ڈاکٹر محمد منظور عالم کا دورۂ کرناٹک
رپورٹ: سلیمان خان، جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل کرناٹک

انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس) نئی دہلی نے اس بار شاہ ولی اللہ ایوارڈ ۲۰۱۲کی تقریب تفویض بنگلور میں رکھی۔ آئی او ایس چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم کی بنگلور تشریف آوری کے موقع پر ان کے اعزاز میں متعدد نشستیں ہوئیں، جن میں شہر کے علما ،دانشور، مسلم سیاستدان اور صحافی حضرات شریک ہوئے۔ پیس ہے اس دورے کی رپورٹ۔
عمائدین شہر کی خصوصی نشست
پہلی نشست۲۲ ؍اگست کو جناب آغا سلطان کے مکان پر ہوئی۔ آئی او ایس چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حالات میں فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں میں اتحاد ضروری ہے۔انھوں نے فرمایا: ہمارے ملک کی موجودہ حکومت دستوری نظام کے تحت ہی قائم ہے۔ اگرچہ اس کے قیام میں دستور کی پامالی ہوئی، لیکن کسی طرح اس کو غیر دستوری حکومت نہیں قرار دیا جاسکتا۔ البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ اب یہ حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ جس فلسفے پر آر ایس ایس نے کام شروع کیاتھا، اس کو یہ حکومت کھلے طور پر پیش کر رہی ہے۔ ایسی صورت میں ہمارے سامنے کئی طرح کے چیلنج ہیں۔چھے سال تک برسر اقتدار رہنے کے بعد پچھلے دس سال سے بی جے پی ، ایوان حکومت سے دور رہی، لیکن اس دوران دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرتی رہی ہے۔پورے ساڑھے چار سال تک واشنگٹن میں یہودی لابی کی رفاقت میں ایک پلاننگ کی گئی، اقلیتوں کو توڑنے اور انھیں آپس میں متصادم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ امریکا میں بنائے گئے اسی منصوبے پرحالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران کام کیا گیا۔شمالی ہند میں ۱۰ لاکھ سے زائد آر ایس ایس کارکنان نے انتخابی میدان میں کام کیا اور دھرم کے نام پر ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود بی جے پی کو صرف ۳۱ فیصد ووٹ ملے۔لیکن چوں کہ ۶۹ فیصد سیکولر ووٹ منتشر رہے۔ اس لیے وہ برسر اقتدار آگئی۔ہمارے سامنے ان منتشر سیکولر ووٹوں کو متحد کرنا ہی سب سے بڑاچیلنج ہے۔ ڈاکٹر عالم نے حاضرین کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: دستور ہند کا تحفظ بھی ایک مسئلہ ہے۔موجودہ اقتدار دستور کے بنیادی اصولوں کو تو تبدیل نہیں کرسکتا، لیکن ان میں رد و بدل اور ان کے ساتھ کھلواڑ کیاجاسکتا ہے۔ اس کے لیے زور زبردستی اور داداگری کے طریقے کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔امریکا ،اسرائیل اور ہندستان کا جو تکون (Nexus ) بنایا گیا ہے، اس کے تحت اب کام صیہونی استریٹجی کے تحت ہی ہوگا۔ جس طرح اسرائیل نے فلسطین کے معاملے میں پہلے عدلیہ کو استعمال کیا، اسی طرح ہندستان میں بھی کام کیا جائے گا۔ اگلے پانچ برسوں میں سپریم کورٹ اور ملک کے تمام ہائی کورٹوں میں کم از کم ۵۰ فیصد نئے ججوں کے تقررات کا کام شروع ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تقررات اپنی من پسند ذہنیت کے حامل افراد پر مشتمل ہونگے۔ایک بڑا خطرہ ملک کی تاریخ کو بدلنے اور خصوصاً مسلم عناصر کو ختم کرنے کا ہے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان حالات میں ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات کیسے ہوں۔ یہ بات واضح رہے کہ اپنے مسائل کو حکومت کے سامنے پیش کرنا الٹے گھڑے پر پانی کوٹھیرانے کی کوشش کے مترادف ہوگا۔ اب ایک مضبوط اور مؤثر لائحہ عمل کی تیاری کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے لیے ملت کو متحد ہو کر جدو جہد کرنا ہوگا۔ سیاستدان، علما، دانشور،نوجوان، ہر سطح پر اپنے اختلافات کو ختم کرکے ہمیں اپنی جڑ سے جڑنا ہوگا۔جب تک مسلمان تمام مسائل سے بلند ہو کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر جمع نہیں ہوں گے، ساری تدبیریں ناکام ثابت ہو گی۔ اس تقریب میں حضرت مفتی محمد اشرف علی باقوی، رکن راجیہ سبھا ڈاکٹر کے رحمن خان، ریاستی وزراء الحاج روشن بیگ، الحاج قمر الاسلام، رکن اسمبلی جناب این اے حارث، سابق چیئرمین ریاستی وقف بورڈ جناب عبد الریاض خاں درگاہ اجمیر شریف کمیٹی اور دوسرے متعدد مقتدر حضرات موجود تھے۔
اردو صحافیوں سے ملاقات
۲۳؍ اگست کی صبح ۱۰ بجے دارالعلوم سبیل الرشاد کے مہمان خانے میں شہر کے اردو صحافیوں سے خصوصی ملاقات کے دوران آئی او ایس چیئرمین اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کہا: جمہوریت میں صحافت کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔صحافت کی ذمہ داری معاشرے کو لاحق خطرات سے آگاہ کرنا اورحالات کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں کو تیار کر نا ہوتا ہے۔ صحافت کو غیر جانبدار ہونے کے علاوہ ایمانداری کے ساتھ حقائق کو واضح کرنا اور حق کو عوام کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ صحافت کا اہم فریضہ ہے۔لیکن افسوس کہ آج ذرائع ابلاغ نے اپنے فرض سے آنکھیں موند لی ہیں اوراپنی آزادی کو فروخت کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ مکمل طور پر صیہونی طاقتوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی میڈیا انھی کے اشارات پر کام کر رہا ہے۔کارپوریٹ ورلڈ اور زعفرانی سیاست کے دام فریب میں گرفتار ہو کر انھی کی بولی بول رہے ہیں۔ مفروضات، جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں کو حقیقت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے سلسلے میں میڈیا کا رویہ بالکل منفی ہے۔ مسلمانوں کے متعلق چھوٹی چھوٹی بلکہ جھوٹی باتوں کو پورے زور و شور کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ جھوٹ کو بار بار اس طرح دہرایا جاتا ہے کہ سچ دب کر رہ جاتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیاں پھیلانے اور اقلیتوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے میڈیا کا خوب استعمال ہو رہا ہے۔ دانستہ جرائم کیے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ان حالات میں مسلم صحافیوں کی یہ ذمے داری ہے کہ پوری ایمانداری کے ساتھ وہ اپنا فریضہ ادا کریں۔ مختلف زبانوں کے اخبارات اور برقی میڈیا سے جڑے ہوئے مسلم صحافیوں کو متحد کرنے کی کوشش کی جائے اور ساتھ ہی غیر جانبدار اور امن پسند غیر مسلم صحافیوں کو اپنے ساتھ لینے کی کوشش کی جائے۔
ٹیکنکل ماہرین کا خصوصی اجلاس
۲۳ ؍ اگست کو نماز عشاء کے بعدفیروز ریسیڈنسی بنگلور میں ایک خصوصی جلسہ ہوا۔ اس میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں خصوصاً آئی ٹی ۔بی ٹی کے ماہرین اور پروفیشنلس نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد منظور عالم نے فرمایا: یقیناًاس وقت ہمارے ملک کے حالات بے حد نازک ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس لئے کہ ہمارا ایمان اللہ کی ذات پر ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔لیکن اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لیے ایمان اور عمل صالح شرط ہے ۔اللہ کی ذات پر مضبوط ایمان اور اس کی مدد و نصرت کا کامل یقین ہو۔ اللہ کے احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں کو ہم اپنی زندگیوں میں داخل کریں تو ضرور اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہوگی۔ اسی کے ساتھ مناسب حکمت عملی کی بنا کر اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ انھوں نے موجودہ حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: حکومت ملک اور باشندگان ملک کی ترقی اور ان کے فائدے کے لیے ہوتی ہے۔ جس میں ملک کے ہر بسنے والے شہریوں کو انصاف، ترقی میں حصہ داری، فیصلہ میں شراکت کا موقع ملتا ہے اور قانون بھی سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔لیکن جو حکومت اس وقت قائم ہوئی ہے وہ براہ راست آر ایس ایس کی حکومت ہے، اور آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی، نفرت کی بنیاد پر ہے۔ جس دستور کے سہارے یہ حکومت بنی ہے ، اس دستور کو آر ایس ایس نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس کے بنیادی نظریات سے اس نے کبھی اتفاق نہیں کیا۔ دستور کی تمہید میں ملک کی جو بنیادیں بتائی گئی ہیں، ان میں انصاف، مساوات، اخوت اور سیکولرزم یہ چار بنیادی اصطلاحات ہیں، ان میں سے پہلے تین شروع دن سے اس میں شامل ہیں اور سیکولرزم کو بعد میں ترمیم کر کے تمہید کا حصہ بنایا گیا۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ پہلے تینوں الفاظ کو اسلام سے مستعار لیا گیا ہے۔انصاف ، مساوات اور اخوت یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ہیں۔جبکہ آر ایس ایس ، اونچ نیچ اور ذات پات کے ہندوتو نظریہ کی قائل ہے۔ اسی لئے اسلام اور مسلمان اس کی نظر میں ہمیشہ کھٹکتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ہندوستان کے دستور کو کبھی قبول نہیں کیا۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ دستور کے ساتھ ضرور کھلواڑ کرے گی۔اس ملک میں مسلمانوں کی بقا و حفاظت کے لئے دستور کی حفاظت ضروری ہے۔ دستور کی بنیادی اصطلاحات کو تو یہ حکومت بدل نہیں سکتی مگر متوازی قانون سازی کے ذریعے اس کی اہمیت و حقیقت کو گھٹانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں ہمیں متحرک اور متحد ہوکر مناسب لائحہ عمل کی تیاری کر نے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک کے حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف پوری فضا کو مسموم کرنے کا شرپسندعناصر و فسطائی قوتیں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑ رہی ہیں ، اور نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں سے فضا میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلاکر غیر مسلم برادران وطن کو ورغلانے کا تسلسل جاری ہے۔ ایک طرف مسلم نوجوانوں کو کسی نہ کسی حساس مسئلے پر اکسانے کی کوشش ہوتی ہے تو دوسری طرف اکثریتی طبقے کے لوگوں کو اقلیتوں کے خلاف مشتعل کرکے حالات بگاڑ ے جا رہے ہیں۔اس کا براہ راست نقصان مسلمانوں کو پہنچتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ انھی اسباب کی بنیاد پرآل انڈیا ملی کونسل کے زیر اہتمام گزشتہ /10 اگست کو دہلی میں مختلف مسالک و مکاتب فکر اور سماجی کارکنوں کے ساتھ ایک مشترکہ جلسے کا انعقاد کیا گیا تھا۔اس اجلاس میں یہ طے پایا کہ سب سے پہلی ضرورت چونکہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کی ہے اس لیے ملک بھر میں مختلف مسالک و مکاتب فکر کے علما و سربرآوردہ افراد اتحاد کی کوشش کی جائے گی اور تمام اختلافات سے بالا تر ہو کر ملی مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں متحدہ جدوجہد کے لیے انھیں تیار کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایک مشترکہ میثاق بنا کر اس پر سب کے دستخط لیے جائیں گے۔اس طرح کی کوشش ریاستی سطح پر بھی ہونی چاہیے۔ برادران وطن کے ساتھ تعلقات کی استواری کی بھی فکر ہو نی چاہیے۔ برادران وطن سے بہتر رشتوں کے استوار کیے جانے پر زور دیا جائے۔ اس بات پر زور دیا جائے کہ فرقہ پرستوں کی تمام چالیں ملک و قوم کے حق میں انتہائی خطرناک ہیں۔فرقہ وارانہ فسادات سے جہاں امن و امان غارت ہوتا ہے، وہیں بے قصوروں کی جان و مال اورعزت و آبرو پربھی آنچ آتی ہے جو اس ملک کے فروغ و استحکا م کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ اس سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا اور لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ میڈیا کے ذریعے کی جانے والی شرانگیزی بھی ناکام ہو جائے گی۔اس طرح ہم غیر مسلموں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بھی روشناس کرا سکتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہمارے ماہرین خصوصاً نوجوان اس مشن کو لے کر گاؤں گاؤں پھریں اور اس سوچ کو عام کر نے کی کوشش کریں۔اجلاس کے آخر میں حاضرین نے بعض سوالات بھی کئے جن کا ڈاکٹر صاحب نے اطمینان بخش جواب دیا۔ مولانا شاہ قادری سید مصطفی رفاعی ندوی، جناب سلیمان خاں، مولانا حبیب اللہ عمری، جناب سید شفیع اللہ ،جناب سید ضمیر پاشاہ اور ملی کونسل کے دوسرے ارکان وعہدے داران بھی شریک تھے۔
نوجوانوں سے خطاب
۲۴؍اگست کو صبح ۳۰۔۱۱ بجے ، گرین ویو اپارٹمنٹس میں نوجوانوں کی ایک خصوصی نشست سے بھی آئی او ایس چیئرمین نے مختصراً خطاب کیا۔ انھوں نے کہا: کسی بھی قوم کا تحفظ اورترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی، جب تک کہ انھیں سیاسی قوت حاصل نہ ہو اور وہ سیاسی اعتبار سے بالغ نظر اور قوی نہ ہوں۔ لیکن ہندستان کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ ابھی اس طرح کی کوشش مفید نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں میں مکمل سیاسی شعور پیدا کیا جائے، موجودہ سیاسی جماعتوں میں داخل ہوکر اثر و نفوذ حاصل کیا جائے۔جو مسلمان اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں، ان کی اپنی جماعتوں میں ان کا اثر و رسوخ بہت کم ہے۔ کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ ہر سیاسی جماعت میں موجود مسلمان قائدین کا ان کی جماعت میں وزن محسوس کیا جائے۔ اس کے لیے اخلاص کی ضرورت ہے۔ کچھ کو مستثنیٰ کرکے عموماً جو لوگ آج کل سیاست میں آتے ہیں وہ قوم و ملت کے مفادات سے زیادہ اپنے مفادات واغراض کو اہمیت دیتے ہیں۔ اگر مسلمان قائدین کسی بھی سیاسی جماعت میں رہ کر ملت کے مفادات کی فکر کریں تو ان سیاسی قائدین کے درمیان اتحاد کے راستے ہموار ہونگے اور پھر مسلمانوں کی سیاسی جماعت کا قیام ممکن ہی نہیں مفید بھی ثابت ہوگا۔اسی کے ساتھ نچلی سطح سے قیادت کو ابھارنے اور صالح نیز ملت کا در رکھنے والے نوجوانوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ابتدائی طور پر ایک ملی پولیٹکل فورم کے قیام کی ضرورت ہے، جس کے تین اہم عہدوں پر غیر سیاسی افراد کا تقرر ہو۔ خصوصاً علمائے کرام کی قیادت اس کو حاصل ہو۔ملی کونسل کی طرف سے اس طرح کی ایک کوشش حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے دور میں کی گئی تھی،لیکن بعض وجوہ کی بنا پر یہ کام آگے نہیں بڑھ سکاتھا۔ کسی نے سوال کیا کہ ہر لیڈر صرف اپنے ہی مفاد کے لیے کام کرتا ہے تو کیسے مفید قیادت قائم ہو سکتی ہے، تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ملت میں درد مند افراد کی کمی نہیں ہے۔ اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے نوجوان ہمیں مل جاتے ہیں، بہت سی تنظیمیں بھی خدمت خلق کا کام پورے اخلاص کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔ ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کرنے اور انہیں قیادت کے میدان میں آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ مسلم نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کی بھی فکر ضروری ہے۔ اگر یہ دونوں کام ایک ساتھ ہونگے تو گرچہ یہ طویل مدتی پروگرام ہے، لیکن آگے چل کر ہمیں اس ملک میں مکمل سیاسی قوت حاصل ہو سکے گی۔
چن پٹن میں اجلاس عام
’’یہ بات درست ہے کہ عالم اسلام بالخصوص ہمارے ملک میں مسلمانوں کے لئے حالات بہت خراب ہیں، لیکن کسی بھی حال میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ’’ اللہ کی رحمت سے ہر گز مایوس نہ ہو‘‘۔ایک مومن کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ حالات سے مایوس ہو کر پیچھے ہٹ جائے۔ مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر چیلنج کو قبول کرے اور آگے بڑھے۔یہ اگرچہ پوری قوم کا معاملہ ہے جس میں بچے ،بڑے، بزرگ و نوجوان سب ہی شامل ہیں، لیکن اس کو آگے بڑھانے میں سب سے اہم رول نوجوانوں کا ہوتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلام کی دعوت پیش فرمائی تو سب سے پہلے اور زیادہ تر نوجوانوں نے اس کو قبول کیا۔ نوجوان اپنی قوت فکر و عمل کے ذریعے حالات کو بدل سکتے ہیں اور ہواؤں کے رخ کو موڑ سکتے ہیں۔شرط یہ ہے کہ اللہ پر یقین کامل ہو اور اسووۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار کیا جائے‘‘ ان خیالات کا اظہار آئی او ایس چیئرمین اور ملی کونسل جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ملی کونسل چن پٹن کے زیر اہتمام ’’عصر حاضر اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضوع پر منعقدہ عظیم الشان جلسہ عام میں ہزاروں فرزندان توحید کو مخاطب کر تے ہوئے فرمایا: جب ہم آپس میں ٹکراتے ہیں تو اپنی ہی قوت کو ضائع کرتے ہیں اور دشمن کو مضبوط کرتے ہیں۔ ہماری صفوں کا انتشار دشمنوں کی صفوں میں اتحاد کا سبب بنتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے مزید فرمایا کہ ہر زمانے کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں اور ہمارے زمانے کی حضوصیت ذہنی عظمت(Supremecy of Mind ) اور علم کی گہرائی و گیرائی ہے۔نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ مختلف شعبہ ہائے تعلیم میں مہارت حاصل کریں۔ اسی کے ذریعے وہ قوم کی رہنمائی کر سکتے ہیں اور یہ رہنمائی صرف مسلمانوں کی حد تک نہیں بلکہ ہماری ذمہ داری تو بنی نوع انسان کی رہنمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ فرمایا ہے اخرجت للناس(انسانوں کے لئے نکالا یا برپا کیا گیا ہے)۔ اسلام تعصب نہیں سکھاتا اور انسانیت کی محبت کسی مخصوص قوم کے لیے نہیں ہے بلکہ کل انسانیت کے لیے ہے۔ اس لیے اسلام تمام انسانوں کی رہنمائی کے لیے آیا ہے،اور یہ رہنمائی جذباتیت کے ذریعے ہرگز انجام نہیں پا سکتی۔ اچھے جذبات کے ساتھ اچھی تعلیم و تربیت اور فراست مؤمنانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج انسانیت کو گمراہیوں کی دلدل سے نکالنا ہے۔وہ انسانیت جو غلامی کے شکنجے میں جکڑتی چلی جا رہی ہے۔ ہمیں نفرت کی آندھیوں کو ختم کرنا ہے اور محبت کی باد بہاری چلانی ہے۔انسانیت کی پامالی، غلامی کے شکنجے اور استحصال کی مشنری آج پوری قوت سے کام کر رہے ہیں۔ نفرتوں کا بازار گرم ہے اور ایک دوسرے پر الزام تراشیاں آئے دن ہوتی رہتی ہیں۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم مسلمان ان حالات میں صرف تماشائی بنے بیٹھے رہیں۔مسلمان نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور حالات کے سدھار کی کوشش کریں۔ لیکن اس سلسلے میں بزرگوں کی رہنمائی بھی ضروری ہے۔مسائل کو سلجھانے میں تجربات کا نچوڑ ضروری ہوتا ہے اور وہ صرف بزرگوں سے حاصل ہو تا ہے۔نوجوانوں کی قوت اور بزرگوں کی رہنمائی ان دونوں کے حسین امتزاج کی ضرورت ہے۔ ملک کے موجودہ حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے مسائل کے حل کے سلسلے میں چار باتوں کا ذکر فرمایا: پہلی بات یہ کہ ہر طبقے میں اتحاد کو عام کریں، دوسری بات یہ کہ برادران وطن سے جڑنے اور مشترکہ مسائل میں مل جل کر کام کرکے ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں،تیسری یہ کہ مسلمان اپنے درمیان کے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملی مسائل کے حل اور ملی مفادات کے حصول کے لیے کلمے کی بنیاد پر متحد ہو جائیں اور چوتھی بات یہ کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی، جب تک کہ اس میں ذہین افراد موجود نہ ہوں اور ان ذہین افراد کا عوام سے تعلق اور ربطہ نہ ہو۔ یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ کوئی انسانی معاشرہ ذہین افراد سے خالی ہو۔ ایسے افراد کو تلاش کرنا چاہیے اور ان کی ذہن سازی کے ذریعے عوام سے انہیں جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
موجودہ منظرنامہ میں طالبات کا کردار
شرعی حدود میں رہ کر ،تہذیب و تمدن اور پورے حجاب کے ساتھ مسلمان لڑکیاں حصول تعلیم کو جاری رکھیں۔اس سے معاشی طور پر مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ بھی ہوگا۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر محمد منظور عالم صاحب نے بسم اللہ ایجوکیشنل ٹرسٹ کے زیر اہتمام ،بی ای ٹی سعادت النساء کالج برائے نسواں کے ملٹی پرپس ہال میں ’’موجودہ منظرنامہ میں طالبات کا کردار‘‘ کے عنوان پر مرحوم عنایت اللہ خاں یادگاری خطبہ پیش کرتے ہوئے طالبات کو اپنے زریں مشوروں سے نوازتے ہوئے کہا کہ لڑکیاں عزم مصمم کے ساتھ اپنی تعلیم کو گہرائی کے ساتھ حاصل کریں اور جو صلاحیتیں پوشیدہ ہیں اُنھیں اجاگر کریں۔ تاکہ انسانیت فخر محسوس کرے۔لڑکیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر ہر طرح کے چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کریں اور علم کے ساتھ تحقیقی مزاج بھی پیدا کریں۔بگڑے ہوئے ماحول میں لڑکیاں اپنی تہذیب و تمدن کو برقرار رکھ کر تعلیم حاصل کریں۔ شروع میں تھوڑی بہت تکلیف محسوس ہوگی لیکن اس کا نتیجہ بہت بہتر ہوگا۔ علم نافع کے حصول کا جذبہ ہمیشہ برقرار رکھنا چاہیے اور علم کو پھیلانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ایک لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا گویا سارے خاندان کے تعلیم یافتہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کی طرف بھی توجہ کریں، اگر نمایاں کامیابی حاصل کر لی جائے تو گھروں میں بیٹھ کر ہی سافٹ وئیر کمپنیوں کے ذریعے روزگار حاصل کیا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد اور خواتین دونوں کے لیے ہر طرح کے علم کا حصول فرض قرار دیا ہے۔تعلیم کے ذریعے خواتین میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی ہے، لیکن تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہونا بھی ضروری ہے ۔بلند اخلاق، نرم مزاجی،خلوص اور ہمدردی ایک تعلیم یافتہ لڑکی کا شعار ہونا چاہیے۔آج ہمارے معاشرے میں عورتیں زیادہ ستائی جا رہی ہیں۔ اس کا ایک اہم سبب جہیز کی لعنت بھی ہے۔ اگر یہ لعنت معاشرے سے ختم ہو جائے تو بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اساتذہ اور ملت کی مائیں متحد ہو کر جہیز کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائیں اور اپنے بچوں کو اس ناسور سے بچانے کی فکر کریں۔اولاد کا پہلا مکتب ماں کی گود ہوا کرتی ہے، جہاں معاشرے کی تشکیل میں اہم رول ادا کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔بہتر معاشرے کی تعمیر کے علاوہ دین اسلام کی تبلیغ بھی مرد و عورت سب کی ذمہ داری ہے۔طالبات کو چاہیے کہ دیگر مذاہب کی لڑکیوں کے ساتھ بہتر تال میل قائم کرتے ہوئے دین اسلام کے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں ان کو اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے دور کریں اور انھیں دین اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں۔




Back   Home