شفافیت، ذمہ داری اور جواب دہی میڈیا مشن کی ضمانت ہے
ڈاکٹر محمد منظور عالم
صحافت ایک ایسا ذریعہ معاش ہے جو بیک وقت مشن بھی ہے اور پیشہ بھی۔ حوادث زمانہ کے ساتھ اس کے اس تصور میں بھی تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ مشن بتانے والوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے اصول واقدار کی کسوٹی پرخود کو پرکھا اس کے برعکس جب پیشہ وروں نے اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو ان تمام اقدار اور اصول کو بالائے طاق رکھدیا جس کی وجہ سے اس کی شناخت ایک مشن کے طور پر ہوتی تھی۔ صحافت نام ہی ہے شفافیت، ذمہ داری اور جواب دہی کا، اگر شفافیت اور جواب دہی ہٹتی ہے تو صحافت پی آر (پبلک ریلیشنز) میں بدل جاتی ہے اور اس کی ساری توجہ اسی پر مرکوز ہو جاتی ہے جہاں سے اسے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اس کشمکش کے نتیجہ میں اکثر یہ سوال موضوع بحث رہا کہ کیا میڈیا کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کسی طرح کی گائیڈلائن بنائی جائے یا وہ ازخود اپنا احتساب کرتا رہے گا۔ یہ صحیح ہے کہ جب کبھی بھی میڈیا اپنے صحافتی مشن سے ہٹا ہے تو اس پر تنقید بھی ہوئی ہے اور اسے بھولا سبق یاد کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ میڈیا کا کام آنکھ بند کر کے صرف تشہیری مہم چلانا نہیں ہے بلکہ حقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے صورتحال کو سامنے رکھنا ہے تاکہ قارئین، ناظرین اور سامعین خود سے کوئی فیصلہ کر سکیں۔ اس لحاظ سے الیکٹرانک میڈیا کا ایک بڑا طبقہ اس اصول پر کھرا نہیں اترا اس کے برخلاف اس نے بطور فریق کے اپنا رول ادا کیا جس کی وجہ سے اس کی غیرجانبداری مشکوک ہو گئی۔ پرنٹ میڈیا بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا لیکن اس نے وقتا فوقتا اپنے دامن کو جانبداری سے بچاتے ہوئے خود کو اس کسوٹی پر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام کمیوں کے باوجود میڈیا خود کو جانچنے، پرکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کچھ عرصہ پروپیگنڈہ مہم کا شکار نظر آتا ہے تو یہی میڈیا بعد کے دنوں میں اسی مہم کے تنقیدی جائزے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے لیکن اس جائزے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میڈیا کا اپروچ صرف پوسٹ مارٹم تک ہی محدود ہے بلکہ کارپوریٹ سیکٹر کے تئیں نرم مزاجی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ ایسی صورت میں سماج کے دبے، کچلے، حاشیہ پر رہ رہے، دلتوں، آدی واسیوں، کمزور طبقات ، اقلیتوں اور مسلمانوں کی آواز کیا ارباب اقتدار تک پہونچ سکے گی یا پھر وہ گلیمر کی نذر ہو جائے گی۔ اب تک کے تجربات اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ ان طبقات کی آواز حکومت تک نہیں پہونچ پاتی ہے جس کے نتیجہ میں ان کی حیثیت میں کوئی نمایاں فرق دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔
گذشتہ دنوں ہندوستانی اخبارات کے رجسٹرار آفس (آر این آئی) کی 59ویں رپورٹ ’’پریس ان انڈیا‘‘ جاری کرتے ہوئے مرکزی وزیر اطلاعات ونشریات ارون جیٹلی نے کہا کہ میڈیا خبر دینے کے پرانے اصول سے بھٹک گیا ہے۔ میڈیا کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ ایک ہی خبر کے مختلف زاویے ابھر کر سامنے آتے ہیں اور قاری کو طے کرنا پڑتا ہے کہ اس میں حقیقت کہاں پوشیدہ ہے۔ انہوں نے پرنٹ میڈیا سے کہا کہ اس کے لیے پھر سے اپنا نقش مرتب کرنے کا یہ مناسب موقع ہے کیونکہ ٹی وی چینل پر ہونے والی بحث میں الجھ کر رہ جانے کے بعد قاری حقیقی خبریں تلاش کرتا ہے۔ جس نکتے کی جانب ارون جیٹلی نے میڈیا کو نشانہ بنایا ہے وہ دراصل میڈیا مالکوں سے متعلق ہے جن کی مرضی کے بغیر خبر نہیں آتی ہے اور جس انداز سے آتی ہے وہ صحافی کے نقطۂ نظر سے کم اور مالکان کے نقطۂ نظر سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ کون سی خبر اہم ہے اور اسے کیا مقام ملنا چاہیے یہ طے کرنے کا اختیار گروپ کے سی ای او کو ہے جو کارپوریٹ کا نمائندہ ہے، جبکہ خبر کی حصولیابی اور اس کی ترسیل آج بھی ایک مشن ہے۔ میڈیا پر نگرانی رکھنے والے ایک معروف ادارے کی رپورٹ کے مطابق سال 2015 صحافیوں کے لیے کافی خطرناک رہا ہے، اور دنیا بھر میں تقریبا 110 صحافیوں کو اپنی زندگی سے محض اس لیے ہاتھ دھونا پڑا کہ وہ حقائق کی تلاش میں سرگرداں تھے اور ظلم وبربریت کرنے والوں کو یہ پسند نہیں آرہا تھا کہ ان کے ظالمانہ چہرہ کو دنیا کے سامنے کوئی پیش کرے۔ یہ بات کم اہم نہیں ہے کہ میڈیا رپورٹ نے ہندوستان میں میڈیا کی آزادی کو افغانستان اور پاکستان سے بھی کم بتایا ہے۔ اس کے مطابق صحافیوں کے لیے ان جگہوں سے بھی زیادہ خطرناک ہندوستان رہا جہاں 9صحافی مارے گئے۔ صحافیوں کے تحفظ کے بغیر صحافت پروان نہیں چڑھ سکتی ہے اس لیے اس بابت حکومت کو کوئی واضح حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے تاکہ قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے۔ میڈیا کی اہمیت وطاقت سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا مغربی میڈیا ہندوستانی تہذیب وثقافت کا آئینہ دار ہے۔ میڈیا جس طرح مغربی تہذیب وثقافت کی چمک دمک سے متاثر ہو کر چیزوں کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہے اس نے ہندوستانی سماج اور میڈیا کے مابین ایک دوری پیدا کر دی ہے۔ میڈیا گلیمر کا شکار ہے تو عوام غربت کا۔ ایسی صورت میں میڈیا میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے اور اس کو بھولا سبق یاد دلانے کے مقصد سے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس) نے 14-16 نومبر 2011 کو بنگلور میں ’’گلوبلائزیشن کے دور میں میڈیا ‘‘ کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی اور تین دن کے اجلاس میں دانشوروں، وکلاء، جج، سماجی کارکنان اور میڈیا ماہرین کے باہمی تبادلہ خیال کی روشنی میں یہ طے کیا کہ میڈیا کو ہندوستانی تناظر میں کام کرنے کی جانب راغب کیا جائے تاکہ زمینی سطح پر جو صورتحال ہے وہ سامنے آئے اور پھر اس میں سدھار کی گنجائش پیدا ہو۔ میڈیا جو کہ سماج اور حکومت کے درمیان میڈیم ہے، رابطہ کا کام کرتا ہے اپنی اس خصوصیات کے سبب اسے جمہوریت میں چوتھے ستون کا درجہ حاصل ہے۔ جمہوریت کا یہ چوتھا ستون اسی وقت مضبوط اور مؤثر ہو سکتا ہے جب یہ اپنے اصل مشن سے وابستہ ہو۔ کیونکہ گلوبلائزیشن کے دور میں یہ سمجھنا کہ میڈیا اس سے بچا ہو گا، کسی خام خیالی سے کم نہیں ہے، وہ بھی متاثر ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس سے مایوسی نہیں ہے البتہ میڈیا کو جگاتے رہنے اور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مشن سے جڑا رہے۔ اس پس منظر میں مذکورہ سیمنار ایک اہم پیش رفت ہے۔ ماہرین کی تقاریر اور طے پائی تجاویز کو ’گلوبلائزیشن کے دور میں میڈیا‘ نامی کتاب میں جس طرح سمویا گیا ہے وہ یقیناًقابل قدر کوشش ہے اور صحافت کے طالب علموں کی رہنمائی کے لیے ایک گائیڈ بک ہے جو اپنے قاری کو اس کے ہدف سے ہٹنے نہیں دیتی ہے اور اسے مشن اور پیشہ دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر سکھاتی تھی کہ کس طرح صحافت میں رہتے ہوئے مغربی چکاچوند سے بچتے ہوئے ہندوستانی سماج کی نمائندگی کی جائے تاکہ صحافت کا مشن باقی رہے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنا، اسے قائم رکھنا، سچ کو کھوجنا، سچ کا تحفظ کرنا اور جہاں کہیں خرابیاں درآئی ہیں خواہ وہ سرکاری سطح کی ہو یا اس کے کسی گروہ کے ذریعہ ہو، بدعنوانی ہو یا خوف ودہشت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہو۔ یہ سب آج کے صحافیوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اگر کوئی صحافی اسے قبول نہیں کرتا ہے تو پھر جمہوریت کا مستقبل تاریک ہو گا۔ اس لیے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوریت مضبوط ہو۔ صحافت کے تعلق سے سیاسی پارٹیوں اور برسراقتدار پارٹیوں کا رول بھی شفافیت پر مبنی نہیں ہوتا ہے، اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ حکومت اپنے چاہنے والے اخبار کو بڑھاوا دیتی ہے، کچھ اسی طرح کا معاملہ زبانوں کے سلسلے میں بھی دکھائی پڑتا ہے۔ جس زبان کے اخبار کو حکومت چاہتی ہے آگے بڑھاتی ہے اور اسے سہولیات بہم پہونچاتی ہے، اس کے برعکس جو اخبار مشن کے تحت کام کر رہے ہیں ان کو نظرانداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں ان کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اپنے وجود کو بچانے کے لیے وہ سمجھوتہ کرنے لگتا ہے۔ یہ جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ جمہوریت عوام کے لیے، عوام کے ذریعہ اور عوام سے عبارت ہے۔ اس لیے جمہوریت کو پروان چڑھانا اور اس کا تحفظ کرنا ایک صحافی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ یہاں پر ہمیں خود سے بھی سوال کرنا ہو گا کہ میڈیا کا جو تقدس ہے وہ کس طرح بحال رہے تاکہ جمہوری اداروں کو فروغ حاصل ہو۔ میڈیا جانبداری کے بغیر کمزور طبقات چاہے وہ کسی مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ اگر ظلم وزیادتی کا شکا ہوتے ہیں یا تفریق کا نشانہ بنتے ہیں، ان کی آواز بنتا ہے تو یقیناًاس سے خود میڈیا کی آواز بھی مضبوط اور موثر ہو گی اور اس کی آواز بھی سنی جائے گی جبکہ اسباب کو تلاش کرنا اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لانا ماہرین کی ذمہ داری ہے خواہ وہ صحافت کے میدان میں ہوں یہ دیگر میدان میں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں ماینڈسیٹ کو بدلنا ہو گا اور کسی طبقہ کے بارے میں پہلے سے خیالی اور تصوراتی بنیادوں کے بجائے حقائق پر مبنی رپورٹنگ کے طریقہ کار کو اختیار کرنا ہو گا تبھی ہم صحیح معنوں میں صحافت اور اس کے مشن دونوں کو تقویت پہنچا سکتے ہیں۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |