’’جدید تعلیمی پالیسی سے متعلق مشاوری نشست‘‘ کا انعقاد
جدید تعلیمی پالیسی پر تجاویز کا جائزہ لینے کے لیے سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل
نئی دہلی، 10؍اگست: ’’موجودہ مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے دیباچہ میں یوگا، سنسکرت، سوریہ نمسکار اور قدیمی ثقافت کی تعریف جیسے نکات شامل کیے ہیں جس سے اس کی تعلیم کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کا اعادہ واضح ہوجاتا ہے۔ ہمیں ان سب سے باخبر رہتے ہوئے ایسی سوچ کی سفارشات حکومت کو بھیجنی ہوگی جس میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی بات ہو‘‘۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نہرو گیسٹ ہاؤس کے کمیٹی روم میں انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز (آئی او ایس) کے زیر اہتمام ’’جدید تعلیمی پالیسی سے متعلق مشاورتی نشست‘‘ کی صدارت کرتے ہوئے آئی او ایس چیئرمین ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کیا۔ انھوں نے کہا کہ اچھے دماغوں کے ساتھ ایسے لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا ضروری ہے جن کا قلم بھی مضبوط ہے۔ انھوں نے نشست میں آئے سبھی شرکاء سے کہا کہ وہ نئی تعلیمی پالیسی پر اپنی تجاویز 11؍اگست 2016 تک بھیج دیں تاکہ انہیں یکجا کرکے حکومت ہند کو بھیجا جاسکے۔ اس موقع پر تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے ماہرین، اساتذہ اور کارکنان سے حاصل ہونے والی تجاویز کا جائزہ لینے کے لیے ایک سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل کا اعلان بھی کیا۔ اس کمیٹی کے ممبران آئی او ایس کے سکریٹری جنرل پروفیسر زیڈ ایم خان، اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیوسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایم اسلم اور آر ٹی ای فورم کے نیشنل کنوینر امبریش رائے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ کمیٹی اپنی سفارشات مرکزی حکومت کی وزارت برائے انسانی وسائل کو بھیجے گی۔ انھوں نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات کو سبھی سیکولر ممبرانِ پارلیمنٹ کو بھی بھیجا جائے گا تاکہ وہ بھی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کی تعلیمی ضروریات کو محسوس کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ انفرادی طور پر سبھی ممبران پارلیمنٹ ایسی تجاویز کر پسند کرتے ہیں لیکن جب پارٹی کی سطح پر معاملہ پہنچتا ہے تو وہ پارٹی لائن سے الگ نہیں ہوپاتے۔ ڈاکٹر عالم نے یہ بھی اعلان کیا کہ چونکہ نئی تعلیمی پالیسی کی تشکیل میں ابھی وقت ہے اس لیے ہندوستان کے شمال وجنوب اور مشرق ومغرب کے کسی بڑے شہر میں چار بڑے بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں پڑھے لکھے نوجوان ، اسکول کے اساتذہ اور دانشوروں کو مدعو کیا جائے گا۔
آئی او ایس سکریٹری جنرل پروفیسر زیڈ ایم خاں نے اپنے افتتاحی کلمات میں نئی تعلیمی پالیسی کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی آئین کے دیباچہ کی روح سیکولرازم ہے اور سیکولر ایجوکیشن ہی ملک کو ترقی کے راستے پر لے جاسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی تعلیم بچے کی ہمہ جہت ذہنی ترقی کی غماز ہے اور دائیں بازو کی تنظیمیں اس کو دوسرے رنگ میں رنگنے کی کوشش کررہی ہیں۔ ہمیں علاقائی جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایم اسلم نے کہا کہ آج تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ سب کو تعلیم دستیاب نہیں ہے۔ تعلیم کا معیار بھی کافی نیچے ہے اور نئی تعلیمی پالیسی بچوں کو بھی روزگار کی طرف لے جانے کے بات کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی تعلیم میں آئی ٹی کے شامل ہونے سے ہم تعلیم کے مقصد سے دور ہوجائیں گے، اس لیے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ آخر تعلیم کا مقصد کیا ہے۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو سماج کے سبھی طبقوں کو دستیاب ہو۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں انھیں کالج تک پہنچانے کا بندوبست کرنا چاہیے۔ آج مسلمانوں میں بیروزگاری عام ہوگئی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ نہیں کرپارہے ہیں۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ ہمیں اپنی قوم کے لیے ایسی تعلیم کا بندوبست کرنا چاہیے جو سماج کو کچھ مثبت دے سکے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے فیکلٹی آف ایجوکیشن کے پروفیسر شعیب عبد اللہ نے کہا کہ تعلیم پر بنائی گئی کوٹھاری کمیشن بہت ہی مثبت تھی۔ اس کمیشن میں تعلیم نسواں اور دوسرے طبقوں کی تعلیم پر بھی زور تھالیکن موجودہ تعلیمی پالیسی میں نہ تو اقلیتوں کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی دلتوں کا کوئی ذکر ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں سرکار نے اپنے تئیں کوئی رول نہیں رکھا ہے اور تعلیم کی آؤٹ سورسنگ کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کا جھکاؤ نجی زمرہ کی طرف زیادہ ہے، اگر یہی حال رہا تو یہ پالیسی صرف صنعت کاروں کے ہاتھ میں کام کرے گی۔ انسٹی ٹیوٹ آف ہارمنی اینڈ پیس اسٹڈیز کے فاؤنڈر ڈائریکٹر ڈاکٹر ایم ڈی تھامس نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ یہ ان مسائل کا بھی حل نہیں تلاشتی ہے جو آج کی تعلیم کے سامنے درپیش ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی آئین میں دیے گئے اصولوں کی بھی عکاسی نہیں کرتی ہے۔ آرٹی ای فورم کے نیشنل کنوینر امبریش رائے نے کہا کہ یہ ملک میں تیسری تعلیمی پالیسی ہے۔ یہ نئی تعلیمی پالیسی ملک کو صرف تباہی کی طرف لے جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد سب کو یکساں مواقع فراہم کرنا ہے اور وہ تعلیم جس کو سماج سے منقطع کردیا جائے بے معنی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں نجی زمرہ کے بھی رول کو شامل کیاگیا ہے جس کے نتیجہ میں تعلیم ایک کاروبار بن کر رہ جائے گی۔ سرکار کی ذمہ داری تعلیمی ادارے چلانا، ان کو فنڈس مہیا کرانا اور بچوں کے ذہنوں کو مثبت سوچ کی طرف مائل کرنا ہے لیکن نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اب ملٹی نیشنل کمپنیاں تعلیم کے میدان میں آرہی ہیں جو اسکول کھول کر اپنا کاروبار کریں گی۔ انھوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں تعلیم کا کاروبار تین ٹریلین سے بھی زیادہ کا ہوجائے گا۔ آج حالت یہ ہے کہ گاؤں میں چھوٹے اسکولوں کو بڑے اسکولوں میں ضم کیا جارہا ہے اور اگر یہی حال رہا تو سرکار اسکولوں سے اپنا ہاتھ کھینچ لے گی اور اقلیتوں اور دلتوں کے لیے چلائے جارہے اسکول بند ہوجائیں گے۔ تعلیم کے میدان میں کام کرنے والی محترمہ ناز نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں تمام اہم مسائل کو درکنار کردیا گیا ہے۔ اس پالیسی میں جن چیزوں پر زور ہے اس سے تعلیم کو فروغ ملنے والا نہیں ہے۔جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری مولانا نعیم فلاحی نے کہا کہ آج کوچنگ کے تعلیمی ادارے کی بھرمار ہوگئی ہے جس سے تعلیم کا نقصان ہورہا ہے اس طرح کے کوچنگ کا کام صرف کاروبار کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ موجودہ حکومت لوگوں پر ایک خاص نظریہ تھوپنا چاہتی ہے جس میں یوگا، سوریہ نمسکار اور سنسکرت کی بات کہی گئی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بچوں کو تعلیم ان کی مادری زبان میں دلائی جانی چاہیے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ایجوکیشن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین قاسمی نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی صرف کاروباریوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ آج گاؤں کی حالت یہ ہے کہ تقریباً 90فیصد لڑکیاں اس لیے اسکول نہیں جاتی ہیں کہ اسکول دوسرے گاؤں میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں مدرسہ تعلیم کو بھی غائب کردیا گیا ہے۔ تسمیہ ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر سید فاروق نے کہا کہ تعلیم ہمیں اپنی بات کہنا سکھاتی ہے، روزگار کے طریقے بتاتی ہے اور جینا سکھاتی ہے۔ یہ تینوں جزو مل کر ہی تعلیم کو مکمل بناتے ہیں۔ ہمیں ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جس میں تعصب کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ |