سوامی وویکانند کی تعلیمات اور ہمارے وزیر اعظم
ڈاکٹر محمد منظور عالم نائین الیون کی تیرہویں برسی کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے وویکانند کی تعلیمات کو عالمی امن اور بھائی چارہ کی علامت بتاتے ہوئے کہا کہ اگر ان پر عمل کیا جاتا ہے تو امریکا میں یہ واقعہ نہ ہوتا۔ کسی بھی سماج اور ملک کے لیے بھائی چارہ بہت اہمیت کا حامل ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ تمام نظریات اور مذاہب میں اس کو فوقیت دی گئی ہے۔ قدیم روایات میں اس کے شواہد ملتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ چیز سماج سے عنقا ہوجاتی ہے جس کی جانب متوجہ کرانا ضروری ہوتاہے۔ بھائی چارگی کا نظریہ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے اور اس کے دو اجزائے ترکیبی ہیں۔ ایک انصاف اور دوسرا برابری، اگر یہ دونوں قائم ہیں تو بھائی چارگی بھی پروان چڑھتی ہے اور جب بھائی چارگی پروان چڑھتی ہے تو اس سے انسان کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے جو اس کی آزادی سے عبارت ہے۔ اس طرح انصاف، برابری اور بھائی چارگی کی بنیاد پر انسان کی عظمت قائم ہوتی ہے اور آزادی اس انسانی عظمت کو برقرار رکھتی ہے۔
برابری کا آغاز اس سے ہوتا ہے کہ ساری دنیا کے انسان خالق کائنات کا ایک کنبہ ہیں جو آدم اور حوا کے ذریعہ قائم ہوا، چونکہ سب کے ماں باپ ایک ہیں تو اس کے اندر بھید بھاؤ، اونچ نیچ، چھوٹا بڑا، اعلیٰ نسل، کالے پیلے، سفید یا مختلف رنگ ونسل قائم نہیں ہوتی۔ یہ وہ سبق ہے جو انسان کو اس کی تخلیق کے وقت سے دیا جارہا ہے اور جب جب انسان گمراہ ہوا ہے، حقیقت سے دور بھاگا ہے، بھید بھاؤ کے راستے کو اختیار کیا ہے۔ اعلیٰ نسل او رکمتر نسل کی بات کی، کالے گورے میں فرق کیا، ذات برادری کی بنیاد پر کسی کو حقیر سمجھا اور نسل کی برتری کی بنیاد پر پوری انسانیت کو بانٹاہے تو اللہ تبارک تعالیٰ نے ہمیشہ سبق دینے کے لیے پیغمبروں کا سلسلہ رکھا ہے اور پیغام امن آدمؑ سے شروع ہوکر نبی آخریؐ پر مکمل ہوا۔ یہ پیغام برابری اور انصاف کا تھا جو انسانیت کو اصل مقام پر پہونچا تا ہے اور انسان کو ہر طرح کی غلامی کے شکنجہ سے بچاتا ہے اور استحصالی ذرائع کو مٹا تا ہے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب انصاف قائم ہو، انصاف کا بول بالا ہو اور وہ نظر آئے۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ جو سچ ہے اس کی نبیاد پر فیصلے دئیے جائیں خواہ وہ فیصلے خود کے خلاف ہوں، ماں باپ کے خلاف ہوں، گروہ کے خلاف ہوں، اپنے قبیلہ کے خلاف ہوں،انصاف اس وقت ختم ہونے لگتاہے جب برابری کے تصور کو ختم کردیا جاتا ہے اور بھید بھاؤ کا بول بالا ہوتا ہے۔ انصاف کے ختم ہونے پر انسانیت کراہتی ہے، کمزور کا استحصال کیا جاتا ہے، اس کی عزت و آبرو سے کھیلا جاتا ہے، ان کو غلام بناکر انسان کی جگہ جانور سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ ایک جگہ بیٹھ کر پانی بھی نہیں پی سکتے اور نہ ہی ایک کنویں سے اپنی پیاس بجھا سکتے۔ ایسے لوگوں کی جان ومال سے کھیلنا، اس نسل پرستی، اونچ نیچ اور چھوٹے بڑے نسلی امتیازات کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔ اس لیے انصاف قائم نہیں ہوسکتا، جب انصاف قائم نہیں ہو سکتا تو یہ ممکن نہیں کہ وہ تمام افراد، گروہ یا مذاہب کے ماننے والے ٹھیکیدار چاہے جس شکل میں ہوں اور چاہے جس مذہب میں ہوں وہ اپنا مذہبی او رنسلی حق سمجھتے ہیں کہ انھیں دباکر رکھا جائے تاکہ وہ جانوروں کی زندگی گزاریں۔ جب یہ دونوں چیزیں قائم ہوتی ہیں تو بھائی چارگی قائم ہوتی ہے۔ جسے ہم بھائی چارہ یا یونیورسل برادر ہوڈ (عالمی بھائی چارہ) کہتے ہیں لیکن اگر یہ دونوں چیزیں قائم نہیں ہوتی ہیں تو یہ ممکن نہیں کہ یونیورسل برادر ہوڈ قائم ہوسکے۔ ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب یہ دونوں چیزیں ختم ہوتی ہیں تو ماضی کی تاریخ اٹھاکر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ 19ویں اور 21ویں صدی کے کچھ حصے خواہ وہ پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری جنگ عظیم، چاہے وہ ہٹلر ہو یا مسولینی یا پول پارٹ ہو۔ ان دونوں کمیوں کی وجہ سے پوری 20ویں صدی جہنم بنتی رہی جس کے اثرات آج بھی قائم ہیں۔ 21ویں صدی کے آغاز میں جارج بش اور ان کے ہم نوا ممالک کے اندر وہی ناانصافی کا دور دورہ رہا جس کی وجہ سے پوری دنیا جنت نشان بننے کے بجائے جہنم کی طرف ڈھکیلی جارہی ہے اور مختلف شکلوں جیسے خوں ریزی، عزت وآبرو سے کھیلنا، انسانوں کو تباہ کرنا، امن کے نام پر بدامنی، ناانصافی کو پروان چڑھانا، سفید کا کالے اور غریب کا امیر پر کوئی حق نہیں ہوسکتا بلکہ یہ دونوں ان کی خوشنودی کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ انصاف، برابری اور بھائی چارگی ان تینوں کا فطری حصہ ہے کہ وہاں آزادی ہو۔ آزادی انسانی فطرت کی متقاضی ہے کہ وہ اپنی سوچ، سمجھ، معلومات، علم اور اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اسے قبول کرے، برابری اور انصاف جب ختم ہوتا ہے تو آزادی سلب کرلی جاتی ہے اور بھائی چارگی لاچار ہوجاتی ہے۔ ہندستان کے دستور ساز افراد نے اس حقیقت کو دور اندیشی کے ساتھ محسوس کیا اور اس نے اپنے دیباچہ میں برابری، بھائی چارگی، انصاف اور آزادی کو شامل کیا۔ یہ ہندستان کے دستور کا اعلیٰ وارفع مقام ہے جہاں مشترکہ تہذیب وتمدن مختلف اکائیوں، زبان اور مذہب کو سمائے رکھتے ہوئے مستقبل کا ایک اعلیٰ نمونہ بننے کے لیے دستور کے دیباچہ میں ان پہلوؤں کو شامل کیا گیا مگر بدنصیبی سے دستور کے اس دیباچہ میں جو چیزیں شامل کی گئیں اس کو ملک کی آبادی کا ایک سخت گیر حلقہ جسے عام طور پر آر ایس ایس کہتے ہیں اور اس کے ہمنواؤں نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اسے پامال کرنے کی ہر طرح سے کوشش کی بقول ملائم سنگھ یادو ’’یہ ہمارے ملک میں ہوا جو کسی ایک قوم کا قاتل تھا وہ وزیرا عظم بن گیا‘‘ جس کے نتیجہ میں پروین توگڑیا،اشوک سنگھل، لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی وغیرہ نے دستور کے اس دیباچہ کو پامال کرنے میں نمایاں رہے جس میں سب سے زیادہ جو پامال ہوا وہ وویکانند کا یونیورسل برادر ہوڈ کا پیغام ہے۔ وہ پیغام جو بیشتر مذاہب کی زندگی کا جزو لاینفک ہے اسے وویکانند جی نے سمجھا اور اس دور میں اپنی آواز شکاگو سے بلند کی۔ اس موقع ہم ہندستانی تھوڑی دیر ٹھہر کر یہ سوچیں کہ کیا برادر ہوڈ کا تصور جو برابری، انصاف اور آزادی پر قائم ہے اگر ہم اس کو ساتھ لے کر چلتے تو آج دنیا کی قیادت کسے ملتی؟ کیا یہ ممکن تھا کہ دستور کے ان چاروں نکات جو اس عمارت کی بنیاد ہیں کو لے کر چلتے تو کیا یہاں ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوتے؟ جبل پور، راورکیلا، نیلی، کولکاتہ، بھیونڈی، مرادآبا، گودھرا اور مظفر نگر وغیرہ ملک کے مختلف مقامات پر جو واقعات ہوئے یا ہورہے ہیں، کیا وہ ہوتے؟ وزیر ا عظم نریندر مودی نے جس انداز میں 9/11کے موقع پر سوامی وویکا نند جی کا پیغام پیش کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے اوراق کے چند جملے کہنے سے تاریخ خود بخود نہیں بنتی بلکہ تاریخ کے سارے واقعات کو سمجھ کر اور جس عہدے پر وہ اس وقت فائز ہیں کیا ان کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ 67سالوں میں ہمارے ملک کے اندر جس طرح دستور کی دھجیاں بکھیری گئیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں خود ان کا ہاتھ ہے، کیا اس سے سبق نہیں لینا چاہیے، ان کے نام پر ان کے بل بوتے ملک کے مختلف حصوں میں جو فساد برپا ہوا، تشدد ہوا یا نفرت پھیلائی جارہی ہے، بھائی چارگی کو ختم کیا جارہاہے اور خاص کر مسلمانوں کو لاچارگی کا سبق دیا جارہا ہے تو کیا ہم دنیا کو یہ باور کرارہے ہیں کہ ہماری کتھنی اور کرنی میں فرق ہے؟ وزیر اعظم سے درخواست ہے کہ ملک کو مستحکم کرنے کے لیے دستور کے دیباچہ کو پڑھیں اور خود کو بطور نمونہ پیش کرنے کے لیے آگے بڑھیں تاکہ ہمارے ملک میں وہ نمونہ اس دور میں بھی قائم ہوسکے۔ (مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں) |