بگڑتے حالات میں اولو لالباب(اہل علم) کا کردار
ڈاکٹر محمد منظور عالم
نسلی ،خاندانی ،علاقائی،لسانی اور اس جیسی دیگر عصبیتوں نے ہمیشہ زوال،انحطاط،پستی اور ذلت سے دوچار کیاہے ۔جن قوموں، گروہوں،اور گروپوں نے نسلی ،خاندانی اور جزوی برتری کو بنیاد بناکر حکومت کی ،اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالی یا بادشاہت کا دبدبہ قائم کیا تاریخ میں ان کا تذکرہ اچھے لفظوں میں نہیں ملتاہے ۔ ملک کی ترقی ،سماج کی تعمیر اور انسانیت کی بھلائی میں ان کی خدمات صفر رہی ہے ۔ انسانیت دشمن ، نفرت انگیز، فتنہ پرور اور مملکت کے بدترین حکمرانوں میں ایسے افراد کو شمار کیاگیاہے ۔ جو بھی سماج اور قبیلہ ایسی برائیوں سے دوچار ہواہے ان کا انجام بہت بھیانک ، خوفناک اور عبرتناک ہواہے ۔ ان چیزوں نے قوموں کی تعمیر ،ملک کی ترقی اور انسانیت کو نقصان پہونچایاہے ۔ ایسے ممالک خانہ جنگی کے شکار رہے ہیں ۔ وہاں انارکی رہی ہے ۔ امن وسکون کا فقدان رہاہے۔غربت ،جہالت اور فاقہ کشی سے عوام جھوجھتے رہے ہیں۔ عد ل وانصاف سے رعایا کو محروم ہوناپڑاہے ۔ مساوات اور تحفظ کا تصور معدوم رہاہے ۔
ہندوستان ان دنوں ایسے ہی حالات سے دوچارہے جہاں امن وسلامتی کا فقدان ہے ۔ انصاف کا حصول مشکل ہوتاجارہاہے ۔ عدلیہ کے نظام کو دیکھتے ہوئے اب یہ جملہ زبان زد ہوگیاہے کہ ہندوستان میں حصول انصاف کیلئے عمر نوح ،صبر ایوب اور دولت قارون چاہیئے ۔ مطلب طویل ترین عمر ، صبر اور ہمت کا جذبہ اور اس کے ساتھ بے پناہ دولت ضروری ہے تبھی جاکر انصاف مل سکتاہے جنہیں ان تینوں چیزوں پر قدرت حاصل نہیں ہے ان کیلئے انصاف کا حصول ممکن نہیں رہ گیاہے ۔ مساوات اب برائے نام رہ گیاہے ۔ حقیقی معنوں میں مساوات کا تصور تک ناپید کردیاگیاہے ۔ برابری اور ہم آہنگی کے نام پر امتیازات سب سے زیادہ آج برتے جاتے ہیں ۔ خاندانی ،لسانی ،علاقائی اور نسلی برتری کو بنیاد بناکر مساوات پر حملہ ہورہاہے ۔ آج سے ہزاروں سال قبل سماج کے کچھ لوگوں نے ایک ضابطہ بنادیاکہ ہم فلاں کام کریں گے ۔تم فلاں کام کروگے ، وہ فلاں کام کرے گا ۔ہماری حیثیت آقا کی ہوگی اور تمہاری حییثیت غلام کی ہوگی ۔ ہماری نسل اعلی ،اشرف اور ممتاز ہوگی اور تمہاروں نسلوں کا مقدر غلامی ،ذلت اور رسوائی ہوگی ۔اکیسویں صدی میں یہ گروہ پھر سرگرم ہے ۔ خود کو اعلی ،ممتاز اور سب سے اوپر رہنے کیلئے دوسرے انسانوں کو غلام بنانے کی کوششوں پر عمل پیرا ہے ۔ دولت ،پیسہ ،طاقت اور اقتدار کی بنیاد پر یہ گروہ چاہتاہے کہ ہزاروں سال پرانی روایت پھر لوٹ آئے ۔ ایک طبقہ تمام اہم عہدوں پر قابض رہے ۔ ظاہری برتری والی تمام ذمہ داریاں وہ نبھائے اور بقیہ لوگ اس کے ماتحت بن کر رہیں ۔سماج ،تعلیم ،معیشت ، سیاست ،زبان ،ملازمت ،عبادت تما م چیزوں میں ان کا غلبہ رہے ۔ ان کی برتری رہے بقیہ لوگ ان کے فرماں بردار بن کر زندگی گزاریں ۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ سکتے ہیں کہ کائنات کے تمام وسائل پر یہ صرف اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ اس سے استفاد ہ کیلئے خود کو مخصوص سمجھتے ہیں بقیہ لوگوں کو اس سے محروم کردینا چاہتے ہیں ۔ اکیسویں صدی میں تیزی سے پنپنے والی یہ سوچ انسانیت کیلئے شدید خطرناک اور سماج کیلئے سوہان روح ہے ۔ جب بھی ایسی سوچ اور فکر کے لوگ سماج پر غالب ہوتے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں میں اقتدار ااور حکومت کے باگ دوڑ ہوتی ہے تو ملک کی تصویر بدلنے لگتی ہے ۔ خطرات ،تباہی اور نقصانات کے ساتھ انسانیت ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے ۔آج پوری دنیا میں یہ صورت حال ہے ۔ امریکہ اور یورپین ممالک میں سفید فام اقوام سیاہ فام اقوام کو جانوروں سے بدتر سمجھتی ہے ۔ انہیں زندگی کے حقوق سے محروم کرکے غلامی کی زندگی جینے کیلئے مجبور کررہی ہے ۔ طاقت ،دولت ،پیسہ ،سیاست اور اقتدار کا استعمال کرکے سیاہ فاموں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔ فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں نے عربوں کا جینا مشکل کردیاہے ۔ ان سے ان کی زمین چھین کر اپنا ماتحت اور غلام بنانے کی تحریک چلارکھی ہے۔ میانمار کی بڈھسٹ حکومت نے مسلمانوں سے شہریت چھین کر انہیں بے گھر کردیاہے ۔ اب روئے زمین میں لاکھوں روہنگیا اس صورت حال میں پہونچ چکے ہیں کہ اپنی زندگی گزارنے کیلئے ان کے پاس دو گززمین نہیں ہے ۔ قومیت اور نیشنلٹی نہیں ہے ۔ اسی دنیا میں انہوں نے جنم لیا ،ہوش سنبھالا لیکن آج اس دنیا کی حکومت کہہ رہی ہے کہ آپ کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ امریکہ اور یورپ میں جب سے عسکری قوت آئی ہے مشرق وسطی کو اس نے ہدف بنالیاہے ۔ تیل کے خزانے پر قبضہ کرنے اور قدرتی وسائل سے مالا مال عرب کی سرزمین کو ہتھیانے کیلئے انسانیت اور ہیومن رائٹس اس کیلئے بے معنی ہیں۔ اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے وہ کسی بھی حدتک چلاجاتاہے،بے گناہوں کا خون بہانے پر کبھی اسے کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ اس کی طاقت اور قوت کے سامنے کوئی زبان کھولنے کی بھی ہمت نہیں کرپاتاہے ۔ ایسی ہی صورت حال سے ہندوستان بھی دوچار ہوچکاہے ۔یہاں کے دلتوں اورآدی واسیوں پر ایک مرتبہ پھر صدیوں پرانا نظام تھوپنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے جس کے تحت انہیں انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتاہے۔ وہ ظلم وستم کی مشق گا ہ بنے رہتے ہیں ان کی زندگی کا مقصد صرف سماج کے خود ساختہ اشرافیہ کی غلامی ،فرماں برداری اور اطاعت ہوتی ہے اور ایسا نہ کرنے کی پاداش میں انہیں بدترین سزا کا مستحق سمجھا جاتاہے ۔ ہندوستان سمیت دنیا بھر کی صورت حال بتاتی ہے کہ ایک مرتبہ پھر جنگل راج لوٹ کر آچکاہے ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا زمانہ گردش کرکے واپس آچکاہے ۔ اقوام متحدہ ۔عالمی عدالت ،ملکی آئین برائے نام رہ گئے ہیں ۔ انصاف ،مساوات ، آزادی اور تحفظ صرف کاغذات تک محدود ہوگئے ہیں ۔حقیقی معنوں میں انسانیت کی عزت اب ذلت میں تبدیل کردی گئی ہے ۔ انسانی وقار اب سلب کرکے مخصوص لوگوں کا تمغہ بنادیاگیاہے ۔کیا دنیا کی یہ تصویر آپ کو نہیں جھنجھوڑتی ہے ؟۔ اہل علم اور دانشمندر کیلئے یہ چیزیں فکر کا سبب نہیں بن رہی ہیں؟ ۔ عصر حاضر کے اولالباب زمانے کے بدلتے حالات میں اپنا کردار نبھانے سے قاصر ہوچکے ہیں ؟ کیا قوم اور ملک کے دانشوران اخلاقی زوال ،قومی انحطاط ، مذہبی منافرت ، انسانیت سے گری ہوئی حرکت اور سماجی پستی سے پریشان نہیں ہیں ؟۔ انسانی تاریخ میں ملک ،سماج اور معاشرہ ایسے بدترین حالات سے دسیوں مرتبہ دوچار ہوا ہے لیکن ہر مرتبہ اس دور کے اولالباب اور اہل علم نے اس کی سنگینی کا احساس کیا ۔ میدان میں قدم رکھا اور ایسی تباہ کن بیماریوں کا خاتمہ کیا ۔حالیہ دنوں میں ملک اورپورا عالم ایک مرتبہ پھر نسلی ،علاقائی ،لسانی ،خاندانی عصبیت اور برتری کا شکار ہے جس کی وجہ سے معاشرہ نشیب وفراز کا شکار ہوچکاہے ۔ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے ۔ حالات انتہائی پیچدہ ،مشکل اور افسوسناک بن چکے ہیں ایسے بدترین وقت میں اولالوالباب کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھل کر میدان میں آئیں ،مورچہ سنبھالیں ،سماج کو نت نئی بیماریوں سے بچائیں ۔ قوم اور ملک کے نوجوانوںکو سیدھاراستہ دیکھائیں ۔ ان کے ذہن کو نفرت اور اشتعال کے ماحول سے دور رکھیں ۔جو لوگ نفرت ،اشتعال اور فرقہ پرستی کو فروغ دے رہے ہیں ۔بچوں تک کے ذہن کو خراب وبرباد کررہے ہیں ا س سے معاشرہ کو محفوظ رکھیں ۔ایسے عناصر کے خلاف سماج میں تحریک چلائیں ۔ اصلاح کی مہم شروع کریں ۔ امن وسلامتی ، مذہبی ہم آہنگی اور انسانیت کو وقار بخشنے کی مہم کا آغاز کریں ۔ دستور ہند پر عمل کرنے کا مزاج پیدا کریں ۔ قانون کی بالادستی کو فروغ دیں ۔ آئین ہند اور اقوام متحدہ کے عالمی منشور کے مطابق حکومت ، سماج ، معاشرہ اور سوسائٹی کے اقدامات کو یقینی بنائیں ۔ دستور کی پابندی ،قانون کی بالادستی اور آئین پر عمل کرناکسی بھی ملک ،معاشرہ اور مملکت کی ترقی کیلئے اولین اور بنیادی شرط ہے ۔ ہر ملک کا ایک دستور اور آئین ہوتاہے جس کا مقصد تمام شہریوں کو ایک نظام کا ماتحت بنانا ، انہیں انصاف فراہم کرنا ،سماج کو پرامن بنانا اور ان کی باہمی ضرروریات کی تکمیل ہوتی ہے ۔ ایسے ہی مقاصد کیلئے اقوام متحدہ نے ایک عالمی منشور بنارکھاہے جس کا مقصد پوری دنیا میں امن وسلامتی کا فروغ اور انہیں جنگ وجدال اور تنازع سے دور رکھنا ہے ۔ اگر کوئی اختلاف اور تنازع ہوتاہے وہ منشور کی روشنی میں حل نکالیں ۔ دستور میں دیئے گئے حقوق کے مطابق اپنا فیصلہ کریں تاکہ کسی پر ظلم ،زیادتی اور تشدد نہ ہو ۔ کوئی انصاف ،امن ،تحفظ اور مساوات سے محروم نہ ہوسکے ۔ اس لئے آئین کی بالادستی کو بڑھا و ادنیا اس پر عمل کرنے کا مزاج پید ا کرنا ۔ خود کو قانون کے تابع سمجھنا ور سماج میں اس کی مہم چلانا ،ہر ایک کو اس کا پابند بنانے کی تحریک چلانا وقت کی اہم ترین ضرروت ہے ۔ آج کے دور میں یہی چیزیں اولالباب سے سب سے زیادہ مطلوب ہیںاور یہ ان کے فرائض میں بھی شامل ہے ۔ (کالم نگار معروف دانشور اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں ) |