بی جے پی کی بوکھلاہٹ اور مسلم رائے دہندگان
ڈاکٹر محمد منظور عالم
16ویں لوک سبھاانتخابات کے 9مرحلوں میں سات مرحلوں میں انتخابات کا عمل پورا ہوچکا ہے اور ووٹوں کی گنتی 16مئی کو شروع ہوگی لیکن ان سات مرحلوں میں ووٹنگ کے دوران رائے دہندگان کا جورجحان سامنے آیا ہے اس کو لیکر قیاس آرائیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ایک بڑ اطبقہ اسی بنیاد پر اپنے سر وے کی روشنی میں بی جے پی کے پالے میں 272+ سیٹیں دکھا رہا ہے، اور ٹی وی پر ہونے والی اکثر بحثوں کا محور نریندر مودی کے ارد گرد ہے۔ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مودی ملک کے اگلے وزیر اعظم ہوں گے اور این ڈی اے اس کی قیادت کرے گی۔ تصویر کا یہ ایک پہلو ہے جسے میڈیا نے ہائی جیک کر رکھا ہے اور مودی کے حق میں ماحول سازگار بتایا جارہا ہے، میڈیا ہائپ کے باوجود زمینی سطح کا میڈیا جو آر ایس ایس کے ایجنٹ کے طور پر کام کررہا ہے اسے بھی یہ احساس ہوا کہ جس واشگاف انداز میں وہ سیٹیں دے رہا تھا اور مودی لہر کو پیش کررہا تھا وہ سیٹیں گرتی ہوئی نظر آرہی ہے اور لہر زمینی پر سیٹ ہوتی جارہی ہے۔ جبکہ تصویر کا دوسرا پہلو اس لحاظ سے کافی بھیانک ہے کہ محض اپنے مفادات کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا جارہاہے اور جس مکھوٹے والی خوبی کے لئے اٹل بہاری باجپئی مشہور تھے اسی مکھوٹے کو مودی اپنے لئے استعمال کررہے ہیں۔ لیکن مودی کی پریشانی یہ ہے کہ خود ان کی اپنی پارٹی میں ان کی مخالفت ہورہی ہے اور ناراض قومی لیڈروں کا ایک گروپ جس کا نام ہی ’کلب 160‘ ہے کی کوشش ہے کہ بی جے پی کو 160سے زائد سیٹیں حاصل نہ ہوں تاکہ انتخابی نتائج کے بعد دیگر علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کرتے وقت مودی کو ہٹاکر کسی دوسرے قابل قبول لیڈر کو آگے بڑھایا جائے۔
مودی کے خلاف ’کلب 160‘ کی مہم میں جو لیڈران شامل ہیں ان میں ایل کے اڈوانی، ششماسوراج، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی، شیوراج سنگھ چوہان اور بی جے پی صدر راج ناتھ سنگھ جیسے لیڈران شامل ہیں۔ اس اندرونی لڑائی نے مودی کی مشکلوں کو بڑھادیا ہے۔ بظاہر میڈیا مہم کے ذریعہ اس طرح کے اندرونی تضاد کو چھپایا جارہا ہے لیکن عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے کے مصداق یہ تضاد بھی نہیں چھپ رہا ہے۔ یہ تضاد صرف وزیر اعظم کے عہدہ کے لئے مودی کی نامزدگی کو لیکر ہی نہیں ہے بلکہ اس کے کام کرنے کا طریقہ اور تاناشاہی رویہ نیز اس کی ذات کو لیکر بھی ہے۔ برہمن کو نظر انداز کرکے آر ایس ایس نے جس طرح ایک دیگر کمزور طبقات سے تعلق رکھنے والے مودی کو آگے بڑھایا اس نے پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیاہے جس کا اندازہ پارٹی کے اندر ’کلب 160‘ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اتنا ہی پارٹی میں اس طرح کے فیصلے لئے جانے لگے جن پر اتفاق رائے نہیں تھا حتی کہ مودی کے بعد کوئی دوسرا ایسا لیڈر نظر نہیں آرہا ہے جسے نمبر دو کہا جاسکے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس انتخابات کے تشہیری مواد سے اٹل اور اڈوانی کی تصویریں غائب ہیں ان کے حمایتوں کو پہلے ہی کنارے لگایا جاچکا ہے یا پھر دھیرے دھیرے لگایا جارہا ہے۔ بی جے پی قیادت والی ریاستوں میں ان سبھی لیڈروں کو ان علاقوں میں محدود کردیا گیا ہے جن سے کسی طرح کا بھی خطرہ تھا۔ خاص طور سے ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ جن کے بارے میں یہ خدشہ تھا کہ وہ وزیر اعظم عہدہ کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔
بی جے پی کے اس اندرونی خلفشار سے آر ایس ایس اپنے ایجنڈہ کو لیکر بہت فکر مند تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اسی حکمت عملی کے تحت آر ایس ایس کی فکر سے جڑے لوگوں نے مسلمانوں کو کھلے طور پر نشانہ بنانا شروع کردیاتاکہ پارٹی کی اس پھوٹ کو ہندو اتحاد میں بدلا جاسکے۔ پہلے گری راج سنگھ نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے دھمکی دی کہ مودی کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستان بھیج دیا جائے گا پھر پروین توگڑیا نے زہر اگلنا شروع کیا،رام دیو نے دلت برادری کو ذلیل کرنے کی کوشش کی،ان ساری کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ منواسمرتی پر یقین رکھنے والے سارے ہندو پھر مجتمع ہوجائیں اور گرتی ہوئی لہر کو دوبارہ زندہ کریں تاکہ آخری مرحلے کے انتخابات میں پولورائزیشن مضبوط ہوسکے اورمیڈیا ہائپ کے مطابق سیٹیں مل سکیں۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے بروقت فیصلے سے اگرچہ زہر کم نہیں ہوا ہے لیکن پھر بھی ہائپ کو دوبارہ زندہ کرنے میں مدد نہیں مل رہی ہے۔ دوسری جانب اس ہائپ کا خوف اقلیتوں اور مسلمانوں پر یوں پڑرہا ہے کہ متضاد بیانات ان لوگوں کی طرف سے آنے لگے ہیں اور اس خوف کے عالم میں اپنا دروازہ آر ایس ایس کے لئے کھول کر رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر میڈیا کے اندازے صحیح ہوگئے تو ہاتھ ملانے بلکہ گلے ملنے میں بھی کوئی تکلیف نہ ہو اور چونکہ حکومت چلانی ہے اس لئے بحیثیت مسلمان اسے کچھ فائدہ پہونچ سکتا ہے مگر گذشتہ 5/7سالوں میں خاص طور سے مسلم عوام نے جس بالغ النظری اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے اس کے نتیجہ میں مختلف ریاستوں کے انتخابات میں ان کے اس رول سے سروے کے پنڈت بھی حیرت زدہ رہ گئے اور سیاسی تجزیہ نگار بھی اس کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اس الیکشن میں بھی اسی کی توقعات ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم عوام کے فیصلے کے نتیجہ میں ملک کے دستور، سیکولر فیبرک اور یہاں کا قانون بحال رہتا ہے تو شاید بہت سارے قائد از خود کریڈٹ لینے کی دوڑ میں پیش پیش نظر آنے لگیں۔
اس انتخابی ماحول میں جہاں بی جے پی آپسی سرپھٹول اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے دور سے گذررہی ہے وہاں اسے کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے آر ایس ایس نے کمان پوری طرح سنبھال لی ہے۔ موہن بھاگوت این ڈی اے کے انڈیا شائننگ کا حشر دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح رائے دہندگان نے اسے مسترد کردیا تھا۔ آر ایس ایس اس بار کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق اس کے کارکنان پوری طرح مودی کو کامیاب بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک ایک بوتھ پر کئی کئی آر ایس ایس کارکنوں کی ڈیوٹی ہے جبکہ رائے دہندگان سے گھر گھر رابطہ قائم کرنے کے لئے سنگھ کارکنوں کی ایک پوری فوج کو میدان میں اتارا گیا ہے، اور خود مودی بھی مسلمانوں کو مخاطب کررہے ہیں۔ مودی کی دلیل ہے کہ جو ایک بار ان سے مل لے گا وہ ان سے پیار کرنے لگے گا۔ ایک ایسا شخص جس کے ہاتھ معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوں مسلمان اس سے کیسے پیار کرنے لگے گا؟ یہ بات ناقابل فہم ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بسااوقات کچھ سادہ لوح مسلمان اس طرح کی باتوں سے بہکاوے میں آجاتے ہیں اور اس کی چکنی چپڑی باتوں پر یقین کربیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس کا وہ ونگ جو مسلمانوں میں کام کررہا ہے اس طرح کی باتوں کی تشہیر کرکے عام مسلمانوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ ایک مسلم رائے دہندگان کیا کرے۔ سیکولر پارٹیوں سے ناراضگی کے سبب کیا فرقہ پرست طاقتوں کو ووٹ دیکر کامیاب کرائے یا پھر مسلمانوں کے ووٹوں کو آپس میں تقسیم کرائے۔ مذکورہ دونوں صورتیں مسلمانوں کے لئے نہ تو مفید ہیں اور نہ ہی اس سے مستقبل میں انھیں کوئی فائدہ حاصل ہوگا اس کے برعکس نقصان کے خطرہ کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی تک کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ووٹوں کی اہمیت کو سمجھا ہے اور ٹیکٹیکل ووٹنگ کر کے اپنی بیداری کا ثبوت دیا ہے۔ یہ آخری مرحلہ ہے مسلمان دیگر کمزور طبقات کو ساتھ لیکر یہ ضرور ثابت کریں کہ عوامی طاقت بڑی ہوتی ہے۔ میڈیا کی مصنوعی طاقت صرف دولت کمانے کے لئے تو ہوسکتی ہے لیکن ذہن ودماغ کو بدلنے کے لئے نہیں ہوسکتی۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)
Back Home