مودی کے آنے پر امکانات اور خدشات
ڈاکٹر محمد منظور عالم
16ویں لوک سبھا انتخابات کے درمیان آسمان کے رنگ بدلتے دیکھا، ریگستان میں ہریالی دیکھی، زرخیزی میں بیابانی دیکھی، ہریالی میں ویرانی دیکھی، دنیا کی بڑی جمہوریت کو بکتے دیکھا، انسانی خون کی ارزانی دیکھی، قاتل کومعصوم بنانے کی کوشش دیکھی، ظالم کو آزاد گھومتے دیکھا، فسادیوں کو انعام ملتے دیکھا، قانون کی لاچاری دیکھی، قانون کے محافظوں کی تماشہ بینی دیکھی، میڈیا کے ذریعہ پرائم منسٹر بنتے دیکھا، میڈیا کے تقدس کو نیلام ہوتے دیکھا، سچ کی جگہ جھوٹ کو عام ہوتے دیکھا، اچھے ماحول کو خراب ہوتے دیکھا، پر امن فضا کو زہر آلود ہوتے دیکھا، الیکشن ختم ہونے سے پہلے مودی جی کو پرائم منسٹر کی گدی پر بیٹھاتے دیکھا، اس تناظر میں گدی پر بیٹھنے کے بعد مودی جی کیا کریں گے؟ کچھ باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مودی جی ملک کو ایک مضبوط قیادت دینے کا اعلان گذشتہ دو سال سے کررہے ہیں۔ اس دوران انھوں نے یہ کوشش کی کہ ان کے سیاسی ایجنڈہ کی راہ میں بی جے پی کے جو بھی ممبران پارلیمنٹ رکاوٹ بن سکتے ہیں انھیں یا تو سیاسی طور پر ختم کردیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو حاشیہ پر ضرور پہونچا دیا جائے تاکہ ان میں سر اٹھانے کی طاقت باقی نہ رہے۔ آر ایس ایس کی آنکھوں کا تارا بن کر انھوں نے اس مشکل کام کو بحسن وخوبی انجام دیا جس کے لئے ان کی جتنی بھی سراہنا کی جائے وہ کم ہے۔ بی جے پی نے اپنے مینی فیسٹو میں اور مودی جی نے اپنی تقریروں میں اس بات کا اعلان کیا کہ جہاں رام مندر بنانا ہے وہاں مضبوط ملک بھی بنانا ہے۔ پڑوسی ملک اور بالخصوص پاکستان کو سبق بھی سکھاناہے۔ نوجوانوں کو روزگار بھی فراہم کرنا ہے اور ملک میں ترقی وخوشحالی بھی لانی ہے، نوجوانوں کو ایک سمت بھی فراہم کرنا ہے تاکہ ملک کی سرحدیں محفوظ رہیں۔ یہ سارے بیانات فطری طو رپر بہت سی حکمت عملی اور طریقہ کار کا مطالبہ کرتی ہیں۔ چونکہ ابھی الیکشن کا سلسلہ جاری ہے اس لئے رزلٹ کیا ہوگا؟ معلوم نہیں۔ لیکن اگر میڈیا کی بات مان لی جائے تو ان کی وزارت عظمیٰ شک وشبہات سے بلند ہے خواہ حقیقت میں یہ بلند بانگ دعویٰ سورج کی روشنی نہ دیکھ سکے۔ اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے وہ کچھ اس طرح کی حکمت عملی اختیار کرسکتی ہے کہ سبھی ویلفیئر اسکیم چاہے وہ منریگا ہو، فوڈ سیکورٹی قانون ہو، تعلیم یا دیگر فلاحی ورفاعی اسکیم ہو جس کا فائدہ براہ راست کمزور طبقات، بے روزگار اور بغیر گھر دیار کے رہنے والوں کو مل رہا ہے، ان ساری اسکیموں کو نظرثانی کرنے، اس کو موثر بنانے کے نام پر یا خود کفل بنانے کے نام پر چینی محاورے کا استعمال کرتے ہوئے کہ مچھلی تقسیم نہ کی جائے بلکہ کانٹے فراہم کئے جائیں، اسکیموں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوگا۔ قومی سرمایہ کو پرائیوٹائزیشن کے نام پر ان ساری اسکیموں کو ان لوگوں کے حوالے کیا جائے گا جہاں ان کی نئی اسکیمیں کانٹے کی تقسیم کے نقطۂ نگاہ سے میڈیا اپنی پوری طاقت سے کم از کم 6ماہ سے ایک سال تک اس کے حسن وخوبی کو بیان کرتا نظر آئے گا۔ ان اسکیموں کو خود آرگنائز کرنے کے ارادے سے مزدور، کمزور طبقات خواہ وہ دلت ہوں، اوبی سی ہوں، اقلیتیں بالخصوص مسلمان ہوں ان کے گھریلو کاروبار، ہینڈی کرافٹ اور زندگی گذارنے اور پیٹ کی آگ بجھانے کی آمدنی کا جو ذریعہ ہوگا وہ مڈل کلاس کی خواہشات کی تکمیل کے لئے استعمال ہوگا اور کسانوں کی زمین ان مڈل کلاس کے ہاتھوں سستی قیمت پر آمدنی بڑھانے، بیروزگاری دور کرنے اور نوکری دینے کے نام پر حاصل کی جائے گی جہاں غریب مزید غریب ہوگا اور اقتصادی غلامی کا طوق بڑے پیمانے پر پہن کر مڈل کلاس کی آمدنی اور ان کی سہولتوں کو فراہم کرنے میں مصروف کردئے جائیں گے۔
حکومت ملک کو آگے بڑھانے کے لئے پرائیوٹائزیشن پر پوری طاقت صرف کرے گی اور جو سرکاری بڑے بڑے انڈرٹیکنگ ہیں اسے کار پوریٹ ورلڈ کے ہاتھوں اس کے حصص فروخت کئے جائیں گے اور ملک میں پائے جانے والے مڈل اور بڑے کارپوریٹ ورلڈ کو فائدہ پہونچانے اور دوران الیکشن مودی جی کی حکومت بنانے میں جو خرچ کیا ہے اس کو فائدہ پہونچانے کے لئے اس طرح سے قانون وضع کیا جائے گا جس سے ان لوگوں کو اقتصادی ترقی کے نام پر فائدہ پہونچ سکے۔ معاملہ یہاں ہرگز ختم نہیں ہوگا بلکہ بین الاقوامی سطح پر جو بڑے بڑے کارپوریٹ پائے جاتے ہیں جن میں اسرائیل اور امریکا کا زیادہ تر بڑا حصہ ہے اس کے لئے ملک کے چاروں طرف سے دروازے کھول دئے جائیں گے اور روزگار بڑھانے کے نام پر یہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اس سے ہمارا ملک ان کارپوریٹ ورلڈ کی منڈی بنے گا اور ہمارے انسانی وسائل غلامی کا ہتھیار بن کر ان کاموں کو انجام دیں گے۔
ملک کو طاقتور بنانے اور پڑوس کو سبق سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے یہاں مختلف انواع اقسام کے ہتھیار بنائے جائیں۔ اس کا پروڈکشن بڑی تعداد میں ہوگا اور سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے دنیا کے مختلف کارپوریٹ ورلڈ اسلحہ اور گولہ بارود بناتے ہیں ان سے پروڈکشن کے لئے معاہدہ ہو گا جیسا کہ جنرل وی کے سنگھ نے اپنے ریٹائرمنٹ سے قبل کہا تھا کہ ہمارے پاس اسلحہ اور گولہ بارود کی کمی ہے جس کے لئے قدم اٹھایا جانا چاہئے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ میڈیا کے ذریعہ شوروغل کرکے ماحول کو اس کے لئے سازگار بنایا جائے جیسا کہ ہٹلر اورمسولینی نے جنگ کے زمانے میں ماحول کو سازگار کیا تھا۔ جہاں یہ ترجیح دی جائے گی کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں نوجوانوں کو جنگی سازوسامان بنانے کی انڈسٹری میں اتارا جائے، اس کے نتیجہ میں ملک کے اندر ایک جنگی فضا کے بننے کا امکان پیدا ہو گا، جس سے بیروزگاری کا مسئلہ حل ہو اور ہمارا ملک ایک ایسے دہانے پر کھڑا ہوگا جہاں ایشین ممالک پر مستقبل میں جنگ کے بادل منڈلانے لگیں گے۔
ظاہر ہے کہ مذکورہ کاموں کو کرنے کے لئے قانون کو وضع کرنا یا نئے قانون کو تیار کرنا ہوگا۔ اس کے لئے جیوڈیشیل کا رول بہت اہم اور ضروری ہوگا۔ اس کے لئے ایسے ججوں کو سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی جو ان خیالات اور نظریات کی حمایت کرسکیں۔ ججوں کے انتخاب کے لئے کمیشن کے طریقہ کار کو بدلا جائے گا، تاکہ ا وپر سے لیکر نیچے تک اس طرح کے ماحول کو قانونی اور عدلیہ کے ذریعہ مدد مل سکے جیسا کہ اسرائیل فلسطین کے خلاف کرتا رہتا ہے۔
جب قانون کی تبدیلی کے لئے جیوڈیشیل میکنزم میں تبدیلی ہوگی تو رام مندر بنانے کے لئے بھی اس طرح کے قانون وضع کئے جائیں گے جس سے آر ایس ایس کے دیرینہ ناپاک عزائم کی تکمیل ہوجائے اور اسے آگے بڑھانے وبرقرار رکھنے کے لئے سیاسی ریفارم کے نام پر ایسی میکنزم ساتھ آئے گی جس کا جیوڈیشیل سسٹم بھی ساتھ دینے کو تیار ہو، ملک کے تحفظ اور سرحدوں کی حفاظت کے لئے اعلیٰ دماغ کا استعمال کم ہونے لگے گا اور اسرائیل کے ماہرین، امریکا کے ماہرین، سی بی آئی ودیگر جانچ ایجنسیوں پر اعتماد بڑھے گا اور ہمارا ملک سٹیلائٹ کی طرح ایک اقتصادی منڈی کے طور پر استعمال ہوگا۔ چونکہ یہ پورے ملک میں ماحول کو سازگار کرتا رہے گا۔ آر ایس ایس کی بنائی ہوئی جتنی بھی تنظیمیں اور این جی اوز ہیں خواہ وہ بجرنگ دل ہو یا کوئی اور ہندو پرست تنظیم انھیں قانونی سرپرستی یا قانونی تحفظ مل جائے گا اور ملک کی سوچ کے خلاف طاقتور کے نام پر کمزوروں، دلتوں اور اقلیتوں پر مختلف قسم کے الزامات عائد ہوں گے تاکہ ان کے بنائے ہوئے این جی اوز اور آرگنائزیشن پوری طرح سرگرم ہوجائیں اور ماحول کو سازگار بنائیں۔ ایسی صورت میں مسلمان بالخصوص ودیگر اقلیتیں اور کمزور طبقات اپنا دستوری فریضہ سمجھیں گی کہ دستور اور ملک کے قانون کی حفاظت کے لئے آگے بڑھیں جن پر بہت ساری مصیبتیں اور مصائب مختلف نوعیت کی پیدا کی جائیں گی خواہ اس کی شناخت کا معاملہ ہو یا دینی شعائر کا معاملہ، اس کی تہذیب وآداب کا معاملہ ہو، تعلیم وتربیت کا معاملہ ہو سبھی پر زبردست آنچ پڑے گی۔
ان تمام کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے مودی حکومت یہ کوشش کرے گی کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے جتنے بھی غیر قانونی کام کئے تھے خواہ وہ بابری مسجد کی شہادت ہو، گجرات کی نسل کشی ہو اور دیگر ریاستوں یا مظفر نگر میں منافرت پھیلانے کا معاملہ ہو اور خود ان کی گردن پر قانون کا شکنجہ براہ راست یا بالواسطہ بڑھ رہا ہو، اڈوانی، جوشی، اومابھارتی اور سادھوی رتھمبرا وغیرہ کو قانون کے شکنجہ سے بچانے کے لئے ان جانچ ایجنسیوں خواہ سی بی آئی یا ایس آئی ٹی کا استعمال ان مقدمات میں غیر قانونی کاموں کو کمزور کرنے یا کلین چٹ دینے کا کام کریں گے۔ ان سارے کاموں سے مودی اور آر ایس ایس کے اعلان کی تکمیل ہوگی۔
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہم نے تصوراتی حصہ کو زیادہ زور دے کر پیش کیا ہے۔ لیکن میں یہ گذارش ضرور کروں گا کہ تاریخ کو نہ بھولنا چاہے اور تاریخ سے سبق نہ لینا کسی زندہ قوم، کسی زندہ شخص اور کسی زندہ ملک کی پہچان نہیں ہوتی۔ ہٹلر اور مسولینی کی تاریخ بتاتی ہے کہ غلبہ اور برتری کو برقرار رکھنے کے لئے ان لوگوں نے بہت سارے اقدامات بھی کئے تھے ۔ اس لئے ملک کے شہری اور رائے دہندگان اسے خیالی پلاؤ نہ سمجھتے ہوئے اس اندیشے سے بچنے کی کوشش کریں کہ الیکشن کے بعد اس نے عملی شکل اختیار کرلیا تو رونے دھونے سے آنکھوں کی بینائی جاسکتی ہے، تشدد سے ہمارے دماغ کی نسیں پھٹ سکتی ہیں اور بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے لیکن فائدہ اس وقت نہیں ہوگا۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home