تاریخ ۱۰؍دسمبر ۲۰۱۴ء
محترمی ومکرمی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی کی جانب سے ’’گلوبلایزینگ دنیامیں ذرائع ابلاغ ‘‘ کے عنوان سے ایک وقیع کتاب کے اجرا کے موقع پر ہندستان کے گوشہ گوشہ سے ممتاز صحافیوں، چیدہ اسکالرز اور نامور دانشوروں نے پروگرام میں شرکت کی اور اس مایہ ناز تحریر میں موجودہ صورت حال پر ذرائع ابلاغ کے اثرات کے مختلف پہلوؤں کے فہم پرہندستان کی مؤثر شخصیتوں نے اپنے خیالات کا اظہا رکیا اور انسٹی ٹیوٹ آبجیکٹیو اسٹڈیز کی اس بیش بہا خدمت کو سراہتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ کے جملہ کارکردگی کی تعریف کی۔ ’’گلوبلایزینگ دنیامیں ذرائع ابلاغ ‘‘ کے موضوع پر اس اہم کتاب کی تالیف ڈاکٹر محمد منظور عالم ، محمد ضیاء الحق، راجو منسکھانی اور آر مَل کوم نے کی ہے جب کہ پرنجے گوہاٹھاکرتا نے کتاب کی تیاری میں معاونت خاص کی ہے۔واضح رہے کہ یہ کوشش بھی آئی او ایس کی ان پیہم مخلصانہ مساعی کا حصہ ہے جنہیں ۱۹۸۶ سے ادارہ قومی اور بین الاقوامی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیق کے فروغ، متعلقہ امور پر سروے، کتابوں اور جرائد کی طباعت کے ذریعہ کرتا رہا ہے؛ اسی طرح ادارہ سماجی پہلوؤں اور تعلیم کے میدان میں بھی سرگرم رہا ہے۔ آپ کی خدمت میں خبر دیتے ہوئے مسرت ہورہی ہے کہ کل کے پروگرام میں جن اہم شخصیتوں نے شرکت کی ان میں سے جن چند افراد کا خطاب ہوا اس کو مختلف اخبارات نے خاص جگہ دی ہے جس میں سے راشٹریہ سہارا اردو کی کٹنگ منسلک ہے اور مندرجہ ذیل چند اخباروں کی نشاندہی کی جا رہی ہے: راشٹریہ سہارا (اردو)، ہندستان ایکسپریس (اردو)، اخبارِ مشرق (اردو)، سیاسی تقدیر (اردو)،ہمارا سماج( اردو)نیشنل دنیا (ہندی) اور شاہ ٹائمز (ہندی) کے علاوہ متعدد اخباروں نے جگہ دی ہے۔ توقع ہے کہ آپ ادارے کی جد وجہد میں معاون ہوں گے اور اس اہم اور بیش قیمتی کتاب کے فروغ میں آپ کا تعاون حاصل ہوگا۔
نیک خواہشات کے ساتھ
ڈاکٹر محمد منظور عالم چیئر مین، آئی او ایس ’’گلوبلائزیشن کے دور میں میڈیا‘‘ کتاب کا رسم اجرا
خبر تھوڑی دیر کی ہوتی ہے لیکن اس کا اثر دیر پا ہوتا ہے: شیلا دکشت
نئی دہلی، 9دسمبر: ’’میڈیا کی معتبریت آج سوالوں کے گھیرے میں ہے، یہ پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں میڈیا میں ہے۔ باوجود اس کے ملک میں اچھے کام ہور ہے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ میڈیا عصمت دری اور دوسرے جرائم پر زیادہ فوکس کررہا ہے۔‘‘ مذکورہ خیالات کا اظہار آج یہاں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس)کی تیار کردہ ’’گلوبلائزیشن کے دور میں میڈیا‘‘ کتاب کی رسم
اجرا کے موقع پر کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دہلی کی سابق وزیر اعلیٰ شیلا دکشت نے کہا کہ خبر تھوڑی دیر کی ہوتی ہے لیکن اس کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ میڈیا کو دنیا میں ہو رہے واقعات کے علاوہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اسے ایمانداری سے جگہ دینی چاہیے۔میڈیا کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وہ جو نشر کر رہا ہے اس سے ہمارے سماج پر کیا اثر پڑ رہا ہے ، انھوں نے کہا کہ علم وہی اچھاجس میں نافع ہونے کی خصوصیت ہو، انھوں نے کہا کہ میڈیا کو ہر حالت میں افادیت کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس موقع پر سابق مرکزی وزیر پٹرولیم اور موجودہ راجیہ سبھا رکن منی شنکر ایئر نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم گلوبلائزیشن کی دنیا میں رہ رہے ہیں، لیکن ہندستان اس میڈیا میں نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ دنیا کے دور کے ملکوں کی بات تو چھوڑ یئے، اپنے ہمسایہ ملکوں میں کیا ہورہا ہے ہمیں اس کی بھی خبر نہیں ہے۔ ایک مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شری لنکا میں مہندر راج پکشا کے صدارتی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے پانچ وزراء نے استعفیٰ دے دیا لیکن ہندستانی میڈیا میں اس خبر کو کہیں جگہ نہیں ملی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں عمران خاں نے وہاں کی سیاست میں بھونچال برپا کردیا لیکن ہندستانی میڈیا میں اس کو کوئی جگہ نہیں دی گئی ۔انھوں نے کہا کہ آج کے اخبار جن شہروں سے شائع ہور ہے ہیں وہ باہر کی خبروں کے بارے میں پوری طرح سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ فلسطین کے مسئلہ پر ہندستان واحد غیر عرب اور غیر مسلم ملک تھا جس نے فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کی تھی ہندستان دنیا کا دوسرا ملک تھا جس نے چین کی نئی حکومت کو تسلیم کیا۔ انھوں نے میڈیا کے منفی رول پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریند ر مودی کی امریکی سفر کے دوران امریکی میڈیا نے ان کے سفر کو کوئی اہمیت نہیں دی لیکن ہندستان کے اخبار ان کی تعریف اور امریکہ کے کامیاب سفر کی خبروں سے بھرے پڑے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نیپال دورے کے دوران جب جنکپوری مندر گئے تو نیپالی اخباروں نے اسے ان کے ملک میں دخل قراردیا لیکن ہندستانی اخبار اس پر خاموش تھے۔ انھوں نے کہا کہ آج کے اخبار ہندستان کی ۷۷ فیصد آبادی کے مسائل کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھتے ہیں۔ اخباروں میں صرف سینسیکس میں اضافے کی خبریں چھاپتے ہیں جو کچھ فیصد لوگوں کے ہی حق میں ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم احمد نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ آئی او ایس کے ذریعہ شائع کی گئی کتاب سے آج کی میڈیا کے مسائل اور تحقیق کرنے کے راستے ہموار ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے ملک میں جہاں تمام مذاہب کے لوگ رہتے ہوں وہاں میڈیا یک طرفہ رپورٹنگ نہیں کرسکتی۔ سہارا اردو کے گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی نے کہا کہ بیرونی ملکوں میں ۲۲ سال رہنے کے بعد جب ۲۰۱۱ میں وہ ہندستان لوٹے یہاں کے میڈیا کا منظر نامہ کافی بدل چکا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہندستانی میڈیا آج مختلف بیماریوں کے زد میں ہے۔ یہ اسی طرح سے ہے جیسے ایک شخص کو دل کے ٹرانس پلانٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا خبروں کے ذریعہ واقعات کی صحیح عکاسی کرے۔انھوں نے کہا کہ پیسہ کے زور پر آج خبریں سننے والوں کے مزاج میں تبدیلی لائی جارہی ہے۔ میڈیا گھرانوں اور خبریں دیکھنے والوں کے رشتوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے جس کے نتیجہ میں چھپنے والی خبروں کی صداقت میں بھاری کمی واقع ہوئی ہے انھوں نے کہا چوتھے ستون کے طور پر ہم پوری طرح ناکام رہے ہیں۔ خلیجی ممالک کے کچھ اخباروں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہاں کے بڑے اخباروں میں ہندستان اور پاکستان جیسے ملکو ں کے لیے الگ صفحات مخصوص کیے گئے ہیں جس میں وہاں کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں صرف سیاسی لیڈران کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اقلیتی امور کے سابق مرکزی وزیر کے رحمن خاں نے کہاکہ ہم میڈیا کو پسند کریں یا نہ کریں لیکن وہ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ ہندستانی میڈیا نظریاتی اقدار اور صحافت کے ضوابط کے خلاف کام کرتے ہوئے خبروں کو توڑ مروڑ کے پیش کررہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ ایک اخبار کی معیشت اس کے اشہارات ہوتے ہیں لیکن اسے قارئین کی قیمت پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ آئی او ایس چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے اپنے صدارتی خطبہ میں صحافت کی تاریخ کو صنعتی انقلاب اور فرانسیسی انقلاب سے جوڑتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجہ میں انسانیت کی غلامی، علاقائی و جغرافیائی غلامی اور ایک خصوصی ثقافت کی بالا دستی کا عروج ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ۲۰ویں صدی میں غلامی سے آزادی کی جدو جہد شروع ہوئی اور اس کے ساتھ ہی استحصال، اچھی حکمرانی، انصاف، برابری، اخوت کو فروغ دینے کی مہم کا آغاز ہوا ،اس مہم میں میڈیا جس میں ریڈیو وغیرہ شامل ہے نے اہم رول ادا کیا۔ انھوں نے کہا کہ ۲۰ویں صدی کی آخری چوتھائی سے ۲۱ویں صدی کے آغاز سے گلوبلائزیشن کا دور شروع ہوا جو تضاد سے بھرپورہے ، جس میں جمہوریت بنام زیادتی، اچھائی بنام برائی، برابری بنام تفریق، انسانیت بنام نسلی بالادستی، انصاف بنام کچھ کے لیے انصاف ، انسانیت بنام غلامی، مال کی صحیح تقسیم،آمدنی بنام استحصال اورانسانی وقار بنام غیر انسانی سلوک جیسے معاملے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ۲۱ویں صدی کا میڈیا دھیرے دھیرے دانستہ یا لاعلمی میں طاقتور لوگوں کو اپنی حمایت دے رہا ہے۔اس موقع پر آئی او ایس سکریٹری جنرل پروفیسر زیڈ ایم خاں، سینئر صحافی جون دیال، نامور صحافی پرنجَے گوہا ٹھکوراتانے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر نکہت حسین ندوی کے تلاوت قرآن مجید سے ہوا،نظامت کے فرائض پروفیسر افضل وانی نے انجام دیے۔ اس موقع پر آئی او ایس کے نائب چیئرمین پروفیسر رفاقت علی خاں موجود تھے، ان کے علاوہ سماجی کارکن، سیاسی لیڈران، صحافی اور طلباء وطالبات کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ |