ایک انقلاب کی آمد کو یقینی بنادیاہے لیکن اس کیلئے ہمیںقربانی دینی ہوگی ۔ طویل لڑائی لڑنی پڑے گی کیوں کہ کوئی بھی تحریک قربانی،کوشش اور عزم وحوصلہ سے عبارت ہوتی ہے ۔ لمبی عرصے کی جدوجہد کے بعد کامیابی ملتی ہے ۔ ہندوستان کی سرزمین تحریک اور انقلاب کی آماجگاہ رہی ہے ۔ 1857 میں جب انگریزوں نے بھارت کے اقتدار پر قبضہ جمالیاتھا تو ہمارے اسلام نے ان کے خلاف تحریک چھیڑ دی ۔ ہندو ،مسلم ،سکھ عیسائی ،دلت آدی واسی سبھی مذاہب اور طبقات سے تعلق رکھنے ولے میدان میں اکٹھے ہوگئے ۔ انگریزوں سے ملک کو نجات دلانے کیلئے انہوں نے جنگ چھیڑ دی ۔ لاکھوں لوگوں کو برٹش حکومت نے پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا ، جیل کی سلاخوں میں بند کردیا ۔ طرح کی اذیتوں سے دو چار کیا لیکن ان کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی ، ان کے حوصلے کم نہیں ہوئے ۔ ایک سال اور دوسال تک جدوجہد کرنے کے بعد وہ ہمت ہار کر گھروں میں بیٹھ نہیں گئے بلکہ انہوں نے آزادی کی لڑائی جاری رکھی، نسلیں گزر گئیں لیکن انگریزوں کے خلاف جنگ کے حوصلہ ،جذبہ اور عزم میں کوئی کمی نہیں آئی بالآخر 90 سالوں کی طویل جدوجہد ، عظیم قربانیوں اور کوششوں کے بعد آزادی کی جنگ میں کامیابی ملی ۔ ہندوستان کو آزادی کا تمغہ ملا ۔ بابا بھیم راﺅ امبیڈکی قیادت میں ماہرین قانون نے ہندوستان کا ایک جامع اور عظیم دستور تشکیل دیا جس کی تمہید میں آزادی ،مساوات ،انصاف اور بھائی چارہ کو شامل کیا ۔ اس دستور نے ہندوستان کو پوری دنیا میںعظیم بنایا ۔ عوام کو طاقت ملی ۔ عدلیہ اور دیگر آئینی اداروں کی خود مختاری کی وجہ سے عوام کا خواب میں حقیقت میں تبدیل ہوگیا کیوں کہ برسوں کی جدوجہد اور بے دریغ قربانیوں کے بعد آزادی ملی تھی ۔ اظہار رائے کی آزادی نصیب ہوئی تھی ، لکھنے اورپڑھنے کی آزادی ملی تھی ۔ حکومت کرنے اور ارباب اقتدار پر تنقید کرنے کی آزادی ملی تھی ۔ اس آزادی میں یہ منصوبہ بھی شامل تھی کہ اب ہندوستان کو جس طرح انگریزوں سے آزادی ملی ہے نفرت ، عدوات ، تقسیم اور فرقہ پرستی سے بھی آزادی مل جائے گی کیوں کہ دستور میں سبھی کو یکساں حیثیت دی گئی تھی ۔ سیکولرزم اور جمہوریت کو بنیاد بنایاگیا تھا ۔ اسی دستور کی تشکیل سے ہندوستان کی آزادی کا خواب پورا ہواتھا ۔ آج اسی دستور اور آئین پر حملہ ہوگیاہے ۔ بھارت کی موجودہ سرکار ہندوستان کے سیکولرزم اور جمہوری ڈھانچے کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرچکی ہے اور متعدد قدم بھی اٹھائے جاچکے ہیں ۔ آئین میں مسلسل ترمیم کے ساتھ آئین اور دستور کے خلاف قانون بنائے جارہے ہیں ۔ گذشتہ چھ سالوں میں بی جے پی سرکار نے ہندوستان کی تمہید کے خلاف دسیوں قانون بنایا ہے تاہم متنازع شہریت ایکٹ ان میں سب سے خطرناک اور آئین کے واضح خلاف ہے ۔ اس قانون میں مذہب کی بنیاد پر تین ممالک پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیتوں کو شہریت دینے کی تجویز شامل ہے ۔ صرف مسلمانوں کا نام شامل نہیں ہے ۔ اس قانون کی سرکار اب تک کوئی واضح وجہ بیان نہیں کرسکی ہے کہ آخر صرف انہیں تین ممالک کے اقلیتوں کو سرکار نے شہریت دینے کا فیصلہ کیوں کیاہے ؟ کیا بنیاد ہے ؟ اگر بات پڑوسی ممالک میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کی ہے توا س میں سری لنکا ، بھوٹان اور میانمار سر فہرست ہے ۔ میانمار میں مسلمانوں پر ظلم ہورہاہے ۔ سری لنکا میں تمل ہندﺅوں پر ظلم ہورہاہے اور بھوٹان میں عیسائیوں پر ظلم ہورہاہے ؟ ۔ حکومت نے افغانستان کو بھی اپنا پڑوسی ملک بتادیاہے جبکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے ۔ ہندوستان اور افغانستان کی سرحدیں کہیں بھی ساتھ نہیں ملتی ہیں ۔کیاحکومت نے تین ممالک کا انتخاب مسلم اکثریت کی وجہ سے کیا ہے تو پھر انڈونیشیا ،ملیشیا اور عرب ممالک شامل کیوں نہیں کئے گئے ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں ہندﺅوں کو شہریت حاصل ہے ۔مذہب کی بنیاد پر دنیا میں کہیں بھی شہریت نہیں دی جاتی ہے بلکہ شہریت کی بنیاد پیدائش ہوتی ہے اور آج بھی اسی پر عمل ہورہاہے ۔ امریکہ ،برطانیہ اور یورپ میں ہندوستانی اور پاکستانی نزاد لوگوں کی بڑی تعداد ہے جنہیں وہاں کی شہریت کے ساتھ حکومت میں بھی حصہ داری ملی ہوئی ہے ۔ ایم پی اور منسٹر بنے ہوئے ہیں ۔ اہم عہدوں پر فائز ہیں کبھی ان ممالک میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی کہ یہ غیر ملکی ہے ، باہر کے ہیں ۔ تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں بھارت کے لوگوں کو شہریت دی جارہی ہے ۔ ملازمت دی جارہی ہے ۔انہیں عزت دی جارہی ہے بیرون ممالک کی وجہ سے بھارت کے کئی کروڑ عوام برسرروزگار ہیں دوسری طرف بھارت کی حکومت اب اپنے ملک کے عوام کوبھی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ جس حکومت میں اپنے وطن کے عوام کیلئے ہمدردی ،جذبہ خیر خواہی اور محبت نہیں ہے وہ بیرون ممالک کے عوام کو کس بنیاد پر شہریت دے رہی ہے اور واقعی وہ شہریت دے رہی ہے یا پھر ووٹ بینک کی سیاست کررہی ہے ؟۔لو جہاد ، نوٹ بندی ، رام مندر اور کشمیر سے فرقہ وارانہ مسائل کے بعد اب وہ شہریت کے مسئلہ کو ہندو مسلم بناکر سیاسی پوزیشن کو مضبوط بنانا چاہتی ہے۔ متنازع شہریت ایکٹ ، این آرسی اور این پی آر یقینی طور پر ہندوستان کے دستور اور آئین کے خلاف ہے ۔غریبوں ،مزدوروں ، آدی واسیوں اور کمزور طبقات کو پریشان کرنے کی سازش ہے ۔ ملک کی 95 فیصد سے زیادہ آبادی کو اپنی تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے ۔ آج بھی گاﺅں او ردیہاتوں میں پیدائش سرٹیفیکٹ بنانے کا چلن نہیں ہے ۔ باپ دادا کے دستاویزات کو محفو ظ کرنے کے بارے میں کبھی کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آیاکیوں کہ کبھی کسی نے سو چاہی نہیں تھاکہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی سرکار انہیں ہی شہریت ثابت کرنے کیلئے چیلنج کردے گی ۔شہریت کا ثبوت مانگ لیا جائے گا۔ جن کے آباﺅ واجداد نے بھارت کو انگریزوں سے آزاد کرایاتھا ان کو ہی مشکوک بنادیا جائے گا ۔ یہ حالات 1857 سے مختلف نہیں ہیں ۔ اس وقت بھی ہمارے ملک پر قبضہ کرکے ہم سے ہمارے حقوق سلب کئے گئے تھے آج بھی ہم سے ہمارے حقوق چھینے جارہے ہیں ۔ 1857 کے حالات کو ہمارے اسلاف نے نظر انداز کرنے کے بجائے جنگ کرکے اپنا حق حاصل کیا تھااور انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبو رکیاتھا ۔ ہمارے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک اور بیرون ملک کے اسٹوڈینٹ نے آزادی کی نئی جنگ چھیڑ دی ہے ۔ یہ لڑائی بھی بھارت کو بچانے کیلئے ہے ۔ دستور اور آئین پر ہونے والے حملہ کو روکنے کیلئے ہے بھارت اسی وقت بھارت ہے جب تک اس کا دستور اور آئین محفو ظ ہے ۔ آئین پر حملہ بھارت پر حملہ کے مترادف ہے جس کے خلاف تحریک چلانا ناگزیر ہے اور اسٹوڈینٹ ملک بھر میں سرگرم ہوچکے ہیں ۔ یہ تحریک طویل کوشش اور مستقل جدوجہد چاہتی ہے ۔اگر ہمارے اسٹوڈینٹ کی یہ کوششیں اسی طرح جاری رہی ، سبھی طبقہ اور مذاہب کے لوگ اسی طرح میدان میں سرگرم رہیں تو کامیابی یقینی طور پر ملے گی ۔ بھارت بچاﺅ مہم کامیابی سے ہم کنار ہوگی ۔ ہندوستان کا آئین اور دستور حملہ سے محفو ظ رہے گا۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |