قلیل حکومت اور کثیر حکمرانی میں اقلیتیں:ایک جائزہ
ڈاکٹر محمد منظور عالم
مرکز کی نریندر مودی قیادت والی این ڈی اے حکومت 11ویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے اور اگلے ماہ 26مئی کو اس کے اقتدار کا ایک سال پورا ہوجائے گا۔ کسی بھی پارٹی کے اقتدار کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے ایک سال کا عرصہ کافی ہوتاہے۔ حکومت کے چھ ماہ جہاں اس کی پالیسی اور ایجنڈوں کو واضح کرتی ہے وہاں اگلے چھ ماہ اس کی کارکردگی کو سامنے لاتی ہے۔ ایک سال کی مدت میں اس کے دعوؤں اور وعدوں کے بیچ زمینی حقیقت کیاہے اور کس حد تک اس نے اپنی پالیسی اور پروگرام کو زمینی سطح تک پہونچا کر عوام الناس کو مستفید کیا ہے۔ بی جے پی قیادت والی اس حکومت کی کارگردی کا جائزہ اس لیے بھی بہت ضروری ہوجاتا ہے کہ اس کی اپنی ایک مخصوص سوچ ہے اور آر ایس ایس جیسی تنظیم کے ایجنڈہ کو اختیار کرتی ہے جس میں اقلیتوں کو تنگ نظری سے دیکھا جاتاہے۔ اس تناظر میں جب ہم صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں توکئی ایسے گوشے نظر آتے ہیں جہاں اقلیتوں کے تئیں حکومت کا رویہ نہ صرف مبہم سا رہا ہے بلکہ انہیں شرپسند عناصر کے بھروسے چھوڑ دیا گیا ہے گو کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اس بات کو دہراتے نہیں تھکتے ہیں کہ ملک کی اقلیتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی برداشت نہیں کی جائے گی لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جتنی شدت سے حکومت کے یہ دونوں ذمہ دار اپنے موقف کو پیش کرکے اقلیتوں کو ڈھارس بندھانے کی کوشش کرتے ہیں اتنی ہی طاقت سے شرپسند عناصر اقلیتوں کے خلاف زبان استعمال کرتے ہیں اور جس طرح کا جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اس کو دیکھ کر کوئی بھی سنجیدہ آدمی یہ کہے بغیر نہیں رہتا ہے کہ یہ بے لگام ہوگئے ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں کیونکہ اس سب کے باوجود ان پر کسی طرح کی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ یہ صورتحال کسی بھی حکومت کے نظم ونسق کو بنائے رکھنے کے دعویٰ سے میل نہیں کھاتی ہے۔
اقلیتوں کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی کا اندازہ خود حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں دئیے گئے اس اعداد وشمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیوجی نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ اس سال جنوری 2015میں ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ تصادم کے 72واقعات ہوئے جس میں 11لوگوں کی اموات ہوئیں اور 218زخمی ہوئے۔ جبکہ سال برائے 2014میں پورے ملک میں 644فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات ہوئے جس میں 95جانیں گئیں اور 1921افراد زخمی ہوئے۔ ان میں زیادہ تر واقعات اترپردیش میں ہوئے جن کی تعداد 133ہے۔ دیگر ریاستوں جیسے مہاراشٹر 97، گجرات74،کرناٹک 73، راجستھان72، بہار61، مدھیہ پردیش56 اور دہلی میں 6واقعات درج کیے گئے ہیں۔ فرقہ وارانہ تصادم کے ان واقعات کے نتیجہ میں ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال نہ صرف خراب ہوئی بلکہ اقلیتوں پر ظلم وتشدد کے سبب ان میں خوف ودہشت پیدا ہوا اور عملاً سماج کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
اس پس منظر میں اگر ہم وزیر اعظم کے ترقی کے دعوؤں کو دیکھیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ اقلیتوں کی تعلیم، صحت اور سوشل سیکٹر جو ترقی کی ضمانت دیتا ہے اس کے بجٹ کو حکومت نے کم کردیا ہے۔ سماج میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جذبہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب سماج کی سبھی اکائی آپس میں مربوط ہوں اور ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوئے بڑھیں، لیکن جب سماج کی ایک اکائی میں خوف ودہشت پید اہوگا تو فطری طور پر وہ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے عمل میں شریک نہیں ہوسکے گی، جس کی وجہ سے اس کا پیچھے رہ جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ ملک کی ترقی کی رفتار رک جائے گی اور جس خواب کو وزیر اعظم نے دیکھا ہے اور باشندگان ملک کو دکھارہے ہیں اس کا حصول ناممکن ہوجائے گا۔ سوال یہ ہے کہ جس ترقی کا دعویٰ اور وعدہ کیا جارہا ہے کیا اقلیتوں کی شمولیت کے بغیر مکمل ہوجائے گا؟ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے سافٹ ویئر کی بین الاقوامی کمپنی وپرو کے چیئرمین عظیم پریم جی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ہمارا ملک کثیر ثقافتی اور کثیر تہذیبی ملک ہے اور سبھی کو اپنے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی آزادی آئین ہند نے دی ہے۔ اس سے قبل معروف صنعتی ادارے فکّی کی نئی صدر محترمہ جیوتسنا سوری نے بھی اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حال کے دنوں میں جس طرح تبدیلی مذہب جیسے ایشوز کو اٹھانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ حکومت کے ذریعہ کی جارہی ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ حکومت اور بی جے پی کے لیڈران ان عناصر پر قابو پانے کی کوشش کریں گے جو حکومت کے ترقیاتی ایجنڈہ کو متاثر کرنا چاہ رہے ہیں۔
فرقہ وارانہ تصادم کے یہ وہ واقعات ہیں جو وقوع پذیر ہونے کے سبب درج ہوئے اور جس کا اعتراف خود حکومت نے کیا لیکن فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے میں جس زبان کا استعمال کیا گیا اور جس کے نتیجہ میں یہ واقعات رونما ہوئے وہ ابھی بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ ان پر نہ تو کسی طرح کا کیس درج ہوا ہے اور نہ ہی انھیں انتظامیہ کی جانب سے کسی طرح کی سرزنش کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل ماحول کو خراب کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے تدارک کے اقدامات تو کجا جو کوششیں کی جارہی ہیں اس سے اقلیتوں میں مزید دہشت پیدا ہورہی ہے۔ مثال کے طور پر عیسائیوں کے تہوار گڈفرائی ڈے کے دن ہائی کورٹ کے جج اور وزرائے اعلیٰ کی کانفرنس اس سے قبل 25دسمبر کو بڑے دن کے موقع پر ’بہتر حکمرانی‘ کے طور پر منانا یہ ایسے امور ہیں جو اقلیتوں میں عدم اعتماد بڑھاتے ہیں۔
وشو ہندو پریشد کی گولڈن جبلی کے موقع پر انتہا پسندوں نے اشتعال انگیزی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بارپھر مسلمانوں کو نشانہ بنایااور کہا کہ مسلمان اگر عزت چاہتے ہیں تو ہندو بن جائیں۔ یہ بات وشو ہندو پریشد کے جوائنٹ جنرل سکریٹری ڈاکٹر سریندر جین نے تقریر کرتے ہوئے کہی۔ اس سے قبل آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت بھی کہہ چکے ہیں کہ اس ملک میں کوئی اقلیت نہیں ہیں۔ دونوں نے ایک ہی بات کہی لیکن انداز جدا ہے۔ یہ تصور آئین ہند کے خلاف اور منواسمرتی کے عین مطابق ہے۔ اس سے قبل بھوپال میں مدھیہ پردیش کی سادھوی بالیکا سرسوتی مشرا نے کہا کہ میں ہندو لڑکیوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ مسلمانوں لڑکوں کو دیکھتے ہی پتھر ماریں۔ وشو ہندو پریشد کی لیڈر اور کن پارلیمنٹ سادھوی پراچی نے ہندوؤں سے تینوں خاں اداکاروں (شاہ رخ، سلمان اورعامر) کی فلموں کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ بی جے پی کے ایک دوسرے لیڈر اور اناؤ سے ایم پی شاکشی مہاراج نے بھی ہندوؤں کو زیادہ بچے پید اکرنے کا مشورہ دیا لیکن بی جے پی نے شاکشی کے اس بیان سے خود کو الگ کرلیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مسلم اقلیت بالعموم اور مسلمان بالخصوص کے خلاف اشتعال انگیزی اور جارحانہ رویہ کا اظہار خود حکومت کے وزراء کی جانب سے ہورہا ہے جس میں ایک خاتون وزیر نے ایسی گندی زبان استعمال کیاکہ اسے دہرانا بھی شریف اور مہذب انسان کو پسند نہیں۔ محترمہ کی گرفت کرنے کے بجائے یہ کہہ کر ان کا دفاع کیا گیا کہ وہ جھوٹی ذات کی ہیں اور پہلی بار وزیر بنی ہیں اس لیے انھوں نے جو بات کہی ہے اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو نکالا جارہا ہے۔ لیکن دیگر جن لیڈروں نے نازیبا کلمات کا استعمال کیا ہے وہ سب اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر چھوٹی ذات کو ہی نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ وزیر اعظم اپنے وزراء کو دائرہ میں رہنے کی ہدایت کررہے ہیں لیکن اس کا کوئی اثر ان عناصر پر دکھائی نہیں پڑرہا ہے۔ اس کے برخلاف حکومت کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے تئیں اتنی ہی فکر مند ہیں جتنا کہ خود اقلیتیں فکر مند ہیں لیکن دونوں کی فکر مندی میں کوئی ربط یا تال میل نہیں ہے۔ اقلیتوں کو تشویش اپنے تشخص کے تحفظ کو لیکر ہے اور حکومت کو کتنی تشویش ہے اس کا اظہار اس کے ذریعہ کیے جارہے اقدامات سے واضح ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک جن اندرونی خطرات وانتشار سے دوچار ہے، کیا حکومت اس پر قابو پانے کے ٹھوس اقدامات کرے گی۔ وہ اقدام جو محض زبانی نہ ہوں بلکہ عملی طور پر دکھائی دیں۔ حکومت اس تعلق سے پیش رفت کرتی ہے تو یقیناًیہ ملک کی ترقی اور اس کے روشن مستقبل کا ضامن ہوگا اور اسی میں ملک اور قوم کی بھلا ئی ہے۔
جہاں تک میڈیا کی بات ہے وہ ابھی تک مودی کے سحر سے نہیں نکل سکا ہے یہی وجہ ہے کہ عوامی مفاد کے خلاف جو بجٹ آیا ہے اس پر گہرائی سے بحث نہیں کی اور نہ ہی حکومت کی توجہ اس جانب دلائی۔ میڈیا اگر اپنے رول کو صحیح طریقے سے ادا کرے تو یہ بات یقینی طور پر کہا جاسکتی ہے کہ جو عناصر سماجی تانا بانا توڑنے کے درپے ہیں میڈیا ان کو بے نقاب کرکے سماج کو تقسیم سے بچانے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں میڈیا اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تیار رہے گا۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)




Back   Home